آج سے غیر معینہ بھوک ہڑتال کا اعلان، جین برادری پر امن ہے، ضرورت پڑی تو ہتھیار اٹھائیں گے
ممبئی، 12 اگست (یو این آئی)جین راہب مونی نیلیش چندر وجے نے دادر کبوترخانہ کو بند کرنے اور کبوتر کھلانے پر پابندی کے فیصلے کے خلاف 13 اگست سے غیر معینہ بھوک ہڑتال شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کمیونٹی عدالتی احکامات کو اس معاملے میں تسلیم کرے گی تو یہ جین مذہبی رسومات کی خلاف ورزی ہوگی۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ جین برادری پُرامن ہے ، تاہم ضرورت پڑی تو مذہب کے دفاع میں ہتھیار اٹھائے گی۔ مہاراشٹر کے وزیر برائے اسکل ڈیولپمنٹ منگل پربھات لودھا، جو کبوترخانوں کے تحفظ کی کوششوں کی حمایت کر رہے ہیں، نے وجے کے بیان سے خود کو الگ کر لیا۔ 6 اگست کو بڑی تعداد میں مظاہرین نے دادر کبوترخانہ پر بی ایم سی کی جانب سے کبوتروں کو دانہ ڈالنے سے روکنے کے لیے لگائی گئی ترپال ہٹا دی، جس کے بعد پولیس سے تصادم بھی ہوا۔ مونی نیلیش چندر وجے نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ہم ستیہ گرہ اور بھوک ہڑتال کے راستے پر چلیں گے ۔ جین برادری پُرامن ہے لیکن اگر کوئی فیصلہ ہمارے عقیدے کے خلاف آیا تو ہم اسے قبول نہیں کریں گے ، چاہے وہ عدالت کا حکم ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک بھر سے 10 لاکھ سے زائد جین افراد اس احتجاج میں شریک ہوں گے ۔ ان کے مطابق یہ پابندی جین روایات پر حملہ ہے اور اسے سیاسی مفاد کے تحت انتخابات کو مدنظر رکھ کر نافذ کیا گیا ہے ۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ شراب اور مرغ گوشت سے کتنے افراد مرتے ہیں، اس پر تو کوئی روک نہیں، لیکن جین مت کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے ؟ مسٹرلودھا نے صحافیوں کے سوال پر کہا کہ وہ وجے کے بیان سے اتفاق نہیں کرتے ۔ بی ایم سی نے اتوار کو دوبارہ دادر کبوترخانہ کو پلاسٹک شیٹ سے ڈھانپ دیا اور اس سے قبل وہاں خراب شدہ بانس کی چادر کی مرمت کی گئی۔ حکام کے مطابق امن و امان برقرار رکھنے اور پرندوں کو کھانا کھلانے سے روکنے کیلئے سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے اور بی ایم سی کے مارشلز بھی تعینات ہیں۔ یہ تنازعہ بی ایم سی کے اس فیصلے سے پیدا ہوا کہ کبوتر خانوں اور عوامی مقامات پر کبوتروں کو کھانا کھلانے سے صحت کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس فیصلے کو کچھ شہریوں نے بامبے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ 7 اگست کو عدالت نے واضح کیا کہ اس نے کبوترخانے بند کرنے کا کوئی حکم نہیں دیا، بلکہ صرف بی ایم سی کے حکم پر روک لگانے سے اجتناب کیا ہے ۔ عدالت نے کہا کہ ماہرین کی کمیٹی اس بات کا جائزہ لے سکتی ہے کہ پرانے کبوترخانے برقرار رہنے چاہئیں یا نہیں، لیکن انسانی جان کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ عدالت اس حوالے سے دائر درخواستوں پر سماعت جاری رکھے ہوئے ہے ۔