پروین کمال
بنگلہ دیش میں خانجہ جنگی کے نتیجہ میں ملک کا تختہ الٹ کیا ہے اور صدر محترمہ کو بحالت مجبوری ملک چھوڑنا پڑا۔ یہ ایک ایسا المیہ تھا جس کا اثر دنیا کے ذہنوں سے ابھی تک نہیں اترا کہ اچانک ایک اور ملک (شام کی عوام نے آزادی، جمہوریت اور نہ جانے کن کن جذبوں کے تحت شام کے صدر بشارالاسد کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا اور وہ اپنے 24 سالہ اقتدار کو الوداع کہتے ہوئے شام کی سرزمین چھوڑ گئے ۔ یوں جیسے وہ ان کے لئے بالکل اجنبی اور غیر مانوس ہو۔ اگرچہ کہ وہ ان کے آبا و اجداد کی برسوں پرانی میراث تھی ، پھر بھی انہیں رخت سفر باندھنا پڑا ۔ یہ ایک ایسا دھماکہ خیز لمحہ تھا جس پر یقین نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن چشم فلک نے دیکھا، سیاہ و سفید کے مالک دیکھتے ہی دیکھتے قصہ پارینہ بن گئے ۔ 24 سالہ طویل مدت تک ملک و قوم کے رکھوالے بشارالاسد کو عوام نے پائے حقارت سے ٹکرا دیا اور قصر صدارت یوں چھوڑنا پڑا جیسے وہ زبردستی گھس ائے ہوں۔ وہ زمین جہاں بڑی بڑی ہستیوں نے جنم لیا ، جہاں کبھی امن و محبتوں کے زلزلے پھوٹتے تھے ۔ وہی سر زمین نفرت اور عداوتوں کے شعلوں سے جھلس رہی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ بشارالاسد برسوں شام کے صدور کی حیثیت سے ملک کی خدمت کرتے رہے ہیں۔ دونوں ہی نے شام کی سیاسی تاریخ میں مثبت کردار ادا کیا ہے جیسا کہ ان کے پچھلے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے ۔ ان کے والد نے جولان کی پہاڑیوں کا کافی حصہ فتح کر کے اپنا ایک باقاعدہ مقام بنایا تھا ۔ ملک کا تعلیمی گراف جو اس وقت 80 فیصد ہے، وہ انہی کے عہد صدارت میں اتنی اونچائی پر پہنچا تھا ۔ ملک کی خارجہ پالیسی کو بھی انہوں نے مستحکم بنایا ، ان کے بعد ان کے بیٹے بشارالاسد نے ان کی پالیسیوں کو آگے بڑھایا۔ غرض ، اب جو کچھ ان کے متعلق کہا جارہا ہے وہ ان کے ما ضی کا ریکارڈ دیکھنے کے بعد سچ نہیں لگتا۔ کچھ درک و فہم رکھنے والے ذہنوں میں یہ خیال بھی گردش کر رہا ہے کہ اتنے ظالم سربراہ کو عوام نے برسوں تک کیسے گوارہ کیا اور اب اچانک صرف پندرہ دنوں کی نوٹس میں انہیں معزول کردیا گیا اور ایسے کہ وقت واحد میں انہیں ملک چھوڑنا پڑا۔ کوئی مہلت تک نہیں دی گئی ۔ غرض اس خانہ جنگی کی وجہ سے شامی قوم بہت برے وقت سے گزر رہی ہے ۔ گزشتہ 13 برسوں سے یہ سلسلہ چل رہا ہے ۔ خواہ غلطی کی بھی ہو لیکن قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ حالات کی سخنیوں کو برداشت نہ کرتے ہوئے عوام نے یوروپ کا رخ کیا ۔ ان ملکوں نے انہیں خندہ پیشانی سے قبول بھی کیا ۔ ان کے سا تھ اچھا سلوک کیا اور اطلاعات کے مطابق کہا جارہا ہے کہ وہ شامی باشندے جو شروع میں یوروپ آچکے ہیں ، انہیں یہاں رہنے کے مواقع دیئے جائیں گے۔ وہ مہاجر اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیاں بنانے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ اب ایک ایسے وقت میں جبکہ منزل قریب نظر آرہی ہے ، انہیں واپس بھیجنے کی کارروائیاں کی جارہی ہیں کیونکہ شام کے حالات ٹھیک ہوتے نظر آرہے ہیں اور خانہ جنگی کے خاتمہ کی وجہ سے حالات میں بہتری آنے کے امکانات ہیں ۔ اگر ایسا نہ ہوسکا اور شام کی نئی حکومت میں آئندہ کوئی انتشار پیدا ہو تو شامی باشندوں کیلئے پھر کوئی پناہ گاہ نہیں ہوگی ۔ احتمال ہے کہ حالات کا رخ پھر بدل جائے کیونکہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی حکومتیں بدلی ہیں، ماضی سے ز یادہ پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مہاجرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ تیرہ برسوں میں ہم نے جو صعوبتیں اٹھائیں، وہ ناقابل بیان ہیں ۔ ہم یوروپ پہنچ تو گئے لیکن ہمیں بہت ساری قربانیاں دینی پڑ یں۔ اپنے رشتے داروں کو سمندر کی لہروں میں غرق ہوتے دیکھا ۔ معصوم بچوں کو لہروں نے نگل لیا اور ہم دیکھتے رہے ۔ کانٹوں بھری کانٹوں کی دیوار کے دامن میں منفی درجہ حرارت میں راتیں گزارتے تھے ۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ واپس جاکر از سر نو نئی زندگی شروع کریں جبکہ طویل خانہ جنگی کی وجہ سے وہاں کی ملکی معیشت خستہ حالی کا شکار ہے ۔ علاوہ اس کے برسوں بعد خانہ جنگی کے قہر سے نکل کر ہم ایک ایسی جگہ پہنچ گئے ہیں ۔ جہاں رنگ و نسل ، مذہب کا کوئی تفرقہ نہیں ہے ۔ نفرتوں اور عداوتوں سے بالکل پاک ایک صاف ستھرے معاشرہ میں ہم سانس لیتے ہیں ۔ سب سے برا تحفظ جان و مال کا ہے جس کی وجہ سے ہم ذہنی طور پر مطمئن ہیں ۔ غرض اس وقت شام کی صورتحال یہ ہے کہ سابق صدر شام کی حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے ۔ ان کی طرف سے جو خطرات لاحق تھے ، وہ ختم ہوچکے ہیں ۔ عوام نے اپنی مرضی کے مطابق نیا سربراہ چن لیا ہے ۔ پھر بھی ان کے اپنے ملک واپسی کیلئے شامی باشندے تیار نہیں ہیں۔ کتنا فرق پڑ جاتا ہے اگر ملک کے حالات سنگین ہوجائیں۔ امن و سکون کا فقدان ہوجائے تو انسان اپنی پیدائشی سرزمین کو بھی خیر باد کہہ دیتا ہے ۔ بحر کیف اب یہ تو کہا نہیں جاسکتا کہ سابق صدر کی ملک بدری سے ملک بالکل محفوظ اور عوام پرسکون فضاء میں سانس لے گی ۔ تازہ اطلاعات کے بموجب میزائیلی حملے شروع ہوچکے ہیں جس کا مقصد شام کے فضائی دفاع اور ہتھیاروں کے گوداموں کا صفایا کرنا ہے۔ ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ جب بھی کسی ملک کا سربراہ ملک چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو پڑوسی ملک اس کو اپنی ملکیت سمجھ کر اس پر حق جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ غرض جنگ خواہ دو ملکوں کے درمیان ہو یا کہ دو گروپوں کے درمیان۔ انجام کار تو ملک و قوم کی تباہی ہے۔ ان تباہیوں کو پیش نظر رکھ کر غور کیا جائے تو بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے ۔ گویا جنگ میں ایک بہت بڑا درس چھپا ہوا ہے ۔ جنگ سے دور رہنے کا درس، مستقبل درخشاں کرنے کا جوش، دوسروں کو شکست دینے کے بجائے ملک کو ترقی دلانے کی جستجو اور بہت کچھ۔ ملک شام کی آبادی تعلیمی میدان میں بہت آگے ہے ۔ علم ایک ایسا صیغہ ہے جو انسان میں شعور بیداری پیدا کرتا ہے ۔ صحیح راستوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ہر نکتے پر باریک بینی سے غور کیا جائے ۔