ملک کو پانی اور بجلی کی قلت کا سامنا

   

چیتن بھٹاچارجی
ماہ ِ اپریل کے اوآخر میں ہم نے اور خاص طور پر شمال مغربی اور وسطی ہندوستان نے شدید گرمی دیکھی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تاریخ میں چند ہی مرتبہ ماہ اپریل میں اس قدر خطرناک گرمی کا مشاہدہ کیا گیا اور لوگ گرمی کے اس تجربہ سے متاثر ہوئے۔ یہ صرف گرمی کی ایک لہر نہیں ہے بلکہ یہ وہی ہے جس کا کئی دہوں سے ہمارے سائنس داں انتباہ دیتے آرہے تھے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ سائنس دانوں نے عالمی برادری کو عالمی حدت کا انتباہ دیا تھا اور وہ اس طرح کے انتباہ بار بار دے رہے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق عالمی حدت جہاں پانی کی قلت کا باعث بنے گی، وہیں شدید گرمی سے جانداروں کا جینا محال ہوجائے گا۔ اس مرتبہ اگرچہ کچھ تبدیلی نظر آئی ہے، لیکن علاقہ کے باہر عالمی حدت سے متعلق ہنگامی حالات کا اثر بھی پڑا ہے اور قومی سطح پر بھی لوگوں نے یہ اثر محسوس کیا۔ اگر دیکھا جائے تو سیلاب، طوفان باد و باراں اور بارش شدت اختیار کرتی ہے تو یہ جغرافیائی لحاظ سے محدود ہوتی ہے اور اس کے انسانوں اور معیشت پر اثرات بھی ایک علاقہ تک محدود رہتے ہیں، لیکن اب تاملناڈو جیسے مقامات جو گرمی کی لہر سے متاثر نہیں تھے، اب کوئلہ اور برقی کی قلت سے شدید متاثر ہے۔ یہ بحران معیشت کی بنیادوں کیلئے خطرہ بنا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ ہندوستان میں برقی ضروریات کو پوری کرنے کیلئے قائم کئے گئے ۔ کئی تھرمل پاور پلانٹس میں کام شدید متاثر ہے، اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے، وہاں کوئلہ کا اسٹاک بہت کم ہوگیا ہے۔ پنجاب کے وزیر توانائی کے مطابق برقی کی طلب میں 40% کا اضافہ ہوا۔ دوسری طرف ان کے بہاری ہم منصب اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ریاست میں 1000 میگاواٹ برقی کی قلت پیدا ہوئی۔ نتیجہ میں مختلف ریاستوں میں برقی کٹوتی کا ماحول پیدا ہوا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کوئلہ کی قلت کے نتیجہ میں پیاسنجر ٹرینوں کو منسوخ کیا گیا یا ملتوی کرنا پڑا۔ چھ ماہ قبل دہلی کے اطراف کام کرنے والے چند پاور پلانٹس کو بند کردینا پڑا، کیونکہ دارالحکومت میں زہریلی فضائی آلودگی اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی تھی، ویسے بھی ہندوستان میں انسانوں کے ہاتھوں ماحولیاتی تباہی کے باعث ماحول کو روشن یا منور رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جب تک تیز رفتار اور مناسب پالیسی ردعمل تیار نہیں ہوگا، تب تک صحت اور معیشت کے مسائل باقی رہیں گے۔
مارچ 2022ء ہندوستان میں ریکارڈ گرم ترین رہا۔ محکمہ موسمیات نے مارچ میں 33.1 ڈگری درجہ حرارت ریکارڈ کیا۔ اس کے مطابق یہ ہندوستان میں گرم ترین مہینہ رہا۔ 33.1 ڈگری درجہ حرارت معمول کے درجہ حرارت سے 2 ڈگری زیادہ رہا۔ گرمی کی لہریں تقریباً 6 ہفتوں تک جاری رہی اور درجہ حرارت نارمل سے کہیں زیادہ رہا۔ محکمہ موسمیات نے میدانی علاقوں میں درجہ حرارت 40 ڈگری سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا جو معمول سے ہٹ کر 4.5 ڈگری سیلسیس زیادہ رہا۔ اپریل میں گرمی کی شدت اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ خاص طور پر گرگاؤں، لکھنؤ، الہ آباد اور چندی گڑھ میں ماہ اپریل کے دوران درجہ حرارت بہت زیادہ رہا۔ اترپردیش کے بنڈہ علاقہ میں 47.4 ڈگری سیلسیس درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا اور اس سے 400 کیلومیٹر کے فاصلے پر راجستھان کے دھول پور علاقہ میں 29 اپریل کو درجہ حرارت 47.3 ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیا۔ اسی طرح دہلی اور گرگاؤں میں درجہ حرارت 46 ڈگری سیلسیس رہا۔ ان علاقوں میں بارش مارچ اور اپریل میں معمول سے 87% کم رہی۔ اپریل کے اواخر میں 300 سے زائد جنگلات کی بڑی آگ دیکھی گئی اور زیادہ تر جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات شمالی ہند میں پیش آئے۔
ملک میں فی الحال گرمی کی لہر سے کہیں زیادہ کوئلہ اور بجلی کا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئلہ اور بجلی کا بحران راست طور پر عوام پر کس طرح اثرانداز ہوتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس تمام بحران کیلئے ماحولیاتی تبدیلی ذمہ دار ہے، لیکن اس جانب زیادہ توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ پھر بھی میڈیا کے بعض گوشے ہیں جو برقی قلت سے متعلق رپورٹس شائع کررہے ہیں، لیکن ان میں ماحولیاتی تبدیلی کا کوئی حوالہ نہیں دیا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر دہلی کے تین سرفہرست اخبارات میں برقی قلت پر رپورٹس شائع کی لیکن صفحہ اول پر شائع کی گئی ان رپورٹس میں ماحولیاتی تبدیلی کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کوئلہ اور برقی قلت خراب نظم و نسق کا نتیجہ ہے اور اس کیلئے مفت برقی یا برقی کی ارزاں سربراہی کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے ۔ گرمی کی لہر نے جاریہ سال ہر چیز کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ صرف یہ گرم ترین مارچ اور اپریل تک محدود نہیں بلکہ ہمارا موسم تبدیل ہوا ہے۔ ہندوستان کے محکمہ موسمیات کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے حال ہی میں NDTV سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شدید بارش کے امکانات بھی پائے جاسکتے ہیں اور یہ سب ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہیں۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے وقت جبکہ ماحولیاتی تباہیاں بڑے پیمانے پر ہورہی ہیں کیا ہندوستان اس طرح کی تباہیوں کو متحمل ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب تو ہماری حکومت ہی دے سکتی ہے چونکہ ملک کے ماحول یا فضاء کو صاف ستھرا رکھنا حکومت کا فرض ہے اور عوام کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔