حیدرآباد میں تاریخی عمارتیں دیکھنے کے لائق مگر بوسیدہ
حیدرآباد 18 مئی (سیاست نیوز) ملک بھر میں آرٹ ڈیکو کی شاندار عمارتیں موجود ہیں جو حیدرآباد کی گلیوں سے لے کر ممبئی میں کوئنز نیکلس (میرن ڈرائیو) اور کولکتہ کی گلیوں تک موجود ہیں۔ ان میں زیادہ تر پرانی عمارتیں دھندلی اور بعض بوسیدہ ہوچکی ہیں لیکن اب بھی ان میں پرانے دور کی خوبصورتی اور دلکشی کا احساس پایا جاتا ہے۔ فن آرٹ ڈیکو انداز جو پیرس میں 1925ء کی تاریخی نمائش ’’انڈسٹریلس ماڈرنس انٹرنیشنل ڈیس آرٹس ڈیکو ریٹفس‘‘ میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا جہاں ایمائل ۔ جیکس روہلمینس، جین دونند اور پیٹر چاریو جیسے ڈیزائنرس نے اپنے شاندار کام کا مظاہرہ پیش کیا تھا۔ طویل عرصہ سے سب سے زیادہ آرکیٹکچرل کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ اس کا آغاز فن تعمیر میں ہوا۔ آرٹ ڈیکو اسٹائل کو ڈیزائنرس نے فرنیچر جیویلری سے لے کر فیشن اور آٹو موبائیل تک ہر چیز میں اپنالیا ہے۔ حیدرآباد میں پہلی آرٹ ڈیکو عمارت 1930ء کی دہائی کے اوائل میں منظر عام پر آئی اور 1950ء کی دہائی کے آخر تک رائج تھیں۔ آرکیٹکٹس بشمول کارل ہنیز جن کا تعلق اصل میں جرمنی سے تھا، محمد فیاض الدین، اور زین یار جنگ شہر میں آرٹ ڈیکو تحریک کے علمبردار تھے جن کی بہت سی عمارتیں اب بھی شہر کے نقشہ میں موجود ہیں۔ آج شہر میں تقریباً 1000 سے زیادہ عمارتیں باقی ہیں جو اپنی خصوصیات کے لئے مشہور ہیں۔ جس میں زگ رنگیں، جیومیٹرک پیٹرن، پھولوں کی اسٹائیل کا پیٹرن اور خاص طور پر عمودی کھڑکیاں شامل ہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں آرٹس کالج، زندہ طلسمات کی عمارت، گن فاؤنڈری میں اسٹیٹ بینک آف حیدرآباد، کانگریس بھون، سکندرآباد میں آریہ سماج مندر اور افضل گنج میں اسٹیٹ سنٹرل لائبریری اس مشہور طرز تعمیر کے آخری چند نمونے ہیں۔ افضل گنج، پدما راؤ نگر، حمایت نگر اور سکندرآباد کے بعض حصوں میں پرانی کالونیوں میں آج بھی لوگ آباد ہیں۔ آرکیٹکچرل ڈیزائن فاؤنڈیشن کے آرکیٹکٹ جی سرینواس مورتی نے بتایا کہ آرٹ ڈیکو کا انداز ماضی کے عناصر کو آرائشی انداز میں استعمال کرتا ہے۔ ہندوستانی آرٹ ڈیکو نے مختلف طرز کے عناصر کو اپنایا ہے۔ ہندو طرز سے جھاڑوں اور پھولوں کے نمونے، اسلامی فن تعمیر کے نوکیلے محراب اور جالی، بدھسٹ طرز کی چیتیا یا محراب اور یوروپ سے کالم اور سیڑھیاں شامل ہیں۔ درحقیقت سکندرآباد کی جیرا کالونی اس طرز کا ایک خزانہ گھر ہے جس میں تقریباً 30 وسیع و عریض مکانات اب بھی موجود ہیں۔ شاندار سیڑھیاں، خم دار شکلیں، کشتیوں سے لے کر رودوکس تک کے نقشوں کے ساتھ آرائشی بالکونیاں اور In – Situ Terrazzo Finish فرش انھیں حیرت انگیز بنادیتے ہیں جو دیکھنے کے لائق ہے۔ اگرچہ ان عمارتوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے کیوں کہ بہت سی عمارتیں تیزی سے منہدم ہورہی ہیں۔ جیسے ہی حیدرآباد مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے، آرٹ ڈیکو کی میراث ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جو تعظیم اور دوبارہ ترقی کے درمیان پھنس گئی ہے۔(ش)