ملاقات ہوئی کیا بات ہوئی

   

امیت شاہ … علماء کی نظر میں بدل گئے!
قیادت اقتدار کی چوکھٹ پر … خوش فہمی آخر کب تک

رشیدالدین

’’بدلے بدلے میرے سرکار نظر آرہے ہیں‘‘ وزیر داخلہ امیت شاہ سے ملاقات کے بعد مسلم مذہبی رہنماؤں کا ردعمل کچھ اسی طرح کا تھا۔ کیا امیت شاہ واقع بدچکے ہیں، جس طرح کے ملاقات کرنے والوں نے دعویٰ کیا ہے۔ امیت شاہ کے بارے میں بدل جانے اور سیاسی تقاریر سے مختلف دکھائی دینے کی بات سن کر ہم اس الجھن میں مبتلا ہوگئے کہ آخر بھروسہ کریں تو کس پر۔ علماء کی بات پر بھروسہ کیا جائے یا پھر امیت شاہ کی حقیقی شخصیت پر۔ علماء کے نمائندوں نے امیت شاہ کے بارے میں جو رائے ظاہر کی، سننے کے بعد مسلمانوں کو اندیشہ تھا کہ کیا واقعی اصلی امیت شاہ سے ملاقات ہوئی یا ان کے کوئی نمائندے تھے کیونکہ ملاقات کی تصاویر جاری نہیں کی گئیں۔ کیا وہی امیت شاہ تھے جنہوں نے حال ہی میں گجرات فسادات میں مسلمانوں کے خلاف کی گئی کارروائیوں کو درست قرار دیا تھا ۔ کیا علماء نے وہی امیت شاہ سے بات چیت کی جنہوں نے این آر سی ، این پی آر اور سی اے اے کے ساتھ یکساں سیول کوڈ اور ہندو راشٹر کی تائید کی تھی ۔ علماء کے نمائندوں نے امیت شاہ کی جس انداز میں تعریف کی ، مسلمان امید کرنے لگے کہ ان کے اچھے دن کا آغاز ہوگا۔ مسلمانوں پر حملوں کا سلسلہ بند ہوجائے گا ، دینی مدارس کو اب کوئی نذر آتش نہیں کرے گا ۔ مساجد پر حملے نہیں ہوں گے ۔ لو جہاد اور گاؤ رکھشا کے نام پر ماب لنچنگ نہیں ہوگی، دینی مدارس اور مسلمانوں کے گھروں پر اب بلڈوزر نہیں چلے گا، ٹرینوں اور اسٹیشن پر نماز کی ادائیگی پر حملے اور مقدمات نہیں ہوں گے، درگاہوں اور مساجد کے مندر ہونے کے دعوے بشمول کاشی اور متھرا پر دعویداری ترک کردی جائے گی، علماء کی گرفتاریاں بند ہوں گی۔ الغرض کسی طرح کے کئی معاملات ذہن میں آگئے ۔ انسان ہمیشہ پرامید ثابت ہوا ہے اور ان میں مسلمان تو بہت جلد اور آسانی سے کسی کے بھی دام فریب میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ مذہبی اور سیاسی قائدین سے کوئی ہنس کر بات کریں تو قائدین گرویدہ ہوجاتے ہیں۔ کوئی لیڈر ٹوپی پہن لیں ، السلام علیکم سے تقریر کا آغاز کریں تو بھولے بھالے مسلمان پھسل جاتے ہیں۔ جہاں تک امیت شاہ کے وعدوں کا سوال ہے ، ہمیں پی وی نرسمہا راؤ کے وہ وعدے یاد آگئے جو مسلم قیادت سے کئے گئے تھے۔ بابری مسجد کی شہادت سے قبل مسجد کے تحفظ اور شہادت کے بعد اسی مقام پر تعمیر کا وعدہ لال قلعہ کی فصیل سے کیا گیا تھا۔ اردو ، عربی اور فارسی پر عبور رکھنے والے نرسمہا راؤ پر اس وقت کی مسلم قیادت نے ویسے ہی بھروسہ کیا تھا جیسا کہ آج کی قیادت امیت شاہ پر کر رہی ہے ۔ مسلم مذہبی اور سیاسی قائدین نے 2014 ء کے بعد سے آج تک کئی مرتبہ وزیراعظم نریندر مودی، امیت شاہ ، موہن بھاگوت اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوال سے ملاقاتیں کیں لیکن مسلمانوں کے مسائل اور ان پر مظالم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیوں کے ازالہ کیلئے ملاقات اور مذاکرات کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔’’بات کرنے سے بات بڑھتی ہے‘‘ کے مصداق بات چیت کا راستہ کھلا رکھا جائے لیکن بات چیت ان سے ہو جو حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے خود کو بدلنے کا از رکھتے ہوں ورنہ فارسی مقولہ کے مطابق آزمائے ہوئے کو دوبارہ آزمانا جہالت ہے۔ اب تک کے مذاکرات سے کیا نتیجہ برآمد ہوا جو گزشتہ دنوں کی ملاقات سے تبدیلی آئے گی ؟ جس شخص سے تبدیلی کی کوئی امید اور امکان ہی نہ ہو ان کے آگے قوم کے مسائل رکھنا بھینس کے آگے بین بجانے کی طرح ہے۔ ملک کی جدوجہد آزادی میں جمعیۃ العلماء کی قربانیوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ انگریز سامراج کے آگے جھکنے کے بجائے تختہ دار کو ترجیح دینے والے اکابرین کے وارث اقتدار کی چوکھٹ پر پہنچ گئے ۔ آزادی کے بعد بھی جمعیۃ العلماء نے جدوجہد اور قربانیوں کا کوئی معاوضہ کسی عہدہ یا منصب کی صورت میں نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کی آواز ماضی میں ایوان اقتدار میں بھونچال پیدا کرتی رہی لیکن آج صورتحال مختلف ہے۔
علماء اور دانشوروں کے 16 رکنی وفد نے امیت شاہ کو 14 امور پر توجہ دلانے کا دعویٰ کیا ہے جن کا مسلمانوں کو سامنا ہے ۔ فسادات ، ماب لنچنگ ، مدارس پر حملے ، کرناٹک میں 4 فیصد تحفظات کی برخواستگی اور اشتعال انگیز تقاریر جیسے امور پر تبادلہ خیال کے دوران امیت شاہ نے بقول علماء کے بغور سماعت کی اور کسی بھی موضوع پر تردید یا انکار کے موقف میں نہیں تھے۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو درپیش جن مسائل کا حوالہ دیا گیا ، ان میں امیت شاہ کیلئے تردید کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔ ہمیشہ کی طرح میٹھی میٹھی باتوں اور دلاسہ دے کر خوش کردیا گیا۔ جس وقت امیت شاہ علماء کے کان خوش کر رہے تھے ، اسی دن کرناٹک کے بی جے پی اقتدار میں لو جہاد کے نام پر مسلم نوجوان کی پٹائی کی جارہی تھی۔ 14 مسائل میں ایک کا بھی حل نہیں ہوا لیکن علماء خوشی سے بے قابو ہیں اور ملاقات کی تائید کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امیت شاہ واقعی بدل گئے تو انہیں خود میڈیا کے سامنے آکر بیان دینا چاہئے تھا۔ امیت شاہ کی جانب سے کوئی بیان تک جاری نہیں کیا گیا، پھر کیسے مان لیں کہ وہ پہلے کی طرح نہیں رہے۔ امیت شاہ اپنے دفتر کے ذریعہ دنیا کو یہ بتانے تیار نہیں کہ علماء نے ان سے ملاقات کی۔ لہذا ان کے دفتر میں کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ مودی ہوں کہ امیت شاہ مسلمانوں سے ہمدردی صرف بند کمرے میں کرسکتے ہیں اور کھلے عام اکثریتی طبقہ کی سیاسی کرتے ہیں۔ انہیں اقلیتوں سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ امیت شاہ واقعی بدل چکے ہیں تو گجرات فسادات اور مودی دور حکومت کے واقعات پر مسلمانوں سے معذرت خواہی نہ سہی ندامت اور افسوس کا اظہار کریں۔ افسوس تو یہ ہے کہ مسلمان جنہیں خالق کائنات نے خیر امت کے اعزاز سے نوازا اسے قیادتوں نے برائے فروخت شئے بنادیا ہے ۔ حالانکہ داعیانہ کردار کی حامل اس قوم کی ترقی اور زوال کے اسباب قرآن اور حدیث سے وابستہ ہیں۔ حکمراں پارٹیوں نے ہر دور میں مسلمانوں کو ووٹ بینک سے زیادہ اہمیت نہیں دی اور یہ کام قوم کے نام نہاد قیادت کے دعویداروں سے لیا گیا۔ مولانا کلیم صدیقی موجودہ وقت میں عزیمت کی زندہ مثال ہے جنہیں تبدیلی مذہب کے الزامات کے تحت 20 ماہ سے زائد تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ ان کے حق میں کسی نے آواز تک نہیں اٹھائی ۔ شائد اس خوف سے کہ کہیں آواز اٹھانے والا بھی نشانہ پر نہ آجائے۔ 20 ماہ کے بعد ضمانت پر رہائی عمل میں آئی ہے۔ نئی نسل کو مولانا کلیم صدیقی سے روشنی اور حوصلہ لینے کی ضرورت ہے ورنہ آج کے دور میں اسلام اور ملت کی خاطر آزمائش سے گزرنے والے کہاں ہیں۔ جب کبھی کوئی مصیبت دکھائی دے تو فوری ارباب اقتدار کے دامن میں پناہ لی جاتی ہے۔ ملک میں 2014 ء لوک سبھا انتخابات کی تیاریوں کا بی جے پی نے ابھی سے آغاز کردیا ہے۔ ایسے میں علماء کے ساتھ امیت شاہ کی ملاقات کا مقصد مسلمانوں کو بی جے پی کے بارے میں گمراہ کرنا ہے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے اکابرین کی تاریخ رہی ہے کہ انہوں نے کبھی بھی اقتدار کی چوکھٹ پر قدم نہیں رکھا۔ علی میاں نے ہمیشہ اقتدار سے کنارہ کشی اختیار کی اور صاحب اقتدار خود ان کی چوکھٹ پر دکھائی دیتے تھے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ الیکشن سے قبل مودی اور امیت شاہ کی جانب سے مسلم مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں اس لئے بھی اضافہ ہوگا کیونکہ کانگریس کی زیر قیادت اپوزیشن جماعتیں متحد ہورہی ہے۔ بی جے پی کو اقتدار سے محرومی کا خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ مودی ہوں کہ امیت شاہ وہ گفتگو بھلے ہی نرم اور ہمدردی کی کریں لیکن ان کے بدلنے کی امید کرنا عبض ہے۔ موجودہ حالات میں مسلمانوں کو خود اپنا ایجنڈہ طئے کرنا ہوگا۔حفاظ خود اختیاری کی قانون اور دستور نے اجازت دی ہے اور جب تک مسلمان مزاحمت کے لئے تیار نہ ہوں حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ 2014 ء عام انتخابات کے لئے مسلمانوں کو متحدہ طور پر فیصلہ کرنا ہوگا تاکہ فرقہ پرست طاقتیں دوبارہ برسر اقتدار نہ آسکیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم مذہبی جماعتوں میں مسابقت چل رہی ہے کہ کون کس سے ملاقات کرے گا۔ حال ہی میں جماعت اسلامی کے نمائندوں نے موہن بھاگوت سے ملاقات کی اور ائمہ تنظیم کے سربراہ نے تو موہن بھاگوت کو بابائے قوم کے خطاب سے نوازا۔ کچھ تنظیمیں کھلے عام ملاقات کر رہی ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو بظاہر مخالف دکھائی دیتے ہیں لیکن حکومت سے درپردہ معاملت جاری ہے۔ مسلمان رمضان المبارک کے اس مقدس مہینہ میں اس بات کا عہد کریں کہ یہ مہینہ صرف روزہ اور تراویح کا نہیں ہے بلکہ اس مہینہ میں جنگ بدر اور فتح مکہ بھی ہمارے لئے ایک پیام دیتی ہے۔ مسلمان ان دونوں معرکوں کے ذریعہ حوصلہ حاصل کرسکتے ہیں۔ علماء کی امیت شاہ ملاقات پر یہ شعر یاد آگیا ؎
یہ دنیا والے پوچھیں گے
ملاقات ہوئی کیا بات ہوئی