گیان واپی مسجد کے بعد جامع مسجد سری رنگا پٹنم پر فرقہ پرستوں کی نظر
حجاب‘ اذان‘ مسلم تاجرین کابائیکاٹ‘ دنیا کی عظیم جمہوریت ’’فسطائیت میںتبدیل‘‘
سید اسماعیل ذبیح اللہ
6ڈسمبر 1992ئکے روز بابری مسجد کو دنیا کی آنکھوں کے سامنے شہید کردیاگیا‘ بابری مسجد کو شہید کرنے کیلئے ایک منظم منصوبہ سازی کی گئی تھی‘ملک بھر سے کارسیوک اس بدبختانہ کام کو انجام دینے کیلئے اکٹھا کئے گئے تھے۔ فرقہ پرست طاقتوں نے نہایت منصوبہ بند انداز میں اس کام کو انجام دیاتھا ‘حالانکہ اس وقت مرکزمیںپی وی نرسمہار رائو کی قیادت میںکانگریس حکومت برسراقتدار تھی اور اترپردیش پربی جے پی کی کلیان سنگھ حکومت کا قبضہ تھا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوستان کی جمہوری شبیہ پر سوالات اٹھنے لگے ‘ حالانکہ بابری مسجد کو شہید کرنے سے قبل ملک کے مختلف حصوں میںجہاں جہاں سے کارسیوکوں کا گذر ہوا وہاں پر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تھی‘ 1989ء سے لے کر 1992ئتک ان تین سال میں گاجر مولی کی طرح مسلمانوں کو کاٹا گیا‘ اس کے بعد بھی مسلمان دلبرداشتہ نہیںہوئے مگر جب بابری مسجد کی شہادت عمل میںآئی اُس وقت مسلمانوں کے دل کو کافی ٹھیس پہنچی لیکن مسلمانوں نے ہندوستان کے آئین ، عدالت اور جمہوریت پر کامل یقین کا اظہار کیا۔مسلمانوں کو دنیا کی عظیم ترین جمہوریت ہندوستان کی عدالت عظمیٰ پر اس بات کا یقین تھاکہ بابری مسجد کا محاصرہ کرتے ہوئے اس کو غیر قانونی طریقے سے شہید کرنے والی اس کارروائی پر نہ صرف مسلمانوں کو انصاف ملے گا بلکہ ہندوستان کی پامال جمہوریت کو بھی ایک نئی زندگی ملے گی، مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہندوستان جیسی دنیاکی عظیم جمہوریت میںعدالتی فیصلے بھی آستھا کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات تویہ ہے کہ اب اسی بابری مسجد کے متعلق 27سال بعد سپریم کورٹ نے آستھا کی بنیاد پر فیصلہ سناکر ملک میں فرقہ پرست طاقتوں کو پھر ایک مرتبہ عبادت گاہوں پر اپنے ناپاک دعوے کرنے کے موقع فراہم کئے ہیں۔ ویسے تو سال2014ئکے بعد سے ہندوستان کا سکیولر چہرہ مکمل طور پر بدل گیاہے۔ اب ہندوستان کے مسلمانوں کو مذہبی معاملات سے لے کر سماجی اور سیاسی معاملات میں حکمرانوں پر کوئی بھروسہ باقی رہا۔ ہندوستان فی الحال ایک غیر معلنہ ہندو راشٹر بن گیا ہے جہاں پر برائے نام جمہوریت ‘ سکیولرازم ہے اور اس کے برعکس فسطائیت سر چڑھ کر بول رہی ہے ۔ پچھلے اُٹھ برسوں میںہندوستان کی کئی ریاستوں میںاسمبلی انتخابات ہوئے ‘ مجالس مقامی کے انتخابات ہوئے مگر ان انتخابات سے قبل اقتدار حاصل کرنے کیلئے ملک کی برسراقتدار سیاسی جماعت نے جن حربوں کا استعمال کیاہے اس کی مثال آزادی کی تاریخ میںکہیںپر بھی نہیںملے گی ۔
ویسے تو آزاد ی سے قبل بھگوا تنظیموں نے جو فرقہ پرستی کا زہر ہندوستان سماج میںگھولا تھا ، اس کا اثر تقسیم ہند سے لے کر ملیانہ ‘ بھیونڈی‘ ممبئی پھر گجرات کے بعد مظفر نگر جیسے فرقہ وارانہ فسادات کی صورت میںاپنا اثر دیکھاتا رہا ہے ۔ مگر 2014ء کے بعد اجتماعی طور پر اس کام کو انجام دینے کے بجائے فرقہ پرستوں نے ایک نئی اصطلاح کا استعمال کیاجس کو ’’ہجومی تشدد ‘‘ کا نام دیاگیاہے۔ہجومی تشد د کے واقعات پہلے بھی شائد ہوئے ہیں مگر گھر کے فریج میں رکھے ہوئے گوشت کے تکڑے کو ’بیف‘ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے دادری میں51سالہ محمد اخلاق کو ہجومی تشدد کانشانہ بناکر قتل کردیاگیا اور اس کے بعد تو ہجومی تشدد کے ایسے دل دہلادینے والے واقعات ملک کے مختلف کونوں میں پیش آئے جس نے انسانیت کو ہی شرمسار کردیا۔ایسا لگ رہا ہے کہ ملک کی برسراقتدار سیاسی جماعت اپنے آقائو ں کے اشاروں پر بھی منظم انداز میںکام کررہی ہے۔اگر ہندوستان کو اعلانیہ طورپر ہندو راشٹر بناتے ہیں تو دنیا کی نظر میں ہندوستان کی بچ جانے والی سکیولر شبیہ بھی متاثر ہوگی اور پھر انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہندوستان کا ہاتھ دھوکر پیچھا پڑجائیں گے شاید اسی ڈر سے غیرمعلنہ ہندو راشٹر کی طرف حکمران طبقہ اس ملک کو لے جارہا ہے۔ ایک وقت تک جب ’گجرات‘ کو ہندوستان میں’ہندوتوا وادیوں کی لیباریٹری‘ کہاجاتا تھا اور اس میںبڑی حدتک سچائی بھی تھی کیونکہ گجرات میں 2002ء کے بعد اس وقت کے چیف منسٹر دامودار نریندر داس مودی کی حکومت نے ایسے ایسے قوانین کومنظوری دی کہ گجرات میں رہنے او ربسنے والے اقلیتیں بالخصوص مسلمان خود کو دوسرے درجہ کا شہری سمجھنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ مسلمانوں کو گھر کرایہ پر دینے سے لے کرغیرمسلم علاقے میںکسی مسلمان کا گھر بیچنا یا خریدنا ‘ غیرمسلم بستیوں میں کسی مسلم کا کاروبار کرنا‘ دوکان لگانا ‘ ایسی بہت ساری چیزیں جس پر ایک منظم انداز میں روک لگاتے ہوئے مسلم اقلیت کے حلقے کوتنگ کرنے کاکام کیاگیا ہے۔مگر اب وہ تمام ریاستیں جہاں پر بھگوا جماعت برسراقتدار ہے وہی فارمولہ کو استعمال کیاجارہا ہے جس کو گجرات میںنافذ کیاگیاتھا۔پہلے ہریانہ ‘ پھر اترپردیش‘ اس کے بعد کچھ وقت کے لئے راجستھان‘ اور پھر بہارشمالی ہندوستان کی بیشتر ریاستیں جہاں پر بی جے پی برسراقتدار ہے اسی فارمولہ پر کام کرتے ہوئے مسلم اقلیت کو نشانہ بنارہے ہیں۔ بابری مسجد کے بعد ان فرقہ پرستوں کی نگاہ اب واراناسی کی گیان واپی مسجد پر ہے ۔ جس طرح بابری مسجد کو تالا لگانے کے لئے سازشیں کی گئی تھیں ۔ اسی طرز پر گیان واپی مسجد کو بھی گھیرے میںلینے کاکام کیاجارہا ہے۔ مغل بادشاہ اورنگ زیب کے زمانے میں 1669ء میں اس مسجد کی تعمیر کی گئی تھی ۔ مگر ہندوتوا تنظیموں کا یہ دعوی ہے کہ وہاں پر ایک مندر تھا جس کو منہدم کرتے ہوئے ارونگ زیب نے اس مسجد کی تعمیر کی ہے۔ پھر اب دوبارہ اس مسئلے کو اٹھایا گیا ہے ۔ بی جے پی کے پاس رام مندر کا موضوع نہیں ہے کیونکہ 2014ء اور2019ء کے اپنے انتخابی منشور میںبالترتیب جو وعدہ کیاتھا اس بابری مسجد ۔ رام مندر تنازعہ پر سپریم کورٹ نے اپنی مہر لگاتے ہوئے رام مندر کی تعمیر کے راستے صاف کردیئے اوربی جے پی کا انتخابی وعدہ بھی پورا ہوگیا۔ بی جے پی کے پاس ہندوؤں کو بھڑکانے کے لئے اب کوئی موضوع نہیںہے لہذا آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں کو سرگرم کرتے ہوئے ملک کی فضاء کو مکدر بنانے کاکام کیاجارہا ہے۔دہلی اور اترپردیش کے سرحدی علاقوں میں انہوں نے جمعہ کی نماز پر پابندی عائد کرنے کی مانگ کرتے ہوئے نویڈا ‘ گروگرام جیسی گنجان آبادی والے علاقوں میں اپنی اس مہم کو وسعت دی اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے جن علاقوں میںنماز جمعہ ادا کرنے کے لئے جگہ فراہم کی گئی تھی ان ہی مقاما ت پر نماز کے خلاف پولیس کی موجودگی میںپر تشدد احتجاج کرتے ہوئے نماز کو روکنے کی کوششیں بھی کیں او راب اذان پر اعتراض کیاجارہا ہے ۔ ایک مہم مہارشٹرا میں نونرمان سینا(این این ایس) نے اذان کے خلاف شروع کی اور اس پر احتجاج کی کوشش بھی کی مگر مہارشٹرا پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ایم این ایس کے منصوبوں کوناکام بنادیا۔کیونکہ مہارشٹرا میں مہاوِکا س اگھاڑی حکومت ہے اور شیو سینا کے سربراہ اُدھو ٹھاکرے چیف منسٹر کی حیثیت سے مہاراشٹرا کی گدی سنبھالے ہوئے ہیں۔ حالانکہ شیو سینا بھی کوئی دودھ کی دُھلی ہوئی سیاسی جماعت نہیں ہے مگر نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) اور کانگریس کے ساتھ اتحاد ہونے کی وجہ سے ادھو ٹھاکرے مہارشٹرا میںفرقہ پرست طاقتوں کو پنپنینہیںدے رہے او ران کے تمام منصوبوں کوناکام بنایاجارہا ہے مگر پڑوسی ریاست کرناٹک میںچونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے اس وجہ سے لائوڈ اسپیکرس پر اذان کے خلاف مہم کی شروعات ہوئی ہے۔ ہندو تہواروں کے موقع پر مسلمان تاجرین کے کھلے عام بائیکاٹ کرنا‘ کلاس روم کے بشمول اسکولوں او رکالجوں کے احاطے میںبرقع پر پابندی عائد کرنا ‘ مندروں کے پاس مسلم تاجروں کے دُکانات کو بند کرانا‘ اور اب اذان پر پابندی عائد کرنے کی مانگ پر عمل کرتے ہوئے صوتی آلودگی کے سدباب کے لئے سپریم کورٹ کا حوالہ دے کر رات 10 بجے سے صبح 6بجے تک لائوڈ اسپیکرس پر پابندی پر مشتمل حکومت کرناٹک کے احکامات نے فرقہ پرستوں کے حوصلوں کو ہوا دی ہے۔ فرقہ پرستوں کی نظر اب ضلع منڈیا کے شہر سری رنگا پٹنم کی جامع مسجد پر ہے۔ فرقہ پرستوں کا یہ دعویٰ ہے کہ جس جگہ پر سری رنگاپٹنم کی جامع مسجد ہے وہاں پر کسی زمانے میںہنومان مندر ہوا کرتا تھا اور اس مندر کو مہندم کرنے کے بعد وہاں پر ٹیپوسلطان نے اس جامع مسجد کی تعمیر کی ہے ۔ فرقہ پرستوں کی یہ مانگ ہے کہ عدالت کے ذریعہ اس بات کی تحقیق کرائے جائے کہ وہاں پر ٹیپوسلطان کے دور میںمندر تھی یا نہیں، او را س وقت تک کے لئے سری رنگا پٹنم کی جامع مسجد کو مقفل کردیاجائے۔ایک مندر کے سادھو نے دعویٰ کیاہے کہ ’’میسور کے بادشاہ ٹیپو سلطان کے دور حکومت میں1784ء میں یہاں پر موجودہ ہنومان مندر کو منہدم کرکے اس مسجد کی تعمیر کی گئی ہے‘‘۔ایک ڈر او رخوف کا ماحول ملک میں پید ا کردیاگیاہے ۔گجرات ‘ اترپردیش‘ کرناٹک اورمدھیہ پردیش جہاں پر بی جے پی کی اپنے دَم پر حکومت ہے ‘ تمام آئینی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے فرقہ پرستی کا ننگا ناچ کیاجارہا ہے ۔ مدھیہ پردیش کے کھر گائوں میںرام نومی جلوس کے دوران تشدد کے واقعات پیش ائے ۔ مسلمانوں کی املاک کونشانہ بنایاگیا‘ دوکانوں‘ مکانات او ر گاڑیوں کو نذر آتش کیاگیا ۔ مگر مدھیہ پردیش پولیس نے پتھر بازی کے الزام میںمسلمانوں پر مقدمات درج کئے او رستم ظریفی یہ ہوئی ہے کہ مسلمانوں کی ہی جائیدادو ں کو غیرقانونی تعمیرات کے نام پر منہدم کرتے ہوئے یہ کہا گیاہے جو لوگ پتھر بازی کے معاملات میںملوث ہیںان کے خلاف یہ کاروائی کی جارہی ہے۔دہلی کے جہانگیر پوری میں رام نومی جلوس کے دوران مسجد کے سامنے بلند آواز سے گانے لگاکر ناچتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی کی گئی جبکہ پولیس کی موجودگی میںیہ سب کام انجام دئے جارہے ہیں پھر وہاں پر بھی پتھر بازی کے واقعات پیش ائے اور اس کے فوری بعد بھگدڑ ہوئی ۔ مگر وہاں پر بھی مسلمانوں پر ہی مقدمات درج کئے گئے او راگلے روز ایم سی ڈی کا عملہ بلڈوزر لے کر جہانگیر پوری میں غیرمجاز قبضوں کے نام پر انہدامی کاروائی کیلئے پہنچ گیا۔ کمیونسٹ قائدین کی دیدہ دلیری اور بہادری تھی جس کی وجہہ سے ایم سی ڈی کاعملہ جہانگیر پوری سے واپس لوٹنے کیلئے مجبورہوگیا۔ کیونکہ کمیونسٹ لیڈر برندا کرت اوردیگر کمیونسٹ بلڈوزرکے سامنے کھڑے ہوگئے اور سپریم کورٹ کے احکامات بتاکر انہیںواپس لوٹنے پر مجبور کیا۔اقتدار کی ہوس‘ اور ارایس ایس کے خفیہ ایجنڈے کو غیرمعلنہ طریقے سے نافذ کرنے کی کوشش میں آرایس ایس‘بی جے پی ‘ اور ان کی ذیلی تنظیمیںملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچارہے ہیں۔ پڑوسی ملک سری لنکا میںمعاشی بحران اس قدر بڑھ گیا ہے کہ لوگ سڑکوں پر اتر ائے ‘ خانہ جنگی کا ماحول ہے ‘ برہم عوام نے وزیراعظم کے مکان کو نذر آتش کردیا ۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئے ۔ فرقہ پرستی کی آڑ میںملک کے معاشی مسائل کو نظر انداز کرنا گویا ملک کی عوام کو شدید معاشی بحران کی طرف ڈھکیلنا ہے۔ اگرحقیقت میں وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امیت شاہ ریفارمر ہیںتو انہیں چاہئے تھا کہ مہنگائی پر کنٹرول کرے‘ پٹرول اورڈیزل کی آسمان چھوتی قیمتوں کو نیچے لائیں‘پکوان گیس کی بے قابو قیمتوںپر روک لگائیں ۔ بڑھتی بے روزگاری کوختم کریںاورتعلیم یافتہ نوجوانوں کیلئے ملازمتوں کے نئے مواقع فراہم کریں ورنہ جو ترقی پچھلے 70سال میںہندوستان نے کی ہے اس کی بربادی کیلئے دس سال کا عرصہ کافی ہوجائے گا۔