ملک کے حالات سے مایوس نہیں ہم

   

مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی
پہلی بار ملک کے علماء ، ائمہ مساجد نے ووٹر شناختی کارڈس بنوانے میں، کرکشن کروانے، رائے دہی کے دن ووٹ ڈلوانے میں ایک بڑا کردار ادا کیا، بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا عوام سے راست تعلق اور رابطہ ہوتا ہے، گراس ووٹ لیول پر ان کا تعلق ہوتا ہے۔ محلہ اور گاؤں بلاک، تحصیل اور ضلع کی سطح پر ان کا تعلق اور رابطہ ہوتا ہے۔ یہ سارا طبقہ بھی سول سوسائٹی کا جز بن کر اگر یہ کام کرنے کیلئے کھڑا ہوتا ہے تو وہ نتیجہ نکل سکتا ہے جو ابھی ابھی برآمد ہوا ہے۔ یہ تو ابھی شروعات ہے اس سے بہت دلچسپ نتائج مستقبل میں آسکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے سے بہت سے لوگ علماء اور ائمہ کو سول سوسائٹی سے الگ سمجھتے ہیں ‘ خدا جانے سول سوسائٹی کیلئے کوئی لباس شرط ہے ، اس کا بھی کوئی یونیفارم ہے، اس کی بھی کوئی پہچان ہے؟ ۔ کیوں سول سوسائٹی میں ان کو نہیں سمجھا جاتا جو سب سے زیادہ عوام سے جڑے ہوئے لوگ ہیں۔ جہاں تک مستقبل کے لائحہ عمل کی بات ہے میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ ملک کے اندر جو خوش فہمیاں تھیں سنگھ پریوار کے بارے میں‘ بی جے پی کے بارے میں‘ بڑا اچھا ہوا کہ دس برسوں کے تجربہ کے بعد وہ غلط فہمیاں اور خوش فہمیاں کم ہوگئیں۔ میں ابھی یہ تو نہیں کہوں گا کہ دور ہوگئیں لیکن بہت کم ہوگئیں۔ یاد کیجئے کہ جب 2014 میں ان کو ملک نے ووٹ دیا تھا ہندوتوا کی بنیاد پر نہیں دیا تھا، 15 لاکھ روپئے کی بنیاد پر دیا تھا۔ دو کروڑ ملازمتیں ہر سال ملیں گی اس کی بنیاد پر دیا تھا۔ کسانوں کی آمدنی دوگنی ہوجائے گی اس کی بنیاد پر ووٹ دیا تھا، اس بنیاد پر ملک نے انہیں ووٹ دیا۔ میں کم از کم اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ ہمارے ملک میں جو غیر مسلم بھائی اور بہنیں ہیں ہماری اور نوجوان بیٹے اور بیٹیاں ہیں وہ ہندوتوا کے زہر سے بہت زیادہ متاثر ہیں، میں اس سے متفق نہیں ہوں، عام طور پر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہر شخص نفرت کی آگ میں جل رہا ہے، میرا رابطہ اور بات چیت جتنا مسلمانوں سے ہے اگر میں یہ کہوں کہ اس سے زیادہ غیر مسلموں سے ہے تو مبالغہ ہوگا لیکن اس سے بہت کم بھی نہیں ہے۔ جب کسان آندولن ہوا تو میں اکیلا ایک مولوی، عالم کہلانے والا شخص کسان آندولن میں جاکر شریک ہوا، اور اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ میں جب پنجاب سرحد پر پہنچا تو اکالی تخت کی طرف سے نہنگ سکھ بھائیوں کا ایک پورا گروپ اپنی مذہبی روایت کے مطابق پورے ہتھیار لیکر تین کلو میٹر پیدل چل کر میرے استقبال کیلئے آیا ، اس کے بعد سکھ لیڈر شپ سے میری بہت سی ملاقاتیں ہوئیں۔ میں بتانا چاہتا ہوں یہاں ، اس لئے کہ یہاں آپ میں سے ایک‘ ایک شخص کے پیچھے سینکڑوں ہزاروں لوگ ہیں۔ میں نے جب اکالی دل تخت کے اس وفد کے جتھیدار سردار ہرجیت سنگھ کو فون کرکے یہ بات بتائی کہ میں آپ کے پاس حاضر ہونا چاہتا ہوں، اکالی تخت آنا چاہتا ہو، دربار صاحب آنا چاہتا ہوں تو مجھے حیرت ہوئی کہ وہ مجھے پہچان گئے، وہ یو ٹیوب وغیرہ سے میری گفتگو سنتے رہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں اکالی تخت نہ آؤں، اکالی تخت ضرور آؤں‘ لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے گھر پر آئیں، میں آپ سے بہت تفصیلی تبادلہ خیال کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کو خوشی ہوگی کہ میں امرتسر سے 100 کلو میٹر کا سفر کرکے اُن کے گھر گیا۔ 6 گھنٹے لگاتار انہوں نے مجھ سے بات چیت کی‘ اور یہ وہ بندہ ہے سردار ہرجیت سنگھ جنہوں نے قرآن مجید کا پنجابی گرمکھی زبان میں ترجمہ کیا۔ آپ غور کیجئے پھر اس کے بعد ایک اور نئی بات انہوں نے بتائی کہ ان کا جو پی ایچ ڈی کا THESIS تھا وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے، اللہ کے 99 اسماء پر تھا۔ انہوں نے اور یہ ثابت کیا کہ بابا گرونانک نے جو 99 نام اللہ کے نقل کئے ہیں وہ سو فیصد وہی نام ہیں جو قرآن اور حدیث میں آئے ہیں، اس کا پنجابی میں ترجمہ کیا گیا، یہ اُن کا پی ایچ ڈی کا Thesis تھا اور سنئے انہوں نے مجھ سے درمیان میں پوچھا کہ آپ نے کہاں تعلیم حاصل کی‘ انگلش بھی بول رہے ہیں، ہندی بھی بول رہے ہیں‘ آپ فارسی اقوال اور اشعار پڑھ رہے ہیں، عربی کے اقوال بیان کررہے ہیں، وہ بہت لمبی گفتگو تھی تو میں نے کہا کہ اسلامک یونیورسٹی مدینہ سے تعلیم حاصل کی وہاں سے پی ایچ ڈی کیا۔ آپ حضرات کے سامنے عرض کرتا ہوں کہ جب میں نے اُن کے سامنے مدینہ کا نام لیا تو سردار ہرجیت سنگھ کُرسی چھوڑ کر نیچے بیٹھ گئے اور وہ کہنے لگے کہ آپ نے مدینہ میں تعلیم حاصل کی، کتنے سال آپ مدینہ میں رہے، جب میں نے کہا کہ تقریباً 9-8 سال مدینہ میں رہا، تو یقین کیجئے کہ وہ اپنا سر میرے قدموں پر رکھ دیتے کہ میں گنہگار آدمی ہوں۔ یہ ہے ہندوستان، یہ ہے ہمارا ملک، ہم نے شائد ابھی تک اپنے ملک کو اس کے Potential کو پہچانا نہیں ہے، ہم بھی کہیں پروپگنڈہ کا شکار ہوئے ہیں، ہم بھی کہیں مایوس اور خوفزدہ ہوئے ہیں، ہم ہمارے ملک میں ایک خلاء ہے ایک Vaccum ہے اس Voccum کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمان Best Qualified ہیں کہ وہ Voccum کو پورا کریں بشرطیکہ مسلمان واقعی مسلمان ہوں۔ مسلمان واقعی قرآن کو سمجھیں ، مسلمان واقعی اسلام کو سمجھیں، کچھ تھوڑے بہت عمل کرلینے کو اسلام کو سمجھنا نہیں کہتے۔ ہم پورے اسلام کو سمجھنے میں کوتاہ ہیں اس کا ہمیں اعتراف کرنا چاہیئے۔ میں تو ایک عملی گذارش کرکے رخصت ہوں گا کہ یہ اجلاس ایک نقطہ آغاز ثابت ہو اور آپ ایک سول سوسائٹی کی ایک نمائندہ کمیٹی بنائیں اور مستقل طور پر کام کریں اور ہر صوبہ میں اس کی شاخیں ہوں۔ جن لوگوں کا عوام سے بہت رابطہ ہے ہوسکتا ہے کہ وہ میڈیا میںنہ آتے ہوں، ہوسکتا ہے کہ کسی سیاسی جماعت میں کوئی نمایاں حیثیت ان کی نہ ہو۔ میڈیا انہیں نظرانداز کرتا ہو اور ایسے بہت زمینی ورکرس ہوتے ہیں جو خود میڈیا کو نظرانداز کرتے ہیں ان کو اپنے کام سے کام ہوتا ہے۔ اس الیکشن میں بھی ان لوگوں نے بہت کام کیا ہے جنہیں کوئی نہیں جانتا اور جو اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ انہیں کوئی جانے نا۔ بہت پُرامید ہوں میں بھارت کے مستقبل کے بارے میں لیکن بھارت کا روشن مستقبل ہمارے آپ کے احساسِ ذمہ داری پر منحصر ہے اگر ہم نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا۔ آپ سوچئے ذرا 80 کروڑ لوگوں کو ہماری موجودہ حکومت مفت کا راشن دے رہی ہے اور اس پر بہت فخر کررہی ہے کہ ہم 80 کروڑ لوگوں کو مفت کا راشن دے رہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت ملک کے غریبوں کی غربت کو دور کرنے میں پوری طرح ناکام ہے۔ معیشت بھارت کی نہیں بڑھ رہی ہے انڈیا کی اکنامی بڑھ رہی ہے، انڈینس بیچارے غریب ہوتے جارہے ہیں۔ اڈانی اور امبانی کی معیشت بڑھ رہی ہے۔ 3 کھرب 5 کھرب ڈالرس کی اکنامی کہاں بھارت کے لوگوں تک پہنچ رہی ہے۔ آپ خود مان رہے ہیں اور وہ بھی 5 کیلو راشن پورے مہینہ کیلئے 80 کروڑ لوگوں کو دے کر ایسے میں سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ میں یہاں تنقید کرنے نہیں بیٹھا ہوں‘ میرا مزاج تنقید کا نہیں ہے، میں سوچتا ہوں روزِ محشر کیا اللہ ہم سے نہیں پوچھے گا کہ بتاؤ تم نے اگر ملک کے بھوکوں کی بھوک دور کرنے کی کوشش کی ہوتی، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلے ہوتے تو تمہارے ملک میں اتنی غربت نہ ہوتی ہماری ذمہ داری ہے، یقین کیجئے میرے نزدیک اصل حل یہی ہے۔ تمام سیاسی کوششیں سر آنکھوں پر لیکن وہ سیاسی کوشش Time gain کرنے کیلئے ہیں کہ ہمکو کام کرنے کا موقع ملے وہ Ultimate Solution بالکل نہیں ہے جیسے موجودہ جو تبدیلی ہوئی ، ادھوری سی تبدیلی ہوئی، مثلاً اتحاد کے لوگ ہیں یہ بھی اپنی ذمہ داری سمجھیں واقعی ادیب صاحب نے اپنی افتتاحی تقریر میں جو بات کہی تھی کہ یہ کیسا سیکولرازم ہے کیا آپ کسی مسلمان کو اپنے پاس کھڑا کرنے سے گھبراتے ہیں، کسی مسلمان کا نام لینے سے گھبراتے ہیں۔ اکھلیش میرے پاس آئے، میں نے اکھلیش سے کہا کہ یہ الب سنکھک کیا ہوتا ہے، آپ مسلمان کیوں نہیں بولتے، آپ سکھ کیوں نہیں بولتے، آپ عیسائی کیوں نہیں بولتے یہی صورتحال ہر ایک کی ہے، بہت مشکل ہے، راہول گاندھی کی زبان سے میں ترس گیا ہوں مسلمان کا لفظ سننے کیلئے، بالکل صاف بات میں آپ سے کہہ رہا ہوں میناریٹیز یہ کیا بات ہے؟ کیوں کسی مسلمان کو عہدہ نہیں دیا جاتا، مسلمان کا ووٹ جب آپ کو چاہیئے لیکن مسلمان کو برابری کا درجہ دینے کیلئے آپ تیار نہیں تو جتنا اس ملک کی بربادی میں نام نہاد فاشسٹ فورس کا حصہ ہے مجھے یہ کہنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ خود ساختہ سیکولر فورسس بھی کچھ کم مجرم نہیں، بڑی غلطی ان سے ہوئی اور بڑی غلطی ہم سے بھی ہوئی ہے شروع سے۔ میں اکثر ایک مثال کے ذریعہ اپنی بات کو پیش کرتا ہوں کہ ریلوے اسٹیشن پر ایک مسافر بھی ٹرین کا انتظار کرتا ہے اور ایک قلی بھی ٹرین کا انتظار کرتا ہے لیکن دونوں کے انتظار میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ قلی تو اس لئے انتظار کرتا ہے کہ وہ ایک بابو کو اُتاردے، ایک بابو کو چڑھا دے تو اسے اس کی مزدوری مل جائے گی۔ مسافر انتظار کرتا ہے ٹرین میں سوار ہوکر منزلِ مقصود پر پہنچنے کیلئے۔ ہم مسلمان بھی زیادہ تر الیکشن کا انتظار ایک قلی کی طرح کرتے ہیں۔ الیکشن کا دن جب آئے گا ایک پارٹی کو ہم اُتار دیں گے اور ایک پارٹی کو ہم چڑھا دیں گے، یہ جو حکمت عملی ہے ہر کام میں ہوسکتی ہے۔ اب تک کا تجربہ کافی ہے ہوش کے ناخن لینے کیلئے ایک ایسی قیادت اُبھرنی چاہیئے۔ بس میں اس کے ساتھ اپنی بات ختم کروں گا اور کاش ! IMCR کو یہ سعادت حاصل ہو کہ اس کے جیسے اور جماعت اسلامی کے امیر محترم سعادت الہ حسینی نے کتنی بڑی بات کی انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کی طرف سے مکمل تعاون ہے یہی صورتحال سب تنظیموں اور جماعتوں کی طرف سے IMCR سے یہ پہل شروع کی جائے ایسی لیڈر شپ و قیادت اُبھرے جس کی قیادت آپ کے ہاتھ میں ہو جس میں سکھ بھائی بھی ہوں، عیسائی بھائی ہوں، لنگایت بھی ہوں، بدھسٹ بھی ہوں، بی سیز بھی ہوں، قبائیلی بھی ہوں۔ اگر میں اکیلا بغیر کسی تنظیم کے پچھلے چند برسوں میں تجربہ کیا ملک کا چوٹی کا قبائیلی لیڈر برابر مجھ سے رابطہ میں ہیں، میرے پاس آتے رہتے ہیں، میں خود اُن کے پاس جاتا ہوں۔ منی پور تک میں گیا جو گرجا گھر جلائے گئے وہاں بھی گیا، جو عیسائی اسکولس جلائے گئے وہاں کے جو بشپ تھے وہ مجھ سے ملنے آئے۔ پنجاب کے سکھوں سے میرا رابطہ ہے، بدھسٹ رہنماؤں سے تو بہت بہترین امکانات مثبت تبدیلی کیلئے موجود ہیں۔نوٹ: (مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے حال ہی میں دارالحکومت دہلی میں IMCR کی کانفرنس سے خطاب میں یہ خیالات ظاہر کئے جسے من و عن شائع کیا جارہا ہے)