ملک جوڑو ، ملک توڑو ؟

   

محمد عثمان شہید ، ایڈوکیٹ

ملک ’’بھارت ماتا‘‘ میں موسم اِس وقت گرم ہے ، اندھیرا چاروں طرف پنجے گاڑھ چکا ہے۔ ایسے وقت نریندر مودی جی نے نعرہ لگایا ’’ملک توڑو، ملک جوڑو‘‘۔
آیئے! ملک کے تناظر میں اس نعرہ کا تجزیہ کریں۔ نعرہ دل فریب ہے، اچھا ہے مضحکہ خیز ہے اور وہ بھی وزیراعظم نے دیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون ملک کو توڑ رہا ہے اور کون ملک کو جوڑ رہا ہے۔ ایسے وقت جبکہ خزاں نے چمن پر قبضہ جمع لیا ہے، کالی کوئل سہم کر اندھیرے کا جوز بن گئی ہے، بلبل گو شہ نشین ہے، چوڑیاں ڈر کر تھر تھر کانپ رہی ہیں، شیر ،گوی میں پناہ لے رہا ہے، مگرمچھ بے ہوش ہوکر تالاب کی تہہ میں پناہ لے چکا ہے، ایسے میں ’’من کی بات‘‘ کہتے ہوئے مودی جی نے دراصل ایک فرقہ کو نشانہ بنایا ہے اور وہ ہے مسلمان۔ مودی جی 15 کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ببانگ ِ دہل کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانوں نے کسی وقت بھی کسی دور میں بھی اکبر اعظم ہوکہ اورنگ زیبؒ ہوکہ محمد بن قاسم ملک کو جوڑنے کیلئے جان دے کر کوشش کی ،نہ کہ توڑنے کی۔ ملک کے تمام صوبوں کو متحد کیا۔ گجرات کی رانی کرناوتی پر جب قادر خاں روحیلہ نے حملہ کیا تھا تو وہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے مغل شہنشاہ ہمایوں کی فوج میں رہ کر ٹکر لی اور روحیلہ کو شکست دی۔ ملک کے تمام افراد کو یکجا کیا۔ یہاں تک کے اکبر اعظم نے جودھا بائی کو ملکہ معظم بنا یا۔ اسی طرح راجہ مان سنگھ کو افواج کا سپہ سالار بنایا، راجہ ٹوڈرمل کو وزیر فینانس بنایا اور شہنشاہ اورنگ زیبؒ نے ہندو عورتوں کو پجاریوں کی دست درازی سے محفوظ رکھا اور جہاں اُنہیں شک و شبہ ہوا تھا، اُن ہی مندروں کو ڈھا یا گیا، کیا برا کیا آپ بتایئے۔
تاریخ کے تلخ حقائق کا پردہ چاک کرکے عوام کے سامنے حقیقت کو ننگا کیا تھا کہ لوگوں میں پھیلی بدگمانی دُور ہوجائے۔ اورنگ زیبؒ فرقہ پرست شہنشاہ نہیں تھے۔ اگر فرقہ پرست ہوتے تو سینکڑوں ہندو خواتین کو مَیں نے خود اپنی آنکھوں سے اُن کی قبر پر اورنگ آباد میں دُعا مانگتے دیکھا۔
یوں تو ہندوستان کبھی بھی فرقہ پرستی کا مرکز نہیں رہا۔ وہ ہمیشہ خوشحالی کا گہوارہ رہا۔ ایک طرف تو خواجہ اجمیریؒ اجمیر میں اپنی شان دِکھلا رہے تو دوسری طرف گرونانک بہاروں کے آشیانے پر ویراج مان تھے۔ فساد کہیں نہیں ہوا۔ خون کہیں نہیں بہا۔ کوئی عورت بیوہ یا ستی نہیں ہوئی، کوئی بیروزگاری اور بھوک کی تاب سے نہیں مرا۔
چاند بی بی پر حملہ ہوا تو ہندو اور مسلمان دونوں فوج میں شامل تھے۔ عبدالرزاق لاری ایک اکیلا پوری مغلیہ سلطنت پر بھاری تھا۔ اکیلے ٹیپو سلطانؒ نے انگریز فوج کے دانت کھٹے کردیئے۔ شیواجی کی فوج میں ہزاروں مسلمان سپاہی تھے۔ بحری بیڑے کا سردار تک مسلمان ابراہیم قادری تھا۔ اس طرح یہ ثابت ہوا کہ نہ مسلمان، ہندو سے لڑا نہ ہندو نے مسلمان سے لوہا لیا۔
تاریخ پڑھئے! مودی جی جو ہندوؤں نے لکھی ہے۔ تاریخ ایسا کوئی واقعہ نہیں چھپاتی۔ یہ اور بات ہے کہ ہم چھپاتے ہیں، اپنے اعزاز کو چھپانے کیلئے اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے نئی نسل کو بھٹکانے کیلئے خصوصاً بی جے پی کے جوان ہوتے ہوئے اس کے زہریلی ہوائیں تیز ہونے لگی۔ مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑنے کیلئے کہا جارہا ہے۔ فوج میں کتنے مسلمان ہیں، یہ آج تک نہیں بتایا گیا۔ خود میرا تجربہ ہے کہ جب میں نے انڈین ایرفورس میں شمولیت اختیار کی تو ایک آفیسر فلائٹ لیفٹننٹ کرنل رائے نے انگریزی کی کلاس لیتے ہوئے مجھ سے کہا تھا۔ ’’کیا تم پاکستان کی جاسوسی کرنے آئے ہو؟‘‘ اب بتایئے کون دلچسپی کا مظاہرہ کرے گا، ملک کی فوج میں، کون شیواجی اور عبدالرزاق لاری کی طرح لڑے گا۔
بی جے پی نے کبھی بھی تاریخ کا حوالہ نہیں دیا بلکہ اس نے من گھڑت، جھوٹے، اشتعال انگیز الزامات لگاکر مسلمانوں کو تشویش میں مبتلا کیا اور ہندو بھائیوں کو مشتعل کرکے ووٹ بٹورے، اقتدار پر قبضہ کیا۔ کانگریس سے اقتدار چھین لیا، فسادات کروائے گئے ، بے گناہ افراد کا قتل ہوا اور عورتوں کو بے سہارا ، بچوں کو یتیم کردیا۔ ضلع عثمان آباد کی باؤلیاں اب بھی فسادات کی کہانیاں سناتی ہیں۔ تاجروں کو بھکاری بنادیا پھر بھی ’’ملک توڑو، ملک جوڑو‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ آپ کیوں؟
گلی گلی میں پرچار کیجئے ۔ ہندو۔ مسلم اتحاد کی بات کیجئے۔ دونوں میں محبت و پریم پیدا کیجئے۔ نفرتوں کی جھاڑوں کو کاٹ دیجئے، تعلیمی کتابوں پر ایک بار نظر ڈالئے اور ان اوراق کو پھاڑ دیجئے جن میں نفرتوں کے بیج بوئے ہیں۔ مودی جی چوتھی اور پانچویں کلاس کی جو سوشیل اسٹڈیز پڑھائی جاتی ہے، اس میں لکھا ہے کہ اورنگ زیبؒ نے پیسوں کی خاطر مندر توڑے لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر ؒنے سینکڑوں ایکر زمین مندروں کو عطیہ دی اور کئی ہندو خواتین کی عصمت بچائی جبکہ بادشاہِ وقت اورنگ زیبؒ ٹوپیاں سی کر اور قرآن پاک لکھ کر اپنا گزارا کرتے تھے۔ ایسے فقر منش بادشاہ پر الزام لگانا تاریخ کی ایک بھیانک غلطی ہے۔
قلی قطب شاہ نے اکنا مادنا کو خزانے کی کنجیاں دے دی تھیں۔ ویسے مودی جی آپ اپنے ورکرس کو متنبہ کریں کہ وہ ملک کو جوڑیں، ایسی تقاریر ،ایسے حملے ایسے کام نہ کریں جس کی وجہ سے ملک میں فرقہ وارانہ نفرت پیدا ہو اور ملک ٹوٹ جائے۔ یہ کہنا کہ مسلمان ملک توڑنے چاہتے ہیں ،ایک ہمالیائی غلطی ہے۔ ویسے آپ نے مسلمانوں کو چاہا ہی نہیں۔ بھلا بتایئے۔ آستانہ خواجہؒ کو چھوڑ کر کوئی سرزمین ہند چھوڑے گا جس کی دہلیز پر سینکڑوں انسانوں نے فیضیابی حاصل کی بشمول اکبر اعظم کے۔ بھلا بتلایئے! مودی جی کون حضرت بختیارکاکیؒ کا دامن چھوڑ ے گا، حضرت نظام الدین اولیاءؒ اور حضرت امیر خسروؒ کو کون چھوڑ کر جائے گا۔
ہندوستان کو مسلمانوں نے سجایا ،سنوارا، چپے چپے پر اپنی یادگاریں قائم کی ہیں۔ تاج محل بنایا تو ایک خوبصورت ٹیکہ ہندوستان کی پیشانی پر لگایا، قطب مینار بنایا اور ملک کی عظمت میں اضافہ کیا، کئی عمارتیں، باغات، مساجد ایسی خوبصورت بنائیں کہ لوگ اَنگشت بہ دندان رہ گئے۔ محبت کرکے اپنے ملک کو اتنا مالامال کردیا کہ دنیا نے ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا تھا، حریص لنگاہوں نے اس پر حملہ کردیا اور یہاں کی تہذیب و تمدن ،کلچر، آرٹ و زبان اور معاشرے کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ مسلمان خاموش نہیں رہے۔ مسلمان ملک کے محسن ہیں۔ جب ہلاکو نے حملہ کرنے کی کوشش کی تو بلبن نے اپنے بیٹے سے کہا: ’’ جاؤ مقابلہ کرو، سروں کے مینار بنادو لیکن ہلاکو کو داخل ہونے مت دینا‘‘۔حال میں اب حوالدار عبدالحمید نے شجاعت کا مظاہرہ کرکے ’’اشوک چکر‘‘ حاصل کیا۔ 1965ء کی جنگ ہو یا1971ء کی جنگ یا پھر کارگل کی جنگ ، ہر جگہ مسلمانوں نے قابل فخر کارنامے انجام دیئے، لیکن افسوس تو یہ ہے کہ
ہم دل تو کیا روح میں اُترے ہوتے
تم نے چاہا ہی نہیں چاہنے والوں کی طرح
اُن کی قدر دانی ہونی چاہئے مودی جی
تیر پر تیر چلاؤ تمہیں ڈر کس کا
سینہ کس کا ہے میری جان جگر کس کا ہے
قبلہ مودی جی آپ وزیراعظم ہو مقتدر اعلیٰہو ،سیاہ و سفید کے مالک ہو ، ہمارے پاس کیا ہے :
طبل عَلم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
ہم سے خلاف ہوکے کرے گا زمانہ کیا