مندر اور چلّہ کے پاس ہجوم کے باعث چارمینار ورلڈ ہیرٹیج سائٹ کا مقام حاصل نہ کرسکا

   

حیدرآباد : چارمینار اور اس کے اطراف غیرقانونی قبضے اور انہیں برخاست کرنے سے متعلق موضوع پر ہیرٹیج جہدکاروں میں کافی مباحث ہوئے ہیں۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ ان اسٹرکچرس ہی کی وجہ تاریخی یادگار عمارت چارمینار، جو حیدرآباد کی ایک علامت ہے، باوقار یونیسکو ورلڈ ہرٹیج سائٹ فہرست میں شامل ہونے کا موقع کھو دیا ہے۔ ایک آر ٹی آئی درخواست میں یہ وضاحت طلب کی گئی کہ آیا چارمینار کے پاس بھاگیہ لکشمی مندر اور چلہ قانونی اسٹرکچرس ہیں یا نہیں۔ آر ٹی آئی میں سوال کیا گیا کہ مذکورہ مندر اور چلہ کو کب تعمیر کیا گیا اور آیا ان اسٹرکچرس کو آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (ASI) کی جانب سے تسلیم کرنے کے ساتھ قانونی بنایا گیا ہے یا نہیں۔ اے ایس آئی ایک اہم سرکاری ادارہ ہے جو یادگار عمارتوں کے تحفظ کیلئے سرگرم ہے۔ اس کے حیدرآباد سرکل میں گولکنڈہ قلعہ اور چارمینار اس کی فہرست میں شامل ہیں۔ جواب میں اے ایس آئی نے تحریر کیا کہ ’’چارمینار کے جنوب مشرقی مینار سے متصل بھاگیہ لکشمی مندر کا وجود حیدرآباد کو حکومت ہند کی جانب سے حاصل کرنے کے بعد ہوا۔ چارمینار متصل چلہ کے بارے میں اس دفتر میں کوئی ریکارڈس دستیاب نہیں ہیں۔ اس جواب سے ان دونوں اسٹرکچرس کے قانونی ہونے کے مسئلہ پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ 2012ء میں انگریزی روزنامہ ہندو نے چارمینار کی دو تصاویر شائع کئے تھے جس میں پہلی تصویر 60 سال پرانی تھی اور دوسری حالیہ تھی۔ ہندو گروپس کے دعوؤں کے برعکس ہندو اخبار کے پاس دستیاب پرانی تصویر سے معلوم ہوتا ہیکہ اس مقام پر بھاگیہ لکشمی مندر اتنی قدیم نہیں ہے جتنا کہ چارمینار ہے۔ فوٹو پر تاریخ کا اسٹامپ نہیں ہے لیکن اس کی موجودگی سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ یہ فوٹو تقریباً 60 سال پہلے لی گئی تھی۔ اس تصویر میں مندر نہیں دکھائی دیتی ہے۔ ہندو میں شائع خبر میں کہا گیا کہ یہ مندر چند دہوں پرانی ہے۔ آر ٹی آئی ایکٹ کے ذریعہ اس سلسلہ میں کوشش کرنے والے اشخاص میں سماجی جہدکار ایس کیو مسعود ایک ہیں۔ ان کا کہنا ہیکہ اے ایس آئی نے کئی موقعوں میں اس مندر کو وہاں سے نکلوانے کی کوشش کی اور متعلقہ عہدیداروں کو مکتوب تحریر کرتے ہوئے اس سلسلہ میں توجہ دلائی لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اے ایس آئی کے مختلف سپرنٹنڈنگ آرکیالوجسٹس کی جانب سے اس سلسلہ میں کم از کم دو مکتوبات تحریر کرتے ہوئے مندر کو نکالنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ایک مکتوب 1968 میں تحریر کیا گیا اور دوسرا 1977 میں۔ اے ایس آئی سے محصلہ دستاویزات کے مطابق اس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ مسٹر مسعود نے کہا کہ ان کی جانب سے 2012ء میں داخل کئے گئے ایک آر ٹی آئی سوال پر اے ایس آئی نے واضح طور پر کہا کہ یہ مندر ایک غیرمجاز اسٹرکچر ہے۔