کلکتہ، 3 جولائی (سیاست ڈاٹ کام)لوک سبھا انتخابات میں مغربی بنگال میں فرقہ وارانہ تشدد اور ملک بھر میں مسلم نوجوانوں کے خلاف ماب لنچنگ کے واقعات پر اتفاق رائے قائم کرنے کیلئے مغربی بنگال کے مسلم رہنماؤں نے ایک میٹنگ کی جس میں مستقبل میں فرقہ وارانہ فسادات یا پھر ماب لنچنگ جیسے واقعات کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کیلئے حکومت پر دباؤ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس میٹنگ جس میں سیاسی وسماجی رہنماؤں اور علما ئے کرام کی بڑی تعداد میں شرکت کی، شہر کے مولانا قاری فضل الرحمن نے ملک کے موجودہ حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سامنے متعدد مسائل ہیں،تمام مسائل حل طلب ہیں مگر ان تمام مسائل پر اس وقت گفتگو نہیں کی جاسکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے اس وقت دو اہم مسائل ہیں،ان میں ایک قربانی کا مسئلہ ہے ۔ہم تو قربانی ضرور کریں گے مگر طریقے کار کیا ہوگا؟ حکومت کی حمایت ہمیں کس طریقے سے حاصل ہوگی اور خو د اس معاملے میں حکومت کا موقف کیا ہے وہ ہمیں معلوم کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بنگال کی فضاء کچھ اور تھی مگر اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں،جگہ جگہ ر وکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی جائے گی اس لیے مسلمانوں کے نمائندوں کو حکومت سے اس معاملے میں بات چیت کرنی چاہے ۔این آرسی کے مسائل پر توجہ دلاتے ہوئے مولانا قاری فضل الرحمن نے کہا کہ بی جے پی بنگال میں این آر سی نافذ کرنے کا وعدہ کرکے اقتدار میں آئی ہے اور اس نے اس کو نافذ کرنے کی کوشش کیلئے تیاریاں شروع کردی ہیں۔اس لیے ہمیں اس سمت بھی کام کرنے کی ضرورت ہے ۔بنگال کے دیہی علاقوں میں عام بیداری لاکر 1971کے قبل کے کاغذات جمع کرنا شروع کرنا پڑے گا۔ سابق ممبر پارلیمنٹ محمد سلیم نے ماب لنچنگ کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے الزام لگایا یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک منصوبہ کے تحت یہ انجام دیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ گائو کشی سے شروع ہونے والا ہجومی تشدد اب جے شری رام تک پہنچ گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں میں خوف پید ا کردیا جائے اس لیے ہمیں حکمت عملی کے تحت ان واقعات سے خوف زدہ ہونے کے بجائے ان کا مقابلہ اور اس کے تدارک کیلئے سوچنے کی ضرورت ہے ۔ امانت فاؤنڈیشن کے چیرمین شاہ عالم نے مسلمانوں کے امپاورمنٹ پر خصوصی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ہمہ جہت سوچ اور فکر کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔کسی ایک معاملے پر توجہ دینے سے ہمارے مسائل حل نہیں ہونے والے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مسلم تنظیموں کے نمائندوں اور سرکردہ افراد کی میٹنگ اورملاقات کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے ۔
تاہم اس کیلئے ہمارے پاس مستقل لائحہ عمل موجود ہونا چاہیے ۔
ہیومن رائٹس پروٹیکشن ایسوسی ایشن کے سربراہ قائد اردو شمیم احمد نے اشتراک عمل کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ہر ایک جماعت اور تنظیموں کا اپنا لائحہ عمل اور طریقہ ہوتا ہے ۔مگر ان تمام اداروں کے وجود کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیں اشتراک عمل اور سنگین مسائل سامنے آنے کے بعد رائے عامہ ہموار کرنے اور متحدہ کوشش کرنے کیلئے رابطہ کمیٹی کا قیام ضروری ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے اس رابطہ کمیٹی کی قیادت کون کرے گا اور کون نہیں ہمارا مقصد ہونا چاہیے کہ ہم ہندوستانی عوام کے درمیان مشترکہ پیغام دے سکیں۔میٹنگ کے اہم شرکاء نے جمعے ۃ علماء ہند کے ریاستی سیکریٹری مولانا قاری شمش الدین، شیعہ عالم دین، سماجی کارکن ضمیرالدین نے شرکت کی۔