!ملک بھر میں تاریخی یادگاروں کا تحفظ ،لیکن تلنگانہ میں انہدام

   

تغلق دور حکومت کی یاد تازہ، ایرم منزل اور دیگر عمارتوں کے انہدام کی تجویز پر عوامی ناراضگی

حیدرآباد۔/29 جون، ( سیاست نیوز) ملک بھر میں تاریخی اور یادگار عمارتوں کے تحفظ کا رجحان ہے اور حکومتوں کے علاوہ کئی خانگی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ہندوستان کے ورثے سے مربوط عمارتوں کے تحفظ کا بیڑہ اُٹھایا ہے۔ ملک کے کئی علاقوں میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں تہذیبی اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کیلئے کروڑہا روپئے خرچ کئے گئے اور کل کی بوسیدہ اور مخدوش عمارتیں آج کی قابل دید اور نئی آب و تاب کے ساتھ عوام کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ تلنگانہ میں تہذیب اور تاریخی ورثے کی حامل کئی عمارتیں موجود ہیں لیکن افسوس کہ ان پر توجہ دینے کے بجائے حکومت نے ان کے انہدام کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کسی بھی علاقے میں تہذیبی ورثے کا تحفظ دراصل اُس علاقے کی شان میں اضافہ کا باعث ہوتا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تلنگانہ کی کے سی آر حکومت کو تہذیبی ورثے سے نفرت ہے اور وہ تحفظ کے بجائے اس کے وجود کے خاتمہ کے درپے ہے۔ مملکت آصفیہ کی کئی یادگاریں آج بھی حیدرآباد کی شناخت کی حیثیت رکھتی ہیں اور بیرونی سیاح ان کا مشاہدہ کرنے کیلئے حیدرآباد کا رُخ کرتے ہیں۔ ان یادگاروں کے تحفظ میں سلاطین آصفیہ کے ورثاء کے کمزور مالی موقف کو دیکھتے ہوئے بعض ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ان یادگاروں کو اپنی نگہداشت میں لے لیا ہے۔ فلک نما پیالیس اور چومحلہ پیالیس کو تحویل میں لے کر خانگی اداروں نے نہ صرف تزئین نو کی بلکہ سیاحوں کیلئے تفریح کا سامان کیا۔ جب خانگی ادارے تہذیبی ورثے کی اہمیت و افادیت کو سمجھ سکتے ہیں تو پھر حکومت کیوں نہیں۔ کے سی آر حکومت نے مملکت آصفیہ کی دو اہم یادگاروں کے انہدام کا فیصلہ کرتے ہوئے حیدرآبادیوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ جب کبھی انہدام اور توڑ پھوڑ کی کارروائیوں کا تذکرہ ہو تو عام طور پر تاریخ سے واقف لوگ محمد بن تغلق کا تذکرہ کرتے ہیں جن سے یہ منسوب ہے کہ انہوں نے تعمیری کام سے زیادہ تخریبی اور انہدامی کارروائیوں کو انجام دیا تھا۔ کے سی آر حکومت نے تاریخی اور قدیم عمارتوں کے انہدام کی جو مہم شروع کی ہے اس پر مؤرخین محمد بن تغلق کو یاد کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اسمبلی اور سکریٹریٹ کی نئی عمارتوں کی تعمیر کیلئے ایرم منزل کی تاریخی عمارت کا انہدام حکومت کے منصوبہ میں شامل ہے اس کے علاوہ اسمبلی کی عمارت جو نواب میر عثمان علی خاں کی تعمیر کردہ ہے اس خوبصورت اور قابل دید عمارت کو منہدم نہ سہی لیکن بے یارومددگار انہدام کیلئے چھوڑ دیا جائے گا۔ ایرم منزل جو نواب فخرالملک کی یادگار بتائی جاتی ہے ان کے ورثاء نے عمارت کے تحفظ کیلئے چیف منسٹر سے اپیل کی ہے۔ تاریخی عمارتوں کے انہدام کا معاملہ ہائی کورٹ تک پہنچ چکا ہے۔ کے سی آر جو تلنگانہ تحریک کے دوران ہمیشہ نواب میر عثمان علی خاں نظام حیدرآباد کی تعریف و توصیف سے نہیں تھکتے تھے پتہ نہیں کیوں اقتدار ملتے ہی نظام کی یادگاروں کے دشمن بن گئے۔ انہوں نے تاریخی دواخانہ عثمانیہ کی عمارت کو مخدوش ہونے کے نام پر منہدم کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم ہیرٹیج کے محافظین اور عوام کے احتجاج کے بعد اس فیصلہ کو ٹال دیا گیا۔ عثمانیہ ہاسپٹل کی عمارت کے مماثل کسی اور عمارت کی تعمیر آسان ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ عمارت کے ڈیزائن اور نقاشی کی آج کوئی تقلید نہیں کی جاسکتی۔ اگر اس عمارت کو منہدم کردیا جائے تو حیدرآباد کے تاج سے ایک قیمتی ہیرا نکل جائے گا۔ ہائی کورٹ کی عمارت بھی دیدہ زیب ہے اور ابھی بھی مستحکم ہے صرف تزئین نو اور مرمتی کاموں کے ذریعہ مزید کئی دہوں تک انہیں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ حیدرآباد کے مؤرخین اور سلاطین آصفیہ کے ورثاء نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ انہدام کی مہم ترک کرتے ہوئے ان عمارتوں کا تحفظ کرے تاکہ حیدرآباد کی شان برقرار رہے۔ مہاراشٹرا، گوا ، مغربی بنگال ، ٹاملناڈو اور نئی دہلی میں کئی تاریخی عمارتیں ایسی ہیں جن کے تحفظ کو حکومت اولین ترجیح دے رہی ہے۔ نئی دہلی کا لال قلعہ اگرچہ حیدرآباد میں سلاطین آصفیہ کی یادگاروں سے قدیم ہے لیکن اسی پر یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقع پر قومی ترنگا لہرایا جاتا ہے۔ اس تاریخی قلعہ کے تحفظ پر مرکزی حکومت اس لئے بھی سنجیدہ ہے کیونکہ یہ قلعہ دنیا بھر میں ہندوستان کی علامت بن چکا ہے اور پرچم کشائی کیلئے اس سے موزوں کوئی اور مقام نہیں ہوسکتا۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو دیگر ریاستوں کی تقلید کرتے ہوئے تاریخی عمارتوں کے تحفظ پر توجہ دینی چاہیئے ۔