پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
میری ہمیشہ سے یہی خواہش رہی کہ ہمارے ملک کی معیشت زبردست فروغ پائے اور دنیا کی سرفہرست معیشتوں میں اس کا شمار ہو ، بہرحال معیشت کے دوسرے بہت سے خیرخواہوں کی طرح میں ہمیشہ سالانہ مرکزی بجٹ کے موقع پر پڑھتا ، سوچتا اور لکھتا ہوں اور بجٹ والے دن اکثر مایوسی میں پارلیمنٹ ہاؤس چھوڑ دیتا ہوں ۔ اس کے بعد میں لوگوں کے پاس واپس جاتا ہوں اور مختلف شعبے حیات سے تعلق رکھنے والی شخصیتوں بشمول ارکان اسمبلی ، ماہرین اقتصادیات ، تاجرین و صنعت کاروں ، کسانوں ، خواتین ، نوجوانوں اور آخرکار پارٹی کے سرگرم کارکنوں و قائدین سے بات کرتا ہوں ۔ آخرالذکر یعنی پارٹی کارکنوں سے بات کرنے پر وہ مجھے زمینی حقائق سے واقف کرواتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کارکن آپ کو معاشرہ کی گہرائی تک لے جاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ سالانہ بجٹ کے عام ہندوستانیوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ مقامی بازاروں میں کیا ہورہا ہے ، کیوں ہورہا ہے یہ معلوم کرنے میں بھی ہمیں مدد ملتی ہے ۔ عملی طورپر گزشتہ دس برسوں کے ہر سال میں نے دیکھا کہ بجٹ کے اعلانات بنا کسی نام و نشان اندرون 48 گھنٹے منظرعام سے غائب ہوگئے اور بجٹ کی خوبیوں کو لے کر جو چہچہارہے تھے اُن کا چہچہانا بند ہوگیا ۔ مایوس کن نتائج کی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ بجٹ بنانے والے حقیقت سے رابطہ کھودیتے ہیں اور معاشی صورتحال کا معروضی جائزہ لینے میں ناکام رہتے ہیں ۔ آئیے 2024-25 کو لیں ۔ بجٹ برائے سال 2024-25 ، 23 جولائی 2024 ء کو پیش کیا جائے گا ۔
معاشی صورتحال کا ایک معروضی جائزہ لینے سے اس بات کا انکشاف ہوگا کہ بیروزگاری نوجوانوں ، خاندانوں اور سماجی امن کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ حد تو یہ ہے کہ چند درجن مخلوعہ جائیدادوں یا چند ہزار پوسٹس کیلئے لاکھوں کی تعداد میں امیدواروں نے درخواستیں داخل کی اور امتحان لکھا یا پھر انٹرویو کے لئے رجوع ہوئے ۔ پرچہ سوالات کا افشاء ہوا ، رشوتیں دی گئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ امتحانات یا انٹرویز لمحہ آخر میں منسوخ کردیئے گئے جس کے باعث لاکھوں امیدواروں کو زبردست دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہ ایک دھماکہ خیز بیروزگاری کی صورتحال کے بالراست نتائج ہیں۔ CMIE کے مطابق قومی سطح پر بیروزگاری کی شرح 9.2 فیصد ہے ۔ زرعی شعبہ میں نام نہاد ملازمتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ( واقعی بیروزگاری کی شرمناک شرح ) تعمیرات ( بے قاعدہ ) اور غیرمحفوظ معیشت نے بھی عام آدمی کو پریشان کر رکھا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ حکومت وعدوں پر وعدے اور دعوؤں پر دعوے کئے جارہی ہے ۔ اس کا یہی دعویٰ ہے کہ معیشت مستحکم ہے ۔ اگر معیشت مستحکم ہے تو پھر بیروزگاری کی شرح میں کمی کی بجائے اضافہ کیوں ہوتا جارہا ہے ۔ ہمارے ملک کا نوجوان ریگولر یا باقاعدہ ملازمتیں ؍ نوکریاں چاہتا ہے۔ ساتھ ہی جاب سکیورٹی اور پرکشش تنخواہوں کا بھی وہ خواہاں ہے ۔ اس قسم کی ملازمتیں حکومت اور حکومت کے زیرکنٹرول اداروں میں دستیاب ہیں ۔ آپ کو بتادیں کہ 2024 کی شروعات میں اس قسم کے 10 لاکھ مخلوعہ جائیدادیں تھیں لیکن اس کے کوئی شواہد نہیں کہ مرکزی حکومت ان مخلوعہ جائیدادوں کو پُر کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اس قسم کی ملازمتیں درخشاں مینوفیکچرنگ سیکٹر اور بہت زیادہ قدر و قیمت و اہمیت کی حامل خدمات جیسے مالیاتی خدمات ، انفارمیشن ٹکنالوجی ، جہاز رانی ، فضائی حمل و نقل ، نگہداشت صحت ، تعلیم ، تحقیق و ترقی میں بھی پیدا کی جاسکتی ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ فی الوقت مینوفیکچرنگ آؤٹ پٹ قومی مجموعی پیداوار کے 15 فیصد پر رُکا ہوا ہے کیونکہ ہندوستانی پروموٹرس نے سرمایہ مشغول کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا ۔ مینوفیکچرنگ اور اعلیٰ قدر کی حامل خدمات دراصل انقلابی معاشی پالیسیوں ، بیرونی سرمایہ کاری قبول کرنے اور بیرونی تجارت کی جرأت کے متقاضی ہوتی ہیں ۔
اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ یا افراط زر ایک اور بڑا چیلنج ہے ۔ ہول سیل قیمتوں میں اضافہ جیسا کہ حکومت کی جانب سے مانا جاتا ہے اور تھوک قیمت کا افراط زر 3.4 فیصد کی اعلیٰ سطح پر ہے جبکہ سی پی آئی افراط 5.1 فیصد جبکہ غذائی افراط 9.4 فیصد ہے چونکہ ہندوستان ملک کے ہر حصہ میں اشیاء اور خدمات کے مفت بہاؤ کے ساتھ ایک مشترکہ منڈی نہیں ہے اس لئے شرحیں ریاست سے دوسری ریاست میں مختلف ہوتی ہیں اور ایک ریاست کے اندر اچھی طرح سے جڑے ہوئے اضلاع سے لے کر غریب اور دوردراز کے اضلاع تک سوائے شائد ٹاپ 20 کے 30 فیصد آبادی پر خاندان ، مہنگائی کی زد میں ہے ۔ کچھ چڑچڑاپن کا شکار ہوگئے ، زیادہ تر ناراض ہیں۔ آپ کے اطمینان کی بنیاد پر کہ بجٹ تقریر اور مختلف شعبوں کیلئے مختص بجٹ میں بیروزگاری اور قیمتوں میں اضافہ سے نمٹنے کیلئے قابل اعتماد اقدامات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے ۔ آپ 50 نشانات تک الاٹ کرسکتے ہیں ۔ مابقی 50 نمبر تعلیم نگہداشت صحت اور دیگر لوگوں کی ترجیحات کے عنوانات کے تحت الاٹ کئے جاسکتے ہیں ۔ جب تک ہمارے پاس تعلیم اور نگہداشت صحت غیرمعیاری ہوگی ہندوستان ترقی یافتہ ملک نہیں بنے گا ۔ تعلیم خاص طورپر اسکولی تعلیم بلاشبہ وسیع پیمانہ پر ہے لیکن معیار ناقص ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک بچہ اسکول میں اوسطاً 7 سے 8 سال گذارتا ہے ۔ تقریباً نصف بچے کسی بھی زبان میں سادہ سا متن پڑھنے یا لکھنے سے قاصر رہتے ہیں اور عددی طورپر چیلنج کا شکار ہیں ۔ وہ کسی بھی ہنر والے کام کیلئے موزوں ( فٹ ) نہیں ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسے ہزاروں لڑکوں ایسے اسکولس میں جہاں صرف ایک ٹیچر بچوں کو پڑھاتا ؍ پڑھاتی ہے ، اسکولوں میں کلاس رومس ، بیت الخلاء اور تدریسی آلات کا بہت زیادہ فقدان پایا جاتا ہے ۔ ہم نے آپ کو ابھی اسکولوں کے کتب خانوں یا لیبارٹریز کی بات نہیں کی ۔ یہ بنیادی مسائل ہیں جن کے حل کیلئے ریاستوں کی مدد کیلئے مرکزی حکومت کو آگے آنا چاہئے۔ ایسے اپنے وسائل اور وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہئے کیونکہ آج کل متنازعہ NEP یا این ٹی اے ؍ نیٹ کے اسکینڈل کے ذریعہ وسائل اور وقت دونوں ضائع کئے جارہے ہیں ۔
اب بات کرتے ہیں نگہداشت صحت کی یہ شعبہ اگرچہ بہتر ہے لیکن کافی نہیں ہے ۔ صحت عامہ کی سہولتیں مقداری طورپر بڑھ رہی ہیں لیکن معیاری طورپر نہیں ۔ جیب خرچ میں سے ہنوز نگہداشت صحت کے کل اخراجات کا 47 فیصد ہے ۔ ( NHAE وزارت صحت و خاندانی بہبود ) اس کے برعکس ہمارے ملک میں خانگی نگہداشت مقداری اور معیاری دونوں لحاظ سے آگے بڑھ رہا ہے لیکن اس کی بدبختی یہ ہے کہ نگہداشت صحت کے خانگی شعبہ تک عوام کی اکثریت کو رسائی حاصل نہیں ہے ۔ بحیثیت مجموعی اگر دیکھا جائے تو ڈاکٹروں ، نرسوں ، میڈیکل ٹیکنیشن کے ساتھ ساتھ تشخیصی آلات اور مشینوں کی بہت زیادہ قلت ہے ۔ نگہداشت صحت پر مرکزی حکومت کے مصارف میں 0.28 فیصد کی کمی آئی ہے اور کل اخراجات کے تناسب کے طورپر 1.9 فیصد رہ گئے ہیں ( … مورخہ 15 جولائی 2024 ) جہاں تک صحت عامہ کا سوال ہے اس پر عوامی اطمینان کم پایا جاتا ہے ۔
عوام کی دیگر ترجیحات میں تنخواہوں میں اضافہ ، بڑھتے گھریلو قرضوں ، Wage گڈس کے استعمال میں گراوٹ ، MSP کیلئے قانونی طمانیت ، تعلیمی قرضوں کا بوجھ اور اگنی پتھ اسکیم شامل ہیں۔ یہ ایسے مسائل ہیں جنھیں فوری طورپر حل کیا جانا ضروری ہے ۔ مثال کے طورپر ان چیلنجز کو یومیہ 400 روپئے اقل ترین اجرت دیتے ہوئے قانونی طورپر MSP کی طمانیت فراہم کرتے ہوئے تعلیمی قرض معاف کرکے اور اگنی پتھ اسکیم منسوخ کرکے حل کیا جاسکتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی ملک و قوم کو درپیش ان چیلنجس سے نمٹنے میں ناکام رہی یا اسے نظرانداز کردیا جس کا خمیازہ اسے 2024 ء کے عام انتخابات میں بھگتنا پڑا ۔ اس کی نشستو میں تباہ کن کمی آئی ۔ عوام بی جے پی کو اس کی عوام دشمن پالیسیوں پر مسلسل سزا دے رہے ہیں ۔ حالیہ عرصہ کے دوران 13 اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات منعقد ہوئے جس میں INDIA اتحاد کو 10 حلقوں میں کامیابی ملی ۔