ملک میں یک جماعتی نظام کی کوشش

   

شروتی کپیلا
ہندوستان میں آج کل یک جماعتی سیاسی نظام کی باتیں ہورہی ہیں جس کے تحت یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ہندوستان اس معاملے میں چین کے نقش قدم پر چل رہا ہے جہاں ایک ہی جماعت یعنی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے۔ ان حالات میں یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ کیا آج ملک کی سیاسی ترتیب کو پارٹی ریاست کے طور پر سب سے بہتر طور پر بیان کیا گیا ہے۔ میں اس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہوں کہ اس سے آمریت کو فروغ (آمریت) ملتا ہے چنانچہ یک جماعتی نظام کی تشریح و توضیح کیلئے آمریت ایک پسندیدہ طریقہ ہے۔ باالفاظ دیگر اگر اختیار آج کے سیاسی کلچر کی پہچان ہے تو آزادی کی عدم موجودگی اس کی ایک کھلی اور افسوسناک حالت ہے۔ موجودہ حالات میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کو آمرانہ قرار دینا یا آمریت سے تعبیر کرنا صرف اس کی طاقت و اہمیت کو بڑھاوا دیتا ہے۔ ایک بات ضروری ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت پر آمریت کا الزام عائد کئے جانے اور شدید تنقیدوں کے باوجود وہ خود کو محفوظ منطقہ میں رکھنے کی بجائے تنقیدوں و الزامات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بلاخوف و خطر اپنے مقصد اور ایجنڈہ کی تکمیل کی طرف بڑھتی جارہی ہے۔ اس کی مثال مارشل آرٹ سے بھی دی جاسکتی ہے، اس کی وجہ بھی ہے۔ وہ یہ کہ میں مارشل آرٹس میں کوئی نیا نہیں ہوں، اس میں یہی ہوتا ہے کہ مخالف کی طاقت کو اس کے ذریعہ ہی کم کیا جاتا ہے، اسے پہلے تھکایا جاتا ہے، پھر اپنی چالیں چل کر اسے شکست سے دوچار کردیا جاتا ہے۔ جہاں تک مودی یا ان کی حکومت پر آمریت کے الزامات عائد کئے جانے کا معاملہ ہے۔ اس میں مودی کی طاقت کو کمتر نہیں سمجھا جانا چائے۔ اس طرح کی سوچ مناسب نہیں ہے۔ میرے ذہن میں یہ سوال بھی گردش کررہا ہے کہ اگر ہندوستان کا ہمالیائی پڑوسی یعنی جدید چین جمہوریت کے بغیر عالمی سرمایہ کاری کا اصول دنیا کو دے سکتا ہے تو کیا ہندوستان دنیا کو کثیر الجماعتی سیاست میں یک جماعتی ریاست دینے کیلئے تیار ہے؟
’’پارٹی اسٹیٹ‘‘ چین کا مترادف ہے کیونکہ اس سے مراد یک جماعتی حکمرانی ہے، اس کی اگر ہماری نقطہ نظر کے مطابق تشریح یا تعریف کی جائے تو ’’پارٹی ریاست‘‘ سے مراد ریاست اور معاشرہ کے درمیان تعلق ہے۔ اسے مزید واضح کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’پارٹی ریاست‘‘ کا مطلب ریاست، سماج، پارٹی اور حقیقت میں پارٹی کیڈر کے درمیان سرحدوں کی عدم موجودگی ہے۔ اگر ہم جدید چین اور ہندوستان کے سیاسی نظام کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں اور خاص طور پر ان کے دو بانیوں ایم کے گاندھی اور ماؤتنگ کاتو اب ان دونوں میں زیادہ فرق دکھائی نہیں دیتا اورجو فرق پایا جاتا ہے ، وہ صرف تشدد یا نظریات کا نہیں بلکہ سیاسی جماعت اور سوسائٹی کے درمیان تعلقات سے متعلق ہے۔
’چ‘ سے چین
اگر ہم چین میں یک جماعتی نظام کے آغاز اور ماؤ کے اقتدار میں آنے کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک فراخدلانہ قوم پرست پارٹی کو ملنگ تنگ یا کے ایم ٹی جیسی پارٹی کے ذریعہ اقتدار حاصل کیا۔ جہاں تک کے ایم ٹی کا سوال ہے، اس میں دانشوروں، مغربی ذہنیت کے حامل مرد و خواتین کو برتری حاصل تھی اور جن کا تعلق زیادہ تر جنوبی چین سے تھا جس کا ہیڈکوارٹرس شنگھائی ہوا کرتا تھا اور وہاں سن پت سین کو اس کے کاسموپولیٹن لیڈر کی حیثیت حاصل تھی۔اس وقت ہندوستان میں انڈین نیشنل کانگریس میں ممبئی اور کولکتہ کے انگریزی بولنے والے ماہرین قانون کی اجارہ داری تھی لیکن گاندھی نے اس انڈین نیشنل کانگریس کو دنیا کی سب سے بڑی عوامی پارٹی میں تبدیل کردیا۔ چین میں ماؤ اور ہندوستان میں گاندھی نے ملک کی دو بڑی جماعتوں کو اشرافیہ کے تسلط سے آزاد کیا، ساتھ ہی دونوں لیڈروں نے کسانوں اور محنت کشوں (مزدوروں) کو سب سے زیادہ اہمیت دی اور دونوں کی پالیسی بالکل کامیاب رہی۔ کسانوں اور مزدوروں نے تاریخ بنائی اور 1950ء تک دونوں نے بیرونی طاقتوں کو ملک سے باہر نکال پھینکا۔ انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے بعد ہندوستان دنیا کی ایک بہت بڑی جمہوریت میں تبدیل ہوگیا جبکہ چین ایک انقلابی ریاست بن گئی اور اس کیلئے ماؤ کی کسان فوج یا پیپلز لبریشن آرمی کا کیڈر ذمہ دار ہے۔ آئندہ زائد از 60 برسوں میں ہندوستان ایک کثیرالجماعتی جمہوریت بن گیا اور دوسری طرف چین خاص طور پر ڈینگ ژیاوینگ اور جن پنگ کے تحت یک جماعتی اسٹیٹ میں تبدیل ہوگیا جنہوں نے ماؤ کے ویژن کو موقع بہ موقع آگے بڑھایا۔ اس میں ترامیم بھی کی جہاں تک موجودہ مودی حکومت کا سوال ہے، مودی کے دور میں ہندوستان کے ساتھ چین کی یک جماعتی ریاست کے کم از کم چار اہم خصوصیات دیکھی جارہی ہیں۔ یہ صرف کسی بھی سرکاری ادارہ یا میڈیا کے بارے میں ہی نہیں بلکہ حکمراں بی جے پی ایک ایسی سخت مخلوط یا اتحاد بنا رہی ہے جو معاشرہ تہذیب نظریہ اور اسٹیٹ کے درمیان کوئی سرحد نہیں توڑنا چاہتی ہے۔
دروپدی مرمو کو ہندوستان کی پہلی قبائیلی خاتون صدر بناتے ہوئے سماجی آرڈر یا نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اب تو یہی کہا جارہا ہے کہ مرمو کو صدر بناتے ہوئے بی جے پی سماجی نظام کے مکمل انضمام کے ذریعہ پارٹی اور معاشرہ کے درمیان رکاوٹ توڑ رہی ہے۔ اب بی جے پی جارحانہ انداز میں او بی سیز اور پسماندہ طبقات کو پوری طرح اپنے ساتھ ملانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس کیلئے اب دلتوں کے ذیلی ذاتوں کو قبائل میں شامل کررہی ہے اور پسماندہ مسلمانوں تک بھی رسائی کی باتیں کررہی ہے۔ وہ سماجی اور ذات پات کی بنیاد پر اپنے قدم مضبوط کرنے کی خواہاں ہے جس کے نتیجہ میں فی الوقت بی جے پی ہندوستان کی علاقائی اور چھوٹی، سیاسی جماعتوں کیلئے ایک چیلنج بن گئی ہے۔ نہ صرف انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے باعث بلکہ اس لئے بھی کہ علاقائی جماعتیں موثر طور پر ذات پات اور بالخصوص او بی سیز کی تائید و حمایت پر مبنی جماعتیں ہیں لیکن بی جے پی ان علاقائی جماعتوں کی اہمیت کم کرنے کیلئے چین کی طرح سوشیل انجینئرنگ اپنا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی تجزیہ و تبصرہ نگار دروپدی مرمو کو عہدۂ صدارت پر فائز کئے جانے کو بی جے پی کا ماسٹر اسٹروک قرار دینے لگے ہیں۔