رنجیت لال مادھون
دنیا میں برائیاں جس تیزی سے پھیل رہی ہیں، وہ دنیا کی تباہی کا اشارہ دے رہی ہیں۔ مثال کے طور پر عالمی سطح پر منشیات کی فروخت اور اس کی لعنت میں مبتلا افراد کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ اگر عالمی سطح پر منشیات کی تجارت کا جائزہ لیں تو انسان اور انسانیت کی تباہی کا سامان کرنے والے منشیات کی سالانہ تجارت 321 ارب ڈالرس کی ہوتی ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ شراب صرف ہندوستان میں ہی کثرت سے نہیں پی جاتی بلکہ دنیا میں اس قدر زیادہ شراب نوشی کی جاتی ہے کہ عام آدمی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا چنانچہ دنیا میں سالانہ 1600 ارب ڈالرس کی شراب فروخت ہوتی ہے یعنی لوگ شراب پر 1600 ارب ڈالرس خرچ کردیتے ہیں۔ اس طرح ہتھیار بھی انسانیت کی تباہی کا سامان ہوتے ہیں جس طرح منشیات ، شراب انسانیت کو کھوکھلا کررہی ہے۔ انسانی اقدار کی تباہی کا باعث بن رہی ہیں، اسی طرح ہتھیاروں کی تجارت، طاقتور اور ترقی یافتہ ملکوں کیلئے دنیا پر راج کرنے مختلف ملکوں کو ایک دوسرے سے لڑاکر اپنا اُلو سیدھا کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ آپ کو جان کر تعجب ہوگا کہ عالمی سطح پر ہتھیاروں یا اسلحہ کی سالانہ تجارت 100 ارب ڈالرس لاگتی ہے جبکہ مہذب سماج کے نعرے لگانے والی دنیا میں عورت کو داد عیش دینے والا ایک کھلونا بنا دیا گیا ہے۔ دنیا نے عورت کو ننگا کرکے رکھ دیا اور یہ سب کچھ حقوق نسواں یا خواتین کے حقوق کے نام پر کیا گیا۔ اب شاید دنیا کا کوئی ایسا حصہ نہیں بچا ہوگا جہاں عورت کا جنسی استحصال اس کے جسم کی خرید و فروخت نہ ہوتی ہو۔ ہر شہر، ہر ٹاؤن، ہر گاؤں میں جسم فروشی کے اڈے قائم ہوگئے ہیں۔ فاحشہ گری کیلئے خواتین کو باضابطہ لائسنس جاری کئے جارہے ہیں۔ آپ کو شاید اندازہ نہیں کہ عورت کے معاملے میں دنیا کتنی گرگئی ہے اور عورت ذات کو کس طرح گرادیا ہے۔ عالمی سطح پر جسم فروشی کو آزادی کے نام پر ایک بڑی صنعت میں تبدیل کردیا گیا۔ ہم تو اسے ببانگ دہل دنیا کی گندی و بدترین صنعت کہیں گے کیونکہ ہر لمحہ دنیا میں ہزاروں بیٹیوں کو اس جسم فروشی کے تعفن زدہ دلدل میں ڈھکیلا جاتا ہے۔ اس طرح دنیا میں جسم فروشی کے دھندہ سے سالانہ جسم فروشی خواتین دلالوں اور جسم فروشی کے اڈے چلانے والوں کو مجموعی طور پر 400 ارب ڈالرس کی آمدنی ہوتی ہے جبکہ جوئے کے ذریعہ لوگ سالانہ 110 ارب ڈالرس جھونک دیتے ہیں۔ بے شمار ملکوں میں جواکو قانونی طور پر جائز قرار دیا گیا ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو جوا کی لت میں مبتلا ہوکر انسان انسانیت سے گرجاتا ہے۔ ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں جہاں جواریوں نے جوئے میں اپنی بیویوں کو تک ہار دیا۔ دوسری طرف سونے یا گولڈ کے کاروبار کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ سالانہ 100 ارب ڈالرس کا سونا فروخت کیا جاتا ہے جبکہ کمپیوٹر گیمس پر لوگ سالانہ 54 ارب ڈالرس خرچ کردیتے ہیں۔ اس طرح اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو سالانہ 2,380 ارب ڈالرس مالیتی ناجائز و اِنسانیت دشمن کاروبار (دھندہ) کے خلاف کھڑا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ ایک ارب ڈالرس ہندوستانی 7,000 کروڑ روپیوں کے مساوی ہوتے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ 2,380 ارب ڈالرس ، ایک کروڑ چھیاسٹھ لاکھ ساتھ ہزار روپیوں (1,66,60,000) کے مساوی ہوتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2017ء میں ارون جیٹلی نے صرف 336 ارب ڈالرس کا بجٹ پیش کیا تھا۔ اگر ہم مذکورہ لعنتی کاروبار یا دھندوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ نجی صنعتی گھرانوں و اداروں کے مالکین بڑے ہی خوبصورت لبادے اُڑھاکر چلا رہے ہیں اور یہ سب کچھ آزاد خیالی، وسیع الذہنی اور وسیع القلبی اور حقوق نسواں کے نام پر ہورہا ہے۔ ایسے میں ان تمام برائیوں و فحش کاموں سے دنیا کی نجات صرف اور صرف دین اسلام میں نظر آتی ہے۔
اگر دنیا الکحل (شراب) اور منشیات فروخت نہ کرنے سے متعلق اسلامی پالیسی اپناتی ہے تو عالمی سطح پر معروف منشیات مافیا کے کاروبار کو 2,000 ارب ڈالرس کا نقصان ہوگا۔ اسلامی قانون اگر دنیا اپناتی ہے تو اس سے اسلحہ مافیا کو سالانہ 100 ارب ڈالرس کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا جس کے نتیجہ میں دنیا میں ظلم و جبر نراج معصوم لوگوں کے قتل عام اور خون آشامی کے جو واقعات پیش آرہے ہیں، ان کا سلسلہ ختم ہوجائے گا اور اسلحہ مافیا اپنے اختتام کو پہنچے گا۔ اگر دنیا جسم فروشی کے خلاف اسلامی قوانین کو اپنائے تو پھر 400 ارب ڈالر لاگتی یہ ناجائز و گندی صنعت ختم ہوجائے گی اور فحش فلموں کی ویب سائیٹس چلانے والوں کو بھی ایک سبق ملے گا۔ ان کا کاروبار بھی متاثر ہوگا ۔ دنیا میں کچھ نادیدہ شیطانی و دجالی طاقتیں لوگوں بالخصوص نوجوان نسل کو فحش فلموں کی لعنت میں مبتلا کرنے میں مصروف ہے اور مہذب دنیا نے اسے ایک صنعت کا نام دے دیا ہے ۔ جوئے کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے کیونکہ اس سے صرف ایک فرد ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ اس کا سارا خاندان سارا معاشرہ متاثر ہوتا ہے اور جوا مزید کئی برائیوں کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے۔ اگر دنیا ،جوئے کے خلاف اسلامی پالیسی اختیار کرے تو پھر سالانہ 110 ارب ڈالرس کی آمدنی حاصل کرنے والا مافیا اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔ اگر دنیا خواتین سے متعلق اس اسلامی اصول کو اپنائے کہ عورت کا جسم اس کی پرائیویسی یا خلوت ہے ، نمائش کی چیز نہیں تو پھر فحش فلموں کا جو مافیا ہے، اسے سالانہ 100 ارب ڈالرس کا نقصان ہوگااور وہ ختم ہوکر رہ جائے گا۔ یہ اسلام ہی جس نے 2300 ارب ڈالرس مالیتی ان غیرانسانی، غیراخلاقی اور انسانیت کیلئے تباہ کن کاروباروں کے خلاف لڑائی چھیڑ رکھی ہے۔ ایسے میں کیا وہ اسلام کا خیرمقدم کریں گے؟ اسلام کی مخالفت نہیں کریں گے؟ اور اسلام کے ماننے والوں نے جب جب مذکورہ انسانیت دشمن حرکتوں و اقدامات اور تجارت کے خلاف آواز اٹھائی اور دنیا کو ان لعنتوں سے بچانے کی کوشش کی تو ان کاروباروں سے جڑے مافیا نے عالمی میڈیا کے ذریعہ ان لوگوں کو اسلامی دہشت گردی کا نام دے دیا اور میڈیا مافیا نے دنیا کو فحش ، ظالم و جابر بنانے والوں کی پھینکی ہوئی ہڈیوں کو کھانا شروع کیا اور ان کی پھینکی ہوئی ہڈیوں کے ذریعہ ہی اپنا بقاء کو یقینی بنانا شروع کیا۔ ان لوگوں نے اپنے اپنے ملکوں میں یہ چیخ و پکار شروع کی کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے۔ یہاں تک کہ دین اسلام اور انسانیت دشمن عناصر نے اپنی ناجائز و غیرقانونی آمدنی سے دہشت گردی کو بڑھاوا دیا اور اس مافیا نے اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح کو عام کیا اور جھوٹ اس قدر زور سے بولا کہ ہر کوئی ایک آواز میں یہ کہنے لگا کہ اسلام انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کو بڑھاوا دیتا ہے۔ ان لوگوں نے کئی ارب ڈالرس خرچ کرتے ہوئے بعض مسلمانوں کو خریدا جنہیں ایمان فروش مسلمان کہا جاسکتا ہے، حالانکہ دین اسلام واضح طور پر کہتا ہے کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے۔ اسے ان لوگوں نے اپنے گندے پروپگنڈہ کے ذریعہ انتہا پسندی کا مذہب بنادیا۔ اگر آپ کی آنکھوں پر تعصب و جانبداری کی پٹی نہیں بندھی ہے۔ آپ کا دل اور ضمیر مردہ نہیں ہے تو پھر اپنی آنکھیں کھولئے ،اپنا قلب و ذہن کھولئے اور ہنسئے کس قدر مہارت سے اللہ کے دشمنوں نے آپ کو اس سے دُور کردیا ہے۔ تمہارے مالک نے تمہارے خالق نے جو کچھ ہدایات دیں جو کچھ حکم دیا ہے، ان سے تمہیں ان دشمنان اسلام نے کیسے دور کردیا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ فرماتے ہیں: ’’بے شک انسان اپنے رب کا بڑا نا شکرا ہے‘‘۔