ملک میں فرقہ پرستی اور اروندھتی رائے کی پیش قیاسی

   

محمد امجد خان
عالمی سطح کی مشہور ادیبہ و مصنفہ اور حقوق انسانی کی جہد کار اروندھتی رائے نے کہا کہ ہندو قوم پرستی ہمارے وطن عزیز ہندوستان کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑ سکتی ہے۔ اس کا شیرازہ بکھر سکتا ہے۔ جیسا کہ ماضی میں یوگوسلاویہ اور روس کے ساتھ ہوا، لیکن آخر میں ہندوستانی عوام ، مودی اور بی جے پی کے فاشزم کے خلاف احتجاج کریں گے۔حال ہی میں اروندھتی رائے نے ’’دی وائر‘‘ کیلئے ممتاز صحافی کرن تھاپر کو انٹرویو دیا جس میں انہوں نے سعودی حکومت اور بی جے پی کے فاشزم ملک میں فرقہ پرستی کے باعث ہونے والی تباہی اور مودی سے قربت رکھنے والے صنعت کاروں کی ناقابل تصور معاشی ترقی کے بارے میں کھل کر بات کی۔ اروندھتی رائے کے خیال میں ہندوستان کی موجودہ صورتحال انتہائی مایوس کن ہے۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس بات کے واضح اشارے مل رہے ہیں کہ ہندوستانی عوام اس تاریک غار سے باہر نکل رہے ہیں جس میں وہ گرگئے تھے۔ اروندھتی رائے کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں ایسے عظیم ملک کے لوگوں پر بھروسہ ہے اور پوری پوری امید ہے کہ ایک دن ہمارا ملک اس تاریک غار سے باہر نکل آئے گا۔ اروندھتی رائے نے اپنے انٹرویو میں ہندو قوم پرستی کا موازنہ کوزے میں دریا کو سمونے کی کوشش سے کیا۔ اروندھتی رائے نے انٹرویو کے دوران کئی سوالات بھی اٹھائے اور دریافت کیا کہ ہم نے جمہوریت کے ساتھ کیا کردیا ہے؟ جمہوریت کو کس چیز میں بدل دیا ہے؟ جمہوریت کو جب کھوکھلا اور کمزور کردیا جاتا ہے تو اس کے کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان حالات میں جمہوریت کا کوئی مطلب باقی نہیں رہتا۔ ہر کسی کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر جمہوریت کے ہر ادارے کو کسی خطرناک شئے میں تبدیل کردیا جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ اس کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ان کا یہ بھی سوال تھا کہ آخر ہم کس طرح کے ’’راشٹر‘‘ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ 50 برسوں میں ہندوستان نے خود کو لنچنگ سنٹر (ہجومی تشدد کا مرکز) کے طور پر قائم کیا ہے۔ مسلمانوں اور دلتوں کو دن دھاڑے ہجومی تشدد کا نشانہ بناکر انہیں بڑی بے رحمی سے مار مار کر ہلاک کردیا جاتا رہا ہے اور ہجومی تشدد کے ان واقعات کو کیمروں میں قید کرکے بڑی خوشی و مسرت کے ساتھ ان ویڈیوز کو یوٹیوب اور سوشیل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمس پر اَپ لوڈ بھی کیا جارہا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف نوجوانوں کے ذہنوں میں فرقہ پرستی کا زہر گھولنا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ آج فاشزم کا بنیادی ڈھانچہ ہمارے سامنے کھڑا ہمارا مذاق اُڑا رہا ہے۔ اس کے باوجود ہم اس کی مذمت کرنے سے کتراتے ہیں، گھبراتے ہیں۔ اروندھتی رائے کے خیال میں مودی کی حکومت میں بے شمار اقتصادی اسکینڈلس منظر عام پر آئے جس میں ہزاروں، کروڑ روپیوں کا دھوکہ دیا گیا۔ مثلاً مودی کے پسندیدہ صنعت کار نے مودی کے دوسرے انتہائی پسندیدہ صنعت کار کو دولت مندی کے لحاظ سے پیچھے چھوڑ دیا اور اب وہ ہندوستان کے دولت مند ترین شخصیت بن گئے ہیں۔ اروندھتی رائے کے مطابق ان کا ماننا ہے کہ اڈانی کی دولت 88 ارب ڈالرس سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ مکیش امبانی کی دولت صرف 87 ارب ڈالرس ہے۔ حیرت انگیز بلکہ قابل غور بات یہ ہے کہ اڈانی کی 88 ارب ڈالرس دولت میں سے 51 ارب ڈالرس کی کمائی صرف پچھلے سال ہوئی ہے۔ ایک ایسے وقت جبکہ ہندوستان غربت، بھوک اور بیروزگاری کے دلدل میں گرتا جارہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تقریباً 100 ایسی شخصیتیں ہیں جو قومی مجموعی پیداوار کا 25% حصہ اپنے قبضہ میں رکھتے ہیں۔ اروندھتی رائے کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسانوں نے مودی حکومت کا جم کر مقابلہ کیا اور ان کے اتحاد کے نتیجہ میں ہی مودی حکومت گھٹنے ٹیکنے اور کسان دشمن تینوں زرعی قوانین واپس لینے پر مجبور ہوئی۔ خاص طور پر اترپردیش کے ایک کسان نے ملک اور عوام کے تئیں مودی حکومت کی ناکامیوں اور ہندوستان میں فی الوقت کیا ہورہا ہے، اسے چند الفاظ میں بیان کردیا۔ اس کسان نے کچھ یوں کہا : ’’دیش کو چار لوگ چلا رہے ہیں، دو بیچتے ہیں، دو خریدتے ہیں اور وہ چاروں گجرات سے ہیں‘‘۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بندرگاہوں، کانوں، پیٹرو کیمیکلس، میڈیا اور انٹرنیٹ کے مالک ہیں اور ہر شعبہ میں ان لوگوں کی اجارہ داری ہے۔ اس طرح کی اجارہ داری سامراجی ملکوں میں بھی نہیں ہوگی۔ حالیہ عرصہ کے دوران پارلیمنٹ میں راہول گاندھی نے غریب ہندوستان اور امیر ہندوستان کی بات کی تھی۔ اسد الدین اویسی نے محبت کا ہندوستان اور نفرت کا ہندوستان کے بارے میں طنز کیا۔ سب کچھ صنعتی گھرانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ خود کے ہندو قوم پرست ہونے کا دعویٰ کرنے والے ان ہی صنعتی گھرانوں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔

مودی، مودی حکومت، بی جے پی اور آر ایس ایس کی حمایت دراصل بینک گیارنٹی کے مترادف ہے۔ آج ہندوستان میں عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے والے لوگ مودی کی 56 انچ کی چھاتی (سینہ) پر جمع ہیں۔ جمہوریت کو تباہی و بربادی کی جانب گامزن دکھائی دیتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بہترین جمہوریت وہ ہوئی ہے جو پیسہ کے بل بوتے پر خریدی جاسکتی ہے؟ حقیقت میں دیکھا جائے تو جمہوریت کو پیسے سے نہیں خریدا جاسکتا بلکہ جمہوریت تو عوام کے فائدے کیلئے ہوتی ہے، ان کی بہبود کیلئے ہوتی ہے۔ مستحکم جمہوریت ہی معاشرہ میں امن و سکون کا باعث بنتی ہے لیکن اب ہمارے پاس جمہوریت کے اداروں چاہے وہ صحافت ہو یا عدالتیں، خفیہ ایجنسیز ہوں یا پھر تعلیمی ادارے یہاں تک کہ فوج کو ہندو قوم پرستی کے نظریہ یا آئیڈیالوجی سے متاثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ آپ نے پارلیمنٹ کو ’’من کی بات‘‘ میں تبدیل کردیا ہے۔ باالفاظ دیگر پارلیمنٹ میں واضح طور پر غیردستوری قوانین بنانے لگے ہیں۔ مثلاً آپ نے کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والی دستور کی دفعہ 370 کو منسوخ کردیا، کسان دشمن زرعی قوانین منظور کروائے (یہ اور بات ہے کہ کسانوں کے بے نظیر احتجاج کے باعث مودی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا)۔ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) آپ نے لایا جس سے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں برباد ہوگئیں اور اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ تاحال اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکی کہ آیا شہریت ترمیمی قانون دستوری طور پر جائز ہے یا نہیں۔ اروندھتی رائے نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ آپ کے پاس دفتر وزیراعظم ہے اور خود وزیراعظم کی جانب سے اس کا استحصال کیا جارہا ہے۔ ہاں ایک دو اہم بات یہ ہے کہ مودی نے اچانک ملک میں نوٹ بندی نافذ کردی گئی جس سے معیشت تباہ و برباد ہوگئی۔ حد تو یہ ہے کہ مودی نے ہی کورونا وباء کے منظر عام پر آتے ہی صرف چار گھنٹوں کی نوٹس پر لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا، زرعی قوانین کی منظوری اور پھر اسے واپس لیا جانا، سب کچھ نظریہ جمہوریت کے خلاف ہے۔ اروندھتی رائے کے مطابق ان کی پیش قیاسی کے مطابق اب بی جے پی اور اس کے قائدین خود کو ملک کو اور ریاست کو الجھن کا شکار بنانا شروع کردیا۔ وہ سمجھوتے ہیں کہ اگر بی جے پی دولت مند ہے تو ملک دولت مند ہے۔ اگر آپ بی جے پی اور مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو پھر آپ پر ملک دشمن ہونے کا لیبل چسپاں کردیا جاتا ہے۔ یہ رجحان بہت خطرناک ہے۔ ہندوستان ایک بڑی جمہوریت اس دعوے کے بارے میں سوال پر اروندھتی رائے کا کہنا تھا کہ اس پر سنگین سوالات اُٹھتے ہیں۔ آج ہندوستان کا یہ حال ہوگیا ہے کہ دھرم سنسدوں کا اہتمام کرتے ہوئے مسلمانوں کے قتل عام یا نسل کشی، ہندوؤں پر اسلحہ سے خود کو مسلح کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔ دوسری طرف ملک میں عیسائیوں پر ان کے گرجا گھروں پر مسلسل حملے ہورہے ہیں، یسوع مسیح کے مجسموں کو نذرآتش کیا جارہا ہے اور اب بڑی شرم کی بات ہے کہ اس طرح فرقہ پرستی کو آگے بڑھانے والے شخص پتی نرسنگھانند کو عدالتوں نے ضمانت بھی دے دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نہ صرف حکومت بلکہ عدالتیں اور ریاستی مشنری جو اس کا ایک حصہ ہیں جبکہ پروفیسرس، سماجی و انسانی حقوق کے جہدکار، شعراء، وکلاء، جیلوں میں بند ہیں اور ایک ایسا شخص جو ببانگ دہل اور علی الاعلان مسلمانوں کے نسل کشی کی باتیں کررہا ہے، اسے ضمانت دے دی جاتی ہے۔ ہمارے پاس اس طرح کی کئی مثالیں ہیں جیسے کرناٹک میں حجاب کا مسئلہ اس مسئلہ پر بھی عدالتیں جو کردار نبھارہی ہیں۔ وہ بھی قابل غور ہے۔ عدالت نے اس معاملے میں جو حکم دیا، چاہے وہ عارضی ہی کیوں نہ ہو، ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندو اکثریت کے حق میں ہے۔ اگر کرناٹک میں مسلم طالبات کو کلاس میں برقعہ پہن کر آنے کی اجازت دینے سے انکار کیا جارہا ہے تو پھر وزیراعظم اور چیف منسٹر اترپردیش، دستوری عہدوں پر فائز رہتے ہوئے زعفرانی لباس کیسے پہن سکتے ہیں۔ بہرحال حکومت نہیں چاہتی کہ ہندوستان ایک سکیولر ملک باقی رہے بلکہ وہ ہندوستان کو ایک ہندو ریاست یا ملک بنانے کی خواہاں ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں ہے۔ بی جے پی قائدین بار بار اس بارے میں اعلانات کرتے رہتے ہیں، بیانات دیتے رہتے ہیں۔ اروندھتی رائے نے ایک سوال کے جواب میں ہندوستان میں بلقان تشدد قتل و خون کی تاریخ دہرائی جانے کی پیش قیاسی بھی کی ہے۔٭