درگاہ غریب نوازؒ کے سروے کی درخواست سے نفرت انگیز ماحول کے انتہا کو پہنچ جانے کی دلیل: مولانا سید شاہ علی اکبر نظام الدین کا ردعمل
حیدرآباد۔30۔نومبر(سیاست نیوز) درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی غریب نواز ؒ کے سروے کے لئے داخل کی جانے والی درخواست ملک میں نفرت انگیز ماحول کے انتہاء کو پہنچ جانے کی دلیل ہے۔ ہندستان میں صوفی بزرگوں نے امن و آشتی کے پیام کو عام کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ مولانا سید شاہ علی اکبر نظام الدین حسینی صابری صدر انجمن سجادگان و متولیان نے درگاہ اجمیر شریف کے سروے کے لئے داخل کی جانے والی درخواست پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے یہ بات کہی ۔انہوں نے بتایا کہ بابری مسجد کے فیصلہ کے بعد اس سلسلہ کے بند ہو جانے کی توقع کی جار ہی تھی لیکن سپریم کورٹ نے گیان واپی معاملہ میں جو فیصلہ صادر کیا ہے اس کے بعد ہندستان میں نفرت پھیلانے والے عناصر کو اس بات کا موقع ملا ہے کہ وہ کسی بھی ذیل کی عدالت سے رجوع ہوتے ہوئے کسی بھی مذہبی مقام کے سروے کی درخواست داخل کرسکتے ہیں جبکہ عبادت گاہوں سے متعلق 1991 ایکٹ کی یہ صریح خلاف ورزی ہے کیونکہ اس ایکٹ میں یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ 15اگسٹ 1947 کو جس عبادت گاہ کا جو موقف تھااس کا وہی موقف رہے گا۔ مولانا سید شاہ علی اکبر نظام الدین حسینی صابری نے بارگاہ خواجۂ ہندالولی کے سروے کی درخواست کو شرانگیزی کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ اس بارگاہ سلطان الہند کے فیض‘ تعلیمات اور تاریخ سے واقف نہیں ہیں وہ لوگ اس طرح کی درخواستوں کے ذریعہ ملک میں نفرت کے ماحول کو فروغ دے رہے ہیں۔ صدر انجمن سجادگان و متولیان نے کہا کہ سنبھل کی جامع مسجد کے سروے کی درخواست ہو یا درگاہ اجمیر شریف کے سروے کی درخواست ہو اس طرح کی درخواستوں کے ذریعہ ملک میں بدامنی پھیلانے اور نفرت کے ماحول کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ مناسب نہیں ہے۔انہو ںنے بتایا کہ اس طرح کی درخواستوں کے سلسلہ میں عدالتوں کو محتاط رہتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہئے ۔ انہوں نے تعلیمات صوفیاء کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندستان میں صوفیاء نے جو خدمات انجام دی ہیں اس کے نتیجہ میں ہی ملک میں ہندو اور مسلمان شیر و شکر کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن 2014 کے بعد سے ملک میں نفرت کی نئی لہر کا آغاز ہوا ہے اور اس کو ختم کرنے کے لئے صوفیاء اور خانقاہی تعلیمات ہی کارکرد ثابت ہوسکتی ہیں لیکن حکومتوں کی جانب سے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لئے اس طرح کے عناصر کی حوصلہ افزائی کی جار ہی ہے جو نفرت کو فروغ دے رہے ہیں۔مولانا سید شاہ علی اکبر نظام الدین حسینی صابری نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ حکومتوں اور ملک کی عدالت عظمیٰ اس طرح کی درخواستوں کا سخت نوٹ لیتے ہوئے انہیں قبول نہ کرنے کے سلسلہ میں فیصلہ صادر کرے گی تاکہ ملک میں اقلیتی برادری بالخصوص مسلمان پرسکون زندگی گذار سکیں اور اپنی مذہبی آزادی کے ساتھ رہ پائیں۔3