ملک کے قومی اثاثوں پر کون کررہا ہے قبضہ ؟

   

سبودھ ورما
مرکزی حکومت نے سال 2021-22ء میں مختلف خانگی اداروں اور کمپنیوں کو سرکاری جائیدادیں لیز پر دیتے ہوئے 97 ہزار کروڑ روپئے سے زائد رقم جمع کی۔ یہ بات 14 اپریل کو ایک رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ حکومت نے جن سرکاری املاک کو لیز پر دیا ہے، وہ کوئلہ کی کانکنی (40,000 کروڑ روپئے)، مختلف قومی شاہراہیں (23,585 کروڑ روپئے)، پاور ٹرانسمیشن لائنس (9,409 کروڑ روپئے) وغیرہ وغیرہ سے متعلق ہیں۔ مرکزی وزیر فینانس نرملا سیتا رامن نے مختلف وزارتوں اور نیتی آیوگ کے عہدیداروں کے ساتھ جائزہ اجلاس منعقد کیا جہاں یہ حقائق ریکارڈ کئے گئے۔ مذکورہ سال کیلئے حکومت نے جو ٹارگٹ مقرر کیا تھا، وہ 88,190 کروڑ روپئے کا تھا۔ ہر کوئی اس بات کو لے کر خوش ہوگیا کہ سرکاری املاک لیز پر دینے کا نشانہ یا ہدف سے کہیں زیادہ حکومت کو رقم حاصل ہوئی ہے۔ جہاں تک لیز پر دینے کا سوال ہے، یہ دراصل خانگیانے کے عمل کا ایک حصہ ہے۔ سرکاری املاک کو لیز پر دینے باالفاظ دیگر اسے خانگیانے کے پروگرام کا آغاز بجٹ 2021ء میں صرف 7 ماہ قبل شروع کیا گیا۔ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جاریہ مالی سال کیلئے یہ ہدف 1.67 لاکھ کروڑ روپئے مقرر کیا گیا ہے اور حکومت تقریباً اس ہدف کو پالے گی۔ اسے یقین ہے کہ نشانہ سے زیادہ رقم جمع نہ ہونے کے باوجود اس ہدف کو پالے گی، کیونکہ پہلے ہی سے 1.6 لاکھ کروڑ روپئے مالیتی پراجیکٹس کو لیز پر دینے کے عمل میں تیزی پیدا ہوئی ہے۔ نریندر مودی کی حکومت نے یہ پروگرام شروع کیا ہے تاکہ 4 برسوں یعنی 2022-25ء میں 6 لاکھ کروڑ روپئے کی سرکاری املاک لیز پر دی جائے۔ وزیر فینانس نرملا سیتا رامن، نیتی آیوگ اور دیگر وزارتوں کے مختلف جائزہ اجلاس میں سی پی پی (کینیڈا پینشن پلان)، انویسمنٹ بورڈ، اونٹاریو ٹیچر پینشن پلان (او ٹی پی پی)، کیپیٹل گروپ، یوٹیلیکو ایمرجنگ مارکٹس ٹرسٹ (یو ای این ٹی) کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا جائزہ لیا گیا۔ یہ ایسے ادارے ہیں جن کے پاس زبردست فنڈس موجود ہیں اور ان اداروں نے فوری اور ثمرآور فوائد کیلئے عالمی سطح پر غیرمعمولی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ مثال کے طور پر ٹورنٹو سے کام کرنے والی سی پی پی انویسٹمنٹ نے مینجمنٹ کے اثاثہ جات میں 497 ارب ڈالرس سرمایہ مشغول کیا ہے، جبکہ لاس ایجنیلس سے کام کرنے والے کیپیٹل گروپ کے 31 ڈسمبر 2021ء تک اثاثوں کی مالیت 2.7 کھرب ڈالرس سے زیادہ ہوگئی ہے۔ جہاں تک یو ای این ٹی کا سوال ہے، یہ لندن میں قائم ایک ایسی مینجمنٹ کمپنی ہے جو اثاثہ جات سے متعلق ہے۔ اس کے اثاثہ جات کے بارے میں جو رپورٹ آئی ہے، اس کے بارے میں بتایا گیا کہ 2021ء کے اواخر تک اس کے اثاثہ جات کی مالیت 556 ملین اسٹرلنگ پاؤنڈ تک پہنچ گئی ہے۔ او ٹی پی پی ایک کینیڈین پینشن فنڈ ہے جو اپنے ارکان کے 241.6 ارب ڈالرس مالیتی اثاثوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ ویسے بھی پینشن فنڈس عام طور پر مالدار فنڈس ہوتے ہیں اور یہ ملازمین اور آجرین سے جمع کی ہوئی بہت زیادہ رقم اپنے پاس رکھتے ہیں اور اس میں ملازمین کی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے آجرین کی جانب سے ادا کی گئی رقم کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ملازمین کو پینشن کے کافی فوائد حاصل ہوتے ہیں اور جو فنڈ ملازمین اور آجرین سے حاصل کیا جاتا ہے، اسے مختلف طریقوں بشمول اسٹاک مارکٹ میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے یا پھر ایسے اثاثے خریدے جاتے ہیں یا لیز پر حاصل کئے جاتے ہیں جیسے فی الوقت ہندوستان میں فروخت کئے جارہے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق عالمی سطح پر دنیا کی 10 سرفہرست پینشن فنڈس کم از کم 21.5 کھرب ڈالرس کی مالیتی اثاثہ جات کی ملکیت رکھتے ہیں۔ ان فنڈس کا مقصد سرمایہ کاروں کو ان کے سرمایہ پر اچھا خاصا منافع یا فائدہ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ یہ فنڈس چیارٹی کی کوئی تنظیم نہیں چلا رہی ہے بلکہ یہ فنڈس زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کیلئے سرمایہ مشغول کررہے ہیں اور اگر ضرورت پڑتی ہے تو یہ پینشن فنڈس کسی اور خریدار سے بہتر قیمت حاصل ہونے کی صورت میں اپنے اثاثے فروخت کرسکتے ہیں۔ اس عمل کو Asset Stripping کہا جاتا ہے۔ یہ خاص طور پر ایسے وقت ہوتے ہیں جب قدر سے کم مالیتی اثاثے زیادہ دستیاب ہوں۔ حکومت نیشنل مانی ٹائزیشن پائپ لائن پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے اور اسی کے مطابق وہ ملک میں دستیاب سرکاری اثاثہ جات کو لیز پر دینے یا فروخت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ یاد رکھئے کہ جو حقیقی این این پی تجویز ہے ان پر سڑکوں سے لے کر ریلوے، بندرگاہوں سے لے کر طیران گاہیں، مواصلاتی شعبہ کی بنیادی سہولتوں سے لے کر پاور لائنس اور اسٹیڈیم سے لے کر پائپ لائنس سب کے سب شامل ہیں۔ یہ ایسے اثاثے ہیں جس کو لیز پر دے کر یا فروخت کرتے ہوئے حکومت اچھی خاصی رقم جمع کرسکتی ہے۔
یہ قوم پرستی ہے یا غلامی؟
سڑکوں، شاہراہوں، پاور لائنس یا ریلوے اسٹیشنوں اور یہاں تک کے کھیل کود کے اسٹیڈیمس جیسے سرکاری اثاثوں کو خانگی اداروں کو فروخت کردینا یا انہیں لیز پر دینا ایک عجیب و غریب حرکت ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں اس طرح بڑے پیمانے پر سرکاری املاک کو لیز پر نہیں دیا گیا اور نہ ہی فروخت کیا گیا جیسے کہ موجودہ حکومت کے دور میں کیا جارہا ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ سابقہ حکومتوں نے بڑی محنت کے ساتھ یہ اثاثے تعمیر کئے تھے اور ان کا مقصد عوام کی خدمت کرنا تھا۔ ماضی میں تعمیر کئے گئے اثاثوں نے عوام کی خدمت کی اور اس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ان اثاثوں نے ملک کی سلامتی، اتحاد و سالمیت کو یقینی بنایا۔ حیرت کی بات ہے کہ سرکاری املاک کو لیز پر دینے والی بی جے پی حکومت جو دوسروں کو قوم پرستی و حب الوطنی کا درس دیتی ہے، وہ پہلی حکومت ہے جس نے معمولی اور چھوٹے احتجاجی مظاہروں یا اس پر کی جانے والی معمولی تنقید پر ملک سے بغاوت اور غداری کے مقدمات درج کئے اور اس طرح کے سنگین الزامات کا سب سے پہلی مرتبہ نفاذ عمل میں لایا۔ اپنی خصوصی مہم کے تحت مودی حکومت پہلے ہی سرکاری شعبہ کے صنعتی اداروں کو جو لاکھوں کروڑ روپئے مالیتی تھے ، خانگی صنعتی گھرانوں کو پہلے ہی فروخت کرچکی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک میں بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر کے زبردست بہاؤ کو دیکھنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئلہ کی کانوں سے لے کر دفاعی پیداوار اور خلائی سائنس جیسے شعبوں میں سرمایہ مشغول کرنے کو اہمیت دی ہے۔مزید یہ کہ مرکز کی حکومت نے انتہائی اہمیت کے حامل سرکاری اثاثوں کو لیز پر دینے کا آغاز کیا ہے۔ اس کا مطلب انہیں فروخت کردینا ہے کیونکہ 35 تا 40 سال ان میں سے کئی اثاثوں کی زندگی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ہماری حکومت ایسی اراضیات کو بھی فروخت کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جو سرکاری شعبوں سے تعلق رکھتی ہیں اور مختلف حکومتی ادارے اور لینڈ مانی ٹائزیشن پروگرام کے تحت لیز پر دی گئی اراضی کو بھی حکومت اپنی پالیسی کے مطابق فروخت کردینا چاہتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بی جے پی حکومت تمام سرکاری املاک لیز پر دے دے گی یا انہیں فروخت کردے گی تب ہندوستان کس طرح نظر آئے گا۔کیا ہندوستان اس مغرب کی طرح دکھائی نہیں دے گا جہاں بے چہرہ کارپوریشنس ہر چیز چلاتے ہیں۔ کیا مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی کے اسی وعدے پر ہی عوام نے انہیں ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ اقتدار حوالے کیا۔