ملک میں 5 اگسٹ سے یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے مودی حکومت سرگرم

,

   

پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں منظوری حاصل کرنے کی تیاریاں۔ مسلم تنظیموں کو لا ء کمیشن میں نمائندگی کیلئے تیاری کی ضرورت
محمد مبشرالدین خرم
حیدرآباد 15جون :مرکز5 اگسٹ کو ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا بل پیش کرکے منظور کروائے گا!ذرائع کے مطابق بی جے پی نے فیصلہ کیا کہ 15 جولائی سے پارلیمنٹ مانسون سیشن کا آغاز کیا جائے اور 12 اگسٹ تک یہ سیشن جاری رہنے کا امکان ہے۔ جاریہ پارلیمنٹ کے اس آخری سیشن میں حکومت کی جانب سے یکساں سیول کوڈ سے متعلق بل پیش کردیا جائے گا ۔ کہا جا رہا ہے کہ 5 اگسٹ کو حکومت لوک سبھا میں یکساں سیول کوڈ بل پیش کریگی اور اس کی لوک سبھا میں منظوری کے بعد راجیہ سبھا میں پیش کیا جائیگا۔ لاء کمیشن کی جانب سے اعتراضات کی طلبی اور سماج کے مختلف طبقات کو یکساں سیول کوڈ پر اعتراضات و ادعاجات کی طلبی کے بعد کہا جا رہاہے کہ پارلیمنٹ کے مانسون سیشن میں قانون سازی کو یقینی بنانے اقدامات کئے جائیں گے ۔ کشمیر کے خصوصی موقف والے قانون 370 کی تنسیخ کیلئے بھی حکومت نے 5 اگسٹ کا انتخاب کیا تھا اور 2019 میں 5 اگسٹ کو مرکزی وزارت داخلہ نے کشمیر کو دستور میں دفعہ 370کے تحت جو خصوصی موقف دیا گیا تھا اسے برخواست کردیا تھا۔ اسی طرح وزیر اعظم نریندر مودی نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا سنگ بنیاد 5 اگسٹ 2020کو رکھا تھا اوراب 2023 اگسٹ 5 کو یکساں سیول کوڈ بل ایوان میں پیش کرنے کی بات کہی جا رہی ہے۔ذرائع کے مطابق مرکزی حکومت نے لاکمیشن و وزارت قانون کو جو ہدایا ت جاری کی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ اگسٹ 2023 سے قبل یکساں سیول کوڈ کے متعلق تیاریاں مکمل کرلی جائیں۔ بتایاجاتا ہے کہ یکساں سیول کوڈ کے ساتھ مرکزی حکومت پر ہندو توا تنظیموں سے دباؤ ڈالا جا رہاہے اور لاء کمیشن کو جو سفارشات روانہ کی جار ہی ہیں ان میں لاء کمیشن کو مکتوبات میں ’وقف ایکٹ 1995‘ کو برخواست کرنے اور عبادت گاہوں کے تحفظ کے 1991کے ایکٹ کی برخواستگی کے علاوہ دیگر مطالبات کئے جا رہے ہیں۔ ماہرین قانون کا کہناہے کہ اگر مرکز کی جانب سے یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی کوششیں کامیاب ہوجاتی ہیں تو وقف ایکٹ1995 اور دیگر ایسے قوانین جو مذہبی اعتبار سے تمام طبقات کو ان کی مذہبی تعلیمات کے مطابق عمل کی اجازت دیتے ہیں وہ بھی برخواست کر دیئے جائیں گے اور ان قوانین کے بجائے یکساں سیول کوڈ کے تحت تیار کردہ قوانین کے مطابق تمام شہریوں کو ایک قانون پر عمل کرنا ہوگا ۔لاء کمیشن کی جانب سے طلب کی گئی آراء اور تجاویزکے علاوہ اعتراضات و ادعا جات پر مسلم تنظیموں کو بھی فوری تجاویز اور اعتراضات پیش کرنے چاہئے کیونکہ ہندو تنظیموں کی جانب سے لاء کمیشن کو سفارشات اور مطالبات و تجاویز روانہ کرنے میں جس مستعدی کا مظاہرہ کیا جا رہاہے اور جن امور کو شامل کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے ان کا باریکی سے جائزہ لے کر اپنے طور پر قانونی ماہرین کی نگرانی میں جوابات ارسال کرنے کے اقدامات کرنے چاہئے ۔