منقسم انتظامیہ کی وجہ سے ٹرمپ نے ایران پر اسرائیلی حملے کو روک دیا

,

   

Ferty9 Clinic

نیویارک : آئندہ ہفتہ تہران اور واشنگٹن کے بیچ مذاکرات کے دوسرے دور سے قبل نئی پیش رفت سامنے آئی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس منصوبے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں، جس کے تحت ایران کے جوہری پروگرام کی تنصیبات پر اسرائیل کو حملہ کرنا تھا۔ ٹرمپ نے یہ قدم تہران کے ساتھ جوہری معاہدے کے لیے جاری مذاکرات کے مفاد میں اٹھایا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کے ذمہ داران کے حوالے سے بتایا گیا کہ صدر نے ایران پر اسرائیلی حملے کے خیال میں ترمیم کر دی ہے۔انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیل آئندہ ماہ ایران پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ میں اس حوالے سے تقسیم کے سبب تل ابیب اس منصوبے سے رک گیا اور مذاکرات کو ایک موقع دینے کی طرف مائل ہو گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ میں دو فریق بن گئے ہیں جن میں ایک تہران پر حملے کی تائید کر رہا ہے اور دوسرا مذاکرات کے حوالے سے پْر جوش ہے۔ اسرائیل نے مئی میں ایرانی جوہری تنصیبات پر فوجی حملے کی پیشگی منصوبہ بندی کر لی تھی تاہم ٹرمپ کے فیصلے نے تل ابیب کی محنت پر پانی پھیر دیا۔اخباری ذرائع کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ سفارتی راستے کے حق میں ایک کمزور سا اتفاق رائے موجود ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہوا جب امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو گیا اور ان کے دوبارہ شروع کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ ایران کے جوہری پروگرام کے تصفیے سے متعلق امریکی اور ایرانی حکام کے درمیان براہِ راست مذاکرات 12 اپریل کو عمان کے دار الحکومت مسقط میں ہوئے۔ ایرانی وفد کی قیادت وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے کی، جب کہ امریکی وفد کی سربراہی ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیفن ویٹکوف نے کی۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے مطابق، یہ ملاقات “تعمیری” ثابت ہوئی۔ مذاکرات کا دوسرا دور ہفتہ 19 اپریل کو اٹلی کے دار الحکومت روم میں منعقد ہونے کا امکان ہے۔ کچھ عرصہ قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جاری مذاکرات کی رفتار پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ انھوں نے وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ایل سلواڈور کے صدر نجیب بوکیلے سے ملاقات کے دوران کہا “میرا خیال ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ٹال مٹول کر رہے ہیں”۔ٹرمپ نے ایک بار پھر فوجی کارروائی کے امکان کو ظاہر کیا تھا۔ جب ان سے ایرانی جوہری تنصیبات پر ممکنہ حملے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اسے خارج از امکان قرار نہیں دیا، اس طرح یہ اشارہ دیا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو عسکری راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔اس غیر یقینی صورتِ حال کے دوران، اخباری رپورٹوں نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی انتظامیہ کے اندر دو مختلف سوچوں والے گروپ موجود ہیں۔