محمد مبشر الدین خرم
اللہ تعالی اپنے بندوں کو اس قدر مصائب میں مبتلاء نہیں کرتے کہ ان کی برداشت کی صلاحیت نہ ہو اور اللہ رب العزت اپنے ان بندوں کو آزمائش میں مبتلاء کرتے ہیں جو اللہ کے دین پر چلتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہیں ۔ آزمائش اور عذاب میں فرق کو محسوس کرنے کے لئے یہ لازمی ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں کیونکہ محاسبہ کے ذریعہ ہی ہم جان سکتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمیں آزمائش میں مبتلاء کیا ہے یا پھر اللہ کا عذاب ہم پر نازل ہورہا ہے۔ ابھی چند ماہ قبل یوم عاشورہ کے موقع پر شہر حیدرآباد کی ایک مسجد میں معروف عالم دین کے خطاب کے دوران ایک دردناک واقعہ سنا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ شہر کے ہی کسی علاقہ میں ایک شخص کا انتقال ہوااوراسے نماز جنازہ کے لئے جب مسجد لے جایا گیاتو اس کے فرزند نے اعتراض کیا کہ ’’بابا کو یہاں کیوں لایا گیا ہے‘‘ وہ کبھی یہاں نہیں آ:ے اور نہ ہم آتے ہیں اور اس نوجوان نے اپنے والد کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھی ۔ اس واقعہ نے صورتحال کی نوعیت کو سمجھنے کی دعوت دی تھی کہ ملک بھر میںسی اے اے اور این آر سی کے علاوہ این پی آر نے مصروف کردیا لیکن جب کورونا وائرس نے دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کردیا اور ابتداء میں ہی حرمین شریفین میں پابندیاں عائد کردی گئیں اس کے ساتھ بتدریج دنیا بھر میں اور ہمارے شہر میں بھی مساجد میں نماز کو محدود کرنے کے اہم ترین فیصلہ لئے گئے ۔کورونا وائرس سے شہر حیدرآباد میں ہونے والی پہلی موت کے بعد جو چیز سامنے آئی ہے وہ لرزہ طاری کرنے کیلئے کافی ہے کیونکہ یوم عاشورہ کے موقع پر جو خطاب میں واقعہ سنا گیا تھا اس میں کم از کم مرنے کے بعد مسجد لے جایا گیا تھا لیکن اب کورونا وائر س کے لاک ڈاؤن کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس میں جنازہ کو بھی مسجد میں لانے کی اجازت نہیں رہی۔ اللہ تعالی اپنے بندوں سے جو محبت کرتا ہے اس کی کئی ایک مثالیں دی گئی ہیں لیکن سب سے بہترین مثال اور حوالہ جو دیا جاتا رہا ہے اس میں کہا جاتا ہے کہ اللہ اپنے بندو ںسے 70ماؤں کی محبت کرتا ہے لیکن اب جو دنیا کے حالات ہورہے ہیں ان حالات میں بندہ اللہ سے قریب ہونے کے بجائے دور ہونے لگا ہے جبکہ اللہ تعالی نے دور حاضر کے لوگوں پر اپنی ربوبیت ظاہر کردی ہے اور بتایا دیا ہے کہ دنیا کا خالق و مالک جو اس نظام حیات کو چلا رہا ہے وہ اگر چاہے تو دنیا کو اس کی ہوش ربا کرنے والی ترقی کے باوجود یکلخت روک سکتا ہے ۔ دنیا کے بیشتر تمام ممالک جو اس وائر س سے متاثر ہیں وہ سائنسی تحقیق کے ساتھ ساتھ قدرتی کرشمہ کی بات کرنے لگے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اب کوئی ایسی آفاقی طاقت اور قوت ہی دنیا کو بچا سکتی ہے جو اس نظام حیات کو چلا رہی ہے ۔ سائنس پر انحصار کرنے والی دنیا بھی تحقیق کے ساتھ اس قوت کو یاد کرنے پر مجبور ہونے لگی ہے جو کہ لا فانی اور ہر شئے پر قدرت رکھنے والی ہے۔ اللہ رب العزت کی شان ربوبیت کو آواز دینے کیلئے لازمی ہے کہ درد مند اہل دل دست بہ دعاء ہوں اور امت کے حق میں دعاء کرتے ہوئے اس عذاب سے نجات کیلئے گڑگڑائیں کیونکہ وہ 70 ماؤں کی محبت رکھنے والے رب کی رحمت کو جوش آئے۔
سعودی شاہی خاندان
سعودی شاہی خاندان کے افراد کورونا کی لپیٹ میں آچکے ہیں!یہ ایک ایسا سوال ہے کہ اس کے جواب جمہوری ممالک کو ملنا دشورا کن ہیں کیونکہ شاہی میں خبروں کی قبر جس طرح سے بنائی جاتی ہے وہ ہر کوئی جانتا ہے۔ دنیا کے طاقتور ترین تصور کئے جانے والے خاندانوں میں آل سعود بھی ایک ایسا خاندان ہے جس کا شمار صف اول کے گھرانوں میں ہوتا ہے اور اس خاندان کو خادمین حرمین شریفین کا اعزاز حاصل ہے اور یہ خاندان اب گوشۂ عافیت کی تلاش میں نکل پڑا ہے تو حالات کی حساسیت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہوگا ۔ آل سعود کے درمیان اختلافات کوئی نئی بات نہیں ہے اور کورونا وائرس کی وباء کے آغاز سے قبل بھی خاندانی اختلافات پر مبنی ایک خبر سرخیوں میں رہی لیکن اس کے بعد حرم مکی اور حرم مدینہ عوام کیلئے بند کردیئے گئے اس سے بڑی اندوہناک خبر کوئی اور نہیں ہوسکتی لیکن اس پورے عمل کو سائنس کی تائید کی بنیاد پر انجام دیا گیا اور سائنسی احتیاط نے حرم کعبہ کو خالی کردیا۔ سعودی فرمانرواں اور ان کے ارکان خاندان کے قرنطینہ میں رضاکارانہ طور پر چلے جانے کے بعد کیا حالات پیدا ہوں گے اس کے متعلق کچھ بھی کہنا دشوار ہے کیونکہ شاہی گھرانہ بالخصوص ولی عہد اپنے اقتدار کو درپیش خطرات کو اچھی طرح سے محسوس کر رہے ہیں اور ایسے میں ان کا قرنطینہ میں چلا جانا یہ واضح کرتا ہے کہ کورونا وائر س کی وباء نے خاندان کو آگھیرا ہے کیونکہ اقتدار سے زیادہ جان پیاری ہوتی ہے اور اکثر شاہی گھرانوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اقتدار کیلئے جان دی نہیں بلکہ جان لی جاتی ہے اور اس میں کوئی عار تصور نہیں کیا جاتا ہے کہ جان کس کی ہے بلکہ پیش نظر صرف اقتدار ہوتا ہے۔
ہندستان‘ ہائیڈروکسی کلوروکوئین‘اسرائیل اور امریکہ
ملیریا سے بچاؤ اور اس کے علاج کیلئے استعمال کی جانے والی ادویات میں ہائیڈروکسی کلوروکوئین کو کافی اہمیت حاصل ہے اور اس دوا کی تیاری ہندستان میں ہوتی ہے اور دنیا آج اس دوا کے حصول کے لئے ہندستان کو دھمکانے لگی ہے ۔ جی ہاں امریکی صدرڈونالڈ ٹرمپ نے ہندستان سے یہ دوا حاصل کرنے کیلئے اپنے رفیق نریندر مودی سے دوستی کاحوالہ بھی اور یہ بھی کہا کہ ہندستان ہائیڈروکسی کلوروکوئین نامی ادویات نہیں دیتا ہے تو ایسی صورت میں ہندستان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ امریکی صدر کی جانب سے ہندستان کو دی گئی اس دھمکی پر ابھی مباحث جاری ہی ہیں کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو نے نریندر مودی اور ہندستان سے 5 ٹن ہائیڈروکسی کلوروکوئین کی سربراہی پر اظہار تشکر کیا ۔ ہندستان کی جانب سے اسرائیل سے مستحکم ہوتے تعلقات اور کوروناوائرس کی اس وباء کے دورمیں اختیار کئے جانے والے رویہ سے یہ محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ کس سے قربتیں بڑھ رہی ہیں اور کس سے دوستانہ تعلقات میں بھی دھمکیاں ملنے لگی ہیںاس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دوست جتنا قریبی ہوگا اس کی دھمکی میں اثر بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا کیونکہ دوستی کا مدعی ہی ایسی جگہ وار کرتا ہے جہاں تکلیف زیادہ ہوتی ہے۔کوروناو ائرس کے لاک ڈاؤن کے سبب ہندستان میں پھنسے اسرائیلی شہریوں کو ہندستانی ائیر لائنس ’ائیر انڈیا‘ نے انہیں اپنے ملک پہنچایا اور اس بات پربھی اسرائیل نے ہندستان کا شکریہ ادا کیا ہے لیکن امریکی شہریوں کو جو ہندستان میں لاک ڈاؤن کے سبب پھنسے ہوئے تھے انہیں واپس لیجانے کا انتظام امریکہ نے خود کیا ہے۔ہندستا ن میں انتہائی معمولی تصور کی جانے والی ادویات میں شمار کی جانے والی ملیریا کی اس دواء کے لئے امریکی صدر کو میڈیا کے سامنے اپنے دوست کو دھمکی دینی پڑی لیکن اسرائیل نے کب یہ ادوایات مانگی یہ تو پتہ نہ چل سکا مگر 5ٹن ادویات پہنچنے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے اظہار تشکر کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہندستان نے اسرائیل کو ادویات روانہ کردی ہیں۔ امریکہ میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد5لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور قریب 20ہزار اموات واقع ہوچکی ہیں جبکہ اسرائیل میں کورونا وائرس کے مصدقہ مریضوں کی تعداد 12ہزار کے قریب ہے اور اموات 100کے قریب ہوچکی ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کیوں ڈونالڈ ٹرمپ نے دھمکی آمیز انداز میں ادویات دینے کا مطالبہ کیا ہے۔جہاں مریض اور اموات زیادہ ہوتی ہیں وہاں ادوایات کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے لیکن اسرائیل کو ادویات مل گئی وہ بھی 5ٹن اور امریکہ کو ادویات کے لئے دھمکی دینی پڑ رہی ہے۔
امریکی دواخانوں اور غسل خانوں کی حالت
کورنا وائرس کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ امریکی ریاستوں میں بڑھتی جا رہی ہے اور کورونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے کیلئے جو کوششیں کی جار ہی ہیں ان کوششوں کے دوران امریکی صدر اور امریکی عوام دونوں ہی ذہنی تناؤ کا شکارہونے لگے ہیں۔ امریکہ میں روزانہ بڑھ رہے کورونا کے مریضوں کی تعداد اور اموات کو دیکھتے ہوئے امریکہ نے اس بات پر غور کرنا شروع کردیا ہے کہ اب مرنے والے مریضوں کی اجتماعی قبریں بنائی جائیں کیونکہ اب انفرادی قبروں کیلئے گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے۔ امریکہ میں سب سے پہلے سیاٹیل میں کورونا وائرس کے اثرات اور مریض کے پائے جانے سے یہ علاقہ خبروں میں رہا اور اس کے بعد نیو یارک اور نیو جرسی کورونا کے قہر کا مقابلہ کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے اور اب بھی ان دونوں علاقوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور ان علاقوں کے قابو میں آنے سے قبل ہی ملک کی دیگر ریاستیں الینائے (شکاگو) اور ڈیٹرائیٹ تیزی سے متاثر ہونے لگے ہیں لیکن اس کے باوجود امریکہ میں اندرون ملک پروازوں کا سلسلہ کسی حد تک جاری ہے اور کہا جا رہاہے کہ حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات سے عوام مطمئن نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود اس کے مقابلہ کے لئے حکومت کے احکامات پر عمل آوری کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ سماجی فاصلہ برقرار نہ رکھے جانے پرامریکی ریاستو ںمیں 1500 ڈالر کا جرمانہ عائد کیا جا رہاہے جس کے سبب لوگ گھروں میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔امریکی غسل خانوں میں جہاں میت کو غسل دیا جاتا ہے اور آخری رسومات کے لئے جہاں سے لے جایا جاتا ہے ان کی حالت بھی دواخانوں کے مردہ خانو ں سے زیادہ ابتر ہونے لگی ہے کیونکہ روزانہ کے اساس پر سینکڑوں میتیں ان مقامات پر لائی جا رہی ہیں اور سرکا رطور پر ان کی تدفین کا انتظام کیا جارہا ہے ۔نیویارک اور نیو جرسی کے بعد اب الینائے اور ڈیٹرائیٹ میں کورونا وائرس کی دہشت میں اضافہ ہونے لگا ہے۔
وائرس کا ٹیکہ ہی حالات کو معمول پر لائے گا
مغربی دنیا میں انصاف پسنداور دو ٹوک اظہار خیال کرنے والے رہنماء تصور کئے جانے والے وزیر اعظم کینیڈا جسٹن ٹروڈو نے جاریہ ہفتہ اپنے ایک ریمارک کے ذریعہ دنیا کے حالات کو جلد معمول کے مطابق بنانے کا مطالبہ کرنے والوں کو شش و پنچ میں مبتلاء کردیا ہے کیونکہ انہوںنے اپنے بیان میں یہ کہہ دیا ہے کہ جب تک کورونا وائرس کا ٹیکہ نہیں آجاتا اس وقت تک دنیا کے حالات معمول کے مطابق نہیں ہوسکتے کیونکہ وائرس کے پھیلنے کے خوف نے ہی دنیا کو مقفل اور شہریوں کو اپنے گھروں کی حد تک محدود کردیا ہے۔جسٹن ٹروڈو کے اس انصاف پسندانہ بیان کے ساتھ اگر ماہرین ادویات سازی اور سائنسی محققین کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو دنیا18 ماہ تک لاک ڈاؤن میں رہے گی کیونکہ لاک ڈاؤن کے ذریعہ صرف خود کو بچایا جاسکتا ہے لیکن مرض کا علاج نہیں ہوسکے گا۔لاک ڈاؤن ایک احتیاط ہے اور اس احتیاط کے ذریعہ حالات کو قابو رکھا جاسکتا ہے اور دنیا بھر میں فی الحال اسی بات کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس میں کسی حد تک ہندستان کے علاوہ کئی ممالک کو کامیابی بھی حاصل ہورہی ہے ۔گذشتہ مضمون میں اس بات کا تذکرہ کیا جاچکا ہے کہ ہندستان کورونا وائرس کے ٹیکہ کو منظر عام پر لا سکتا ہے اور اس صورتحال میں ہندستان کو معاشی ابتری کا سامنا کرنے کی نوبت نہیں آئے گی بلکہ کورونا وائرس کے ٹیکہ سے معیشت مستحکم ہونے کی سمت مائل ہونے لگ سکتی ہے لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ہندستان سے ہی ٹیکہ کو منظر عام پر لایا جائے گا کیونکہ دو بڑی قوتوں کے درمیان اگر مفاہمت ہوجاتی ہے اور اب تک خود کو دنیا کا سوپر پاؤر تصور کرنے والا سوپر پاؤر بننے کے خواہش مند کی طاقت کو قبل کرلے توحالات کچھ اور بھی ہوسکتے ہیں جو کہ ہندستان کیلئے تشویشناک ثابت ہوسکتے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہوگی کہ دونوں قوتیں ’’یقین ‘‘ رکھنے والی ہیں اور ان کو اس بات کا بھی یقین ہے کہ باطل کو مٹنا ہی ہوگا ۔اسی لئے دونوں اس قوم سے مفاہمت کرنے میں پس و پیش کریں گی جو صرف ان سے ایک قوم کی دشمنی کے سبب دوستی کی ہوئی ہے لیکن جب تینوں کا مقصد ہی ایک ہوجائے گا تو ممکن ہے کہ وہ آپس میں متحد ہوجائیں مگر دنیا کے موجودہ حالات میں ان دونوں قوتوں کے مفادات مسلم دنیا سے بھی وابستہ ہیں ۔دونوں اقوام کے مسلم دنیا سے وابستہ مفادات اور ٹیکہ کے منظر عام پر لائے جانے کی جگہ کے تعین کے معاملات کا جائزہ لیں تو مسلم دنیا نے ہندستان سے اور ہندستان نے مسلم دنیا بالخصوص خلیج سے کافی مستحکم تعلقات گذشتہ 5برسوں کے دوران استوار کئے ہیں ۔اسی لئے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ ادویات کے لئے دھمکی دینے والے اور بغیر دھمکی کے ادویات حاصل کرتے ہوئے اظہار تشکر کرنے والوں کی ادویات روانہ کرنے والوں سے ہی دوستی ہوگی بلکہ وہ کسی اور کو بھی ترقی کے زینہ پر لا کھڑا کرسکتے ہیں ۔
اسپین‘اٹلی ‘ ویٹیکن سٹی اور کورونا وائرس
مقدس شہروں میں جہاں لاک ڈاؤن نے سب کو محروس کردیا ہے وہیں اسپین میں 16 ہزار اموات کورونا وائرس کے سبب ہوچکی ہیں اور 1لاکھ 60ہزار سے زائد مصدقہ مریض موجود ہیں ۔اسی طرح اٹلی میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد 19ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور اب بھی مصدقہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ کا سلسلہ جاری ہے اگر ویٹیکن سٹی جو جہاں پوپ رہتے ہیں اس کا جائزہ لیں تو یہ ملک بلکہ شہروں سے بھی چھوٹا علاقہ لیکن تقدس کے اعتبار سے عیسائیوں کے لئے سب سے بڑامانے جانے والا ہے وہاں اب تک کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد 1 بتائی جاتی ہے لیکن اس کی بھی توثیق نہیں کی جا رہی ہے اور کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 8 ہے اور 2 صحت یاب ہوچکے ہیں۔ویٹیکن سٹی کی جملہ آبادی 618نفوس پر مشتمل ہے اور پوپ فرانسس نے کورونا وائرس کی وباء کے بعد عوام کے درمیان آنا بھی بند کردیا ہے ۔اسپین ‘ اٹلی میں کورونا وائرس کے مریضو ںکی تعداد میں گذشتہ ہفتہ کے دوران کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے لیکن یہ کہا جا رہاہے کہ یہ کمی ٹسٹ نہ کرنے کے سبب ریکارڈ کی جا رہی ہے اور اگر ٹسٹ کی رفتار تیز کردی جائے تو اس تعداد میں دوبارہ اضافہ ہو سکتا ہے ۔چین میں کورونا وائرس کی دوبارہ واپسی کی اطلاعات نے ان ممالک کی دہشت میں مزید اضافہ کردیا ہے جو پہلے سے ہی کورونا کے مصدقہ مریضوں کی تعداد میں ہونے والے اضافہ اور اموات سے پریشان ہیں۔ان حالات میں ایران کی جانب سے لاک ڈاؤن ختم کرنے کے اعلان نے دنیا کو ایران کی جانب سے متوجہ کیا ہے لیکن ایران سے بھی اب کورونا کے متاثرین کی تعداد میںتیزی سے اضافہ کی اطلاعات نہیں آرہی ہیں بلکہ کہا جا رہاہے کہ معمول سے کم مریض مصدقہ پائے جا رہے ہیں اور اب یہ تعداد ایران میں 66ہزار300 تک پہنچ چکی ہے اور ایران میں ہونے والی اموات کے متعلق عالمی ادارہ ٔ صحت کے مطابق4200 ہوچکی ہیں۔
ہندستان میں کورونا وائرس
ہندستان میں کورونا وائرس نے مذہبی منافرت کا سبب بننے لگا ہے اور اس بیماری کیلئے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوششیں کچھ حد تک کامیاب ہوتی نظر آرہی ہیں لیکن ان کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے لازمی ہے کہ حکومت آگے آئے اور بیماری کے لئے کسی مخصوص مذہب کو ذمہ دار قرار دینے کی کوششوں کو مسترد کرتے ہوئے بھائی چارہ کو بہتر بنانے کے اقدامات کرے کیونکہ ایسا نہ کرنے سے ہندستان کے نظریۂ وحدت میں کثرت کو شدید دھکا لگے گا اور ہندستان کو دنیا کے آگے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا جو کہ اب بھی کرنا پڑرہا ہے کیونکہ کورونا وائرس کو مذہب سے جوڑنے کی کوشش کی عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے مذمت کی گئی ہے اور بیرونی ذرائع ابلاغ میں ان کوششوں کو مذہبی منافرت پر مبنی قراردیتے ہوئے سالمیت کے لئے خطرہ بتایا جانے لگا ہے۔
ملک میں جو لوگ کوروناوائرس کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش میں اپنی توانائی ضائع کررہے ہیں اگر وہ اس کے بجائے ان لوگوں کی بھوک اور فاقوں پر توجہ دیتے جو بے یار و مددگار ہیں تو گجرات کے شہر سورت میں ہنگامہ آرائی اور آتشزنی کے واقعات نہیں ہوتے لیکن جو منافرت پھیلانے والے ہیں انہیں آگ سے مطلب ہے خواہ پیٹ میں لگے یا شہر میں لگے وہ آگ انہیں سکون پہنچاتی ہے مگر جب آگ شعلوں میں بدل جاتی ہے تو یہ نہیں دیکھتی کہ زد میں آنے والا گھر کس کا ہے! اسی لئے جو لوگ نفرت کو بڑھاوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اس سلسلہ کو فوری بند کریں اور انسانیت کی خدمت کے ذریعہ ہم آہنگی کو فروغ دیں۔
ہندستان میں کورونا وائرس کے مصدقہ مریضوں کی تفصیلات کے سلسلہ میں عالمی ادارۂ صحت کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو 130کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں 8ہزار سے زیادہ کورونا وائرس کے مصدقہ مریض ہیں اور اس مرض سے ہونے والی اموات 1000 سے تجاوز کرچکی ہیں۔ہندستان میں کورونا وائرس سے نمٹنے کی جس انداز میں تیاریاں کی جا رہی ہیں اگر ان کا جائزہ لیاجائے تو حکومت کو اس بات کا اندازہ ہے کہ ہندستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی بڑی تعداد کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اسی لئے ریلوے کوچ کو دواخانہ میں تبدیل کیا جا رہاہے اور خانگی دواخانوں کو حاصل کیا جا رہاہے علاوہ ازیں عارضی دواخانوں کے قیام کے اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہونے کی وجوہات کے متعلق ماہرین کا کہناہے کہ ہندستان میں ٹسٹ نہیں کئے جا رہے ہیں اور جب ٹسٹ کرنے شروع کئے جائیں گے تو یہ مصدقہ مریضوں کی تعداد میں گمان سے بھی زیادہ اضافہ ہوگا اسی لئے حکومت کی جانب سے اتنے تیز رفتار احتیاطی اقدامات کئے جا رہے ہیں اور جب تمام تیاریاں مکمل کرلی جائیں گی اس وقت معائنوں کا عمل شروع کیا جائے گا۔ہندستان میں کورونا وائرس سے حفاظت کے لئے لاک ڈاؤن میں توسیع اور دیگر کئی اقدامات کئے جاچکے ہیں لیکن اس کے باوجود عوامی شعور بیداری میں کہیں نہ کہیں خامی ہے جس کے سبب کئی شہری علاقوں میں نوجوان لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
کورونا وائرس ‘ جذبۂ خدمت اور دعوت
ملک بھر میں کوروناوائرس سے بچنے کیلئے لاک ڈاؤن کے بعد کئی لوگوں کو مختلف پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور پریشان حال لوگوں کی خدمت کیلئے وہی لوگ سب سے آگے ہیں جن پر یہ الزام عائد کیا جارہاہے کہ ان کی وجہ سے کورونا وائرس ملک میں پھیلا ہے۔مسلمانوں پر جو الزام عائد کر رہے ہیںاور منفی پروپگنڈہ چلا رہے ہیں ان کو مسلم تنظیموں اور نوجوانوں کی جانب سے انجام دی جانے والی خدمات مؤثر جواب ثابت ہورہی ہے لیکن اکثریتی طبقہ کا وہ حصہ جو متمول ہے اور اسے کسی شئے کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی ہے وہ زمینی حقائق سے نا واقف نفرت انگیز مہم چلانے میں مصروف ہے لیکن ان حالات میں مایوس ہونے کے بجائے اگر مسلمان اس وائر س کو ہی اپنا ہتھیار بناتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرتے ہیں اور دیگر ابنائے وطن کو پیام ربانی کی عملی مثال پیش کرتے ہیں تو ایسی صورت میں ان حالات کو پہلے سے زیادہ بہتر بنایا جاسکتا ہے کیونکہ جب کبھی مشکل حالات پیدا ہوتے ہیں یا اچھے حالات ہوتے ہیں تو بہ حیثیت مسلمان ہمارا یہ ایقان ہے کہ یہ حالات اللہ تعالی کی جانب سے ہے اور ان حالات میں ہمیں اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اس با ت کا جائزہ لینا چاہئے کہ یہ مشکل گھڑی عذاب ہے یا آزمائش کیونکہ جب عذاب نازل ہوتا ہے تو بندہ اللہ سے دور ہونے لگتا ہے اور جب آزمائش آتی ہے تو بندہ رجوع الی اللہ ہوتے ہوئے اپنے روٹھے ہوئے رب کو منانے کی سمت مائل ہوتا ہے ۔ ملک کے موجودہ حالات میں ہندستانی مسلمانوں بالخصوص اس طبقہ کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے جو امت کے حالات کا ذمہ دار تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اگر وہ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے حکمت عملی تیار کرتے ہیں اور اس مشکل گھڑی میں دین اسلام کی حقانیت کو پیش کررتے ہیں تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے مگر اس کے لئے پہلے اپنا محاسبہ کرنے اور اپنے پوشیدہ گناہوں سے توبہ و استغفار کے ساتھ اللہ کی مدد طلب کرنا لازمی ہے تاکہ جو حکمت عملی تیار کی جائے اس میں فتح و نصرت حاصل ہو اور للہیت کے ساتھ کی جانے والی اس کوشش میں من اللہ کامیابی کا یقین رکھیں۔
@infomubashir