حکومت کے ذمہ داروں کی خود اہم امور پر غلط بیانی ۔ جھوٹ کا سہارا ۔ عوام کو گمراہ کرنے کی کوششوں میں شدت
نئی دہلی 24 ڈسمبر ( سیاست ڈاٹ کام ) این آر سی اور اس کے ڈیٹنشن سنٹرس کے تعلق سے ملک میں دروغ گوئی اور غلط بیانی کا سلسلہ چل پڑا ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا جہاں دعوی ہے کہ ملک میں کہیں بھی کوئی ڈیٹنشن سنٹر موجود نہیں ہے وہیں ان کے وزراء نے لوک سبھا کو کئی موقعوں پر مطلع کیا ہے کہ آسام میں چھ حراستی مراکز موجود ہیں۔ مرکزی منسٹر آف اسٹیٹ داخلہ نتیانند رائے نے لوک سبھا کو 19 نومبر کو مطلع کیا تھا کہ ڈیٹنشن مراکز ریاستی حکومت یا مرکزی زیر انتظام علاقوں کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن یا بیرونی شہریوں کو ‘ جنہوں نے سزا مکمل کرلی ہے اور وطن واپس بھیجے جانے کے منتظر ہیں ‘ حراست میں رکھنے کیلئے اپنی ضروریات کے اعتبار سے قائم کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ فی الحال ایسے حراستی مراکز صرف آسام میں قائم کئے گئے ہیں۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ 13 نومبر تک جملہ 1,043 بیرونی شہری آسام کے چھ ڈیٹنشن مراکز میں رکھے گئے ہیں۔ ان میں جملہ 1025 بنگلہ دیشی شہری اور 18 میانماری شہری ہیں۔ نتیانند رائے نے 2 جولائی کو ایوان کو مطلع کیا تھا کہ 2009 کے علاوہ 2012 ‘ 2014 اور 2018 میں ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں کو وقفہ وقفہ سے احکام جاری کئے گئے ہیں کہ وہ غیر قانونی طور پر مقیم بیرونی شہریوں کو رکھنے کیلئے حراستی مراکز قائم کریں ۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف ایوان میں اس طرح کے حراستی مراکز کے قیام کی باتیں سامنے آئی ہیں تاہم اب جبکہ سارے ملک میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج چل رہا ہے اس وقت بھی حراستی مراکز کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے رام لیلا میدان میں اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ سی اے اے کا کسی ہندوستانی سے کوئی تعلق نہیں ہے چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان ہو۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ بیان پارلیمنٹ میں دیا گیا ہے اور پارلیمنٹ میں کسی جھوٹ کی اجازت نہیں ہے ۔ مودی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں یہ افواہیں پھیلا رہی ہیں کہ مسلمانوں کو ڈیٹنشن مراکز کو بھیج دیا جائیگا ۔ مودی کا کہنا تھا کہ نہ مسلمانوں کو ڈیٹنشن مراکز کو بھیجا جائیگا اور نہ ایسے مراکز قائم ہیں۔ تاہم 16 جولائی کو جی کشن ریڈی منسٹر آف اسٹیٹ داخلہ نے کہا تھا کہ آسام میں ڈیٹنشن مراکز موجود ہیں تاکہ معلنہ بیرونی شہریوں اور سزا یافتہ بیرونی شہریوں کو وہاں رکھا جاسکے ۔ یہ مراکز آسام میں گول پارا ‘ کوکرا جھار ‘ سلچر ‘ دبرو گڑھ ‘ جورہاٹ اور تیزپور میں موجود ہیں۔ کشن ریڈی کے بموجب 28 نومبر تک یہاں 970 افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے ۔ انہوں نے کیرالا کے کانگریس رکن پارلیمنٹ ٹی ین پرتاپ کے اس خیال کو مسترد کردیا تھا کہ ان مراکز میں ان افراد کو رکھا جائیگا
جو این آر سی کے دوران اپنے دستاویزات فراہم کرنے میں ناکام رہیں گے ۔ 2 جولائی کو کشن ریڈی نے کہا تھا کہ حراستی مراکز میں خواتین اور چھوٹے بچوں اور ان کی ماووں پر خاص توجہ دی جانے کی ضرورت ہے ۔ جو چھوٹے بچے ان ڈیٹنشن مراکز میں مقیم رہیں گے انہیں قریبی مقامی اسکولس میں تعلیم بھی فراہم کی جائے گی ۔کشن ریڈی نے کانگریس کے ششی تھرور کے سوال کے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ ان حراستی مراکز میں 769 افراد ایسے بھی ہیں جو ایک سال سے زیادہ عرصہ سے حراست میں ہیں۔ کشن ریڈی کا کہنا تھا کہ جون 25 تک جملہ 1133 افراد کو آسام کے چھ حراستی مراکز میں رکھا گیا تھا جن میں 335 افراد یہاں زائد از تین سال سے قید ہیں۔ کشن ریڈی نے 10 ڈسمبر کو لوک سبھا کو مطلع کیا تھا کہ کسی بھی ڈیٹنشن سنٹر میں خود کشی کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا ہے ۔ 3 ڈسمبر کو انہوں نے مطلع کیا تھا کہ ان مراکز میں مرد و خواتین محروسین کو علیحدہ کمروں میں رکھا جا رہا ہے اور بنیادی سہولتیں دستیاب ہیں۔