محمد نعیم وجاہت
صحافت کے بعد سیاسی زندگی کا آغاز
12 فیصد مسلم تحفظات تحریک کے دوران 16 ہزار کیلو میٹر کا سفر
کانگریس کے میناریٹی ڈکلیریشن میں اہم تجاویز پیش
ملت کے مقدر کا ستارہ جب عروج پر ہوتا ہے اور تقدیر بدلنے والی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ہمدردان قوم و ملت کو رہنمائی و قیادت کے لیے منتخب کرتا ہے اور خدا ترس لوگوں کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ ڈور دیتے ہوئے ملک و ملت کے حالات میں سدھار پیدا کرنے کی ذمہ داری انہیں تفویض کرتا ہے۔ جناب عامر علی خان کے رکن قانون ساز کونسل نامزد کئے جانے پر انہیں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دی جارہی ہے اور کسی کی کامیابی وغیرہ پر مبارکباد دینا ہماری روایت ہے اور اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے انہیں مبارکباد بھی دی گئی ہے۔ لیکن عامر علی خان کی شخصیت اور ان کے قد کا اندازہ لگانا ایک عام شہری کے بس کی بات نہیں ہے اور یہ بات میں ان کے ہمراہ 16 ہزار کیلو میٹر سے زائد کا سفر کرنے کے بعد کہنے کے موقف میں ہوں اور ہر سفر کے دوران میں ان کے اندر ملت کی تڑپ کے علاوہ ملی مسائل پر بے باکی کا شاہد ہوں جو کسی اور میں نہیں دیکھی ۔ صحافی اور اردو کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں نے علامہ اقبال کے شاہین کا تذکرہ پڑھا اور سنا تھا لیکن عامر علی خان کی شخصیت کو میں نے اقبال کا شاہین پایا جو قصر سلطانی کی گنبد پر بسیرا نہیں کرتا بلکہ کرگسوں کے جھرمٹ میں اپنی منفرد شناخت کے ذریعہ ملی مسائل پر بے خوف و خطر اپنی آواز کے ذریعہ اڑان بھرتا ہے۔ 12 فیصد مسلم تحفظات کے لیے چلائی گئی تحریک کے دوران جناب عامر علی خان کے ساتھ 16 ہزار کیلو میٹر کے سفر کے دوران میں نے محسوس کیا ہے۔ اس کے متعلق بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ نوجوانوں اور ملت کے ذمہ داروں میں عقابی روح پیدا کرنا اور حکومت کے گریبانوں کو چاک کرتے ہوئے ان پر خوف طاری کرنے اور کھلے چیلنج کے ساتھ برسر اقتدار جماعتوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کام کرنے والی شخصیت کا نام عامر علی خان ہے۔ ریاست کے مسلمانوں کے لیے 16 اگست 2024ء یقیناً ایک تاریخی دن رہے گا کیوں کہ اسی دن نیوز ایڈیٹر روزنامہ سیاست جناب عامر علی خان نے بحیثیت رکن قانون ساز کونسل (ایم ایل سی) حلف لیا۔ کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں پر کامیابی کے ساتھ عمل آوری کے لیے اس کا سیاسی طور پر بااثر و طاقتور ہونا ضروری ہے۔ یعنی ایوان اقتدار میں اس قوم کے نمائندوں کی موجودگی لازمی ہوتی ہے۔ لیکن پچھلے 10 برسوں کے دوران ملک میں جس طرح فرقہ پرستی کو ہوا دی گئی لوگوں کے ازہان و قلوب کو پراگندہ کیا گیا اس کی مثال آزاد ہند کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر 77 برسوں کے دوران یہ پہلی مرتبہ ہے کہ مرکزی کابینہ میں ایک بھی مسلم وزیر کو شاملنہیں کیا گیا ہے۔ اسی طرح لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں حکمران جماعت بی جے پی کے ارکان میں ایک بھی مسلم نہیں ہے۔ بہرحال اس ماحول میں تلنگانہ کی حکومت نے ریاست کے مسلمانوں کے جذبات و احساسات کو محسوس کرتے ہوئے ان کے مطالبات کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے عامر علی خان جیسی ہمدرد ملت شخصیت کو ایم ایل سی نامزد کیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ناعاقبت اندیش اور عامر علی خان کی ملی خدمات سے خائف عناصر نے انکا راستہ روکنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی لیکن قدرت جس کے ساتھ ہوتی ہے وہ ضرور منزل مقصود کو پہنچ جاتا ہے۔ ویسے بھی عامر علی خان کو رب العزت نے دولت، شہرت ، عزت و علم سب کچھ عطا کیا ہے۔ انہیں صحافت وراثت میں ملی ہے۔ ان کے دادا جناب عابد علی خان مرحوم والد محترم جناب زاہد علی خان اور مرحوم مینیجنگ ایڈیٹر سیاست جناب ظہیر الدین علی خان نے ملت کی خدمات کے لیے روزنامہ سیاست کو ذریعہ بنایا تھا۔ عامر علی خاں بھی اسی راہ پر گامزن ہیں ویسے بھی ایوانوں میں تعلیم یافتہ اور ملی خدمات کا حقیقی جذبہ رکھنے والوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ کانگریس ہائی کمان نے عامر علی خان کو ایم ایل سی بناتے ہوئے اقلیتوں کو ایک مثبت پیغام پہنچایا۔ جہاں تک عامر علی خان کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے سینے میں ایک ایسا دل دیا ہے جو ملت کے لیے تڑپتا اور دھڑکتا ہے۔ یہ سب اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بی آر ایس پارٹی نے 2014ء اور 2018ء کے اسمبلی انتخابات میں اپنے انتخابی منشور میں مسلمانوں کو تعلیم اور ملازمتوں میں 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس وعدے کی تکمیل کے لیے اس وقت کی حکومت بالخصوص چیف منسٹر کے سی آر پر دبائو بنانے کے لیے عامر علی خان وہ واحد مسلم شخصیت تھے جنہوں نے ہزاروں کیلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے ریاست کے کونے کونے میں پہنچ کر گرام پنچایت سے چیف منسٹر کے دفتر تک ناصرف یادداشتیں پیش کئے بلکہ ایم آر او کلکٹرس، وزراء اور عوامی منتخب نمائندوں کو یادداشتیں پیش کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ عامر علی خان اور روزنامہ سیاست کی جانب سے شروع کردہ اس مہم کی مختلف قائدین نے سیاسی جماعتوں سے بالاتر ہوکر تائید کی۔ مذہبی ملی، و رضاکارانہ تنظیموں نے بھی مہم کو کامیاب بنانے میں اہم رول ادا کیا جس کا اثر یہ ہوا کہ ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اس وقت کے چیف منسٹر کے سی اار سے 12 فیصد مسلم تحفظات کے لیے سوال کرنے کی جرأت کی۔ اصل اپوزیشن جماعت کانگریس نے اس کو اپنے دیگر موضوعات میں اہم موضوع کے طور پر شامل کرلیا۔ یہ تحریک خاص کر ملت کے لیے شروع کی گئی اس سے عامر علی خان یا ان کے ارکان خاندان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا کیوں کہ وہ (خان) ہیں پھر بھی انہوں نے تعلیم اور ملازمتوں میں مسلمانوں کی زیادہ نمائندگی کے لیے یہ تحریک شروع کی۔ جرنلزم میں گریجویشن اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرس کی ڈگری رکھنے والے عامر علی خان یہی چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہر شعبہ میں ان کا جائز حق ملنا چاہئے۔ ان کی ملی ہمدردی اور خلوص کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کانگریس کے میناریٹی ڈیکلریشن کی جب بات آئی تو انہوں نے اس میں مسلمانوں کی ترقی کے لیے اپنی جانب سے کئی نکات شامل کروائے جس میں سب سے اہم مسئلہ ریاست کے مجموعی بجٹ میں اقلیتوں کے لیے 4 ہزار کروڑ روپئے مختص کرنا اور اقلیتی نوجوانوں کو خود روزگار فراہم کرنے کے لیے سبسیڈی لون کے تحت ایک ہزار کروڑ روپئے کو شامل کرانا تھا۔ انہوں نے کانگریس کا منشور بالخصوص میناریٹی ڈیکلریشن تیار کرنے والی کمیٹی کو مسلمانوں کی تعلیمی، روزگار اور معاشی ترقی کے لیے کئی تجاویز پیش کئے ہیں۔ جس کو قبول کرتے ہوئے میناریٹی ڈیکلریشن میں شامل بھی کیا گیا ہے۔ ریونت ریڈی کے زیر قیادت کانگریس حکومت نے اپنے پہلے مکمل بجٹ میں اقلیتوں کے لیے 3003 کروڑ روپئے کی گنجائش فراہم کی ہے۔ ابھی تو یہ ابتداء ہے۔ تلنگانہ ملک کی کم عمر ریاست ہے جہاں 50 تا 60 لاکھ آبادی رکھنے والے اقلیتوں کے لیے اتنا بجٹ مختص کیا گیا جو لگ بھگ مرکزی اقلیتی بجٹ کے برابر ہے۔ جبکہ ملک میں 25 تا 35 کروڑ اقلیتوں کی آبادی ہے جس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اقلیتوں کو عامر علی خاں جیسی ہمدرد قیادت نصیب ہوتی ہے۔ وہاں اقلیتوں کی ترقی بھی ممکن ہے۔