منموہن سنگھ ہندوستان میں معاشی انقلاب کے نقیب

   

پی چدمبرم… سابق مرکزی وزیر داخلہ
ڈاکٹر منموہن سنگھ کا 26 ڈسمبر 2024 کو 92 سال کی عمر میں انتقال ہوا، ان کے ساتھ ایک تعلق جو راقم الحروف نے ان کے وزیر خزانہ کے طور پر حلف لینے کے دن بنایا تھا (21 جون 1991) کو وہ ختم ہوگیا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ خود ان کے اپنے الفاظ میں اتفاقی طور پر بنائے گئے وزیر فینانس تھے۔ عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہونے کے بعد وزیر فینانس کے لئے پی وی نرسمہا راؤ کی پہلی پسند ڈاکٹر سنگھ نہیں بلکہ مسٹر آئی جی پاٹل تھے جو ایک باوقار و بااحترام ماہر تعلیم اور ماہر اقتصادیات کے طور پر شہرت رکھتے تھے۔ جب پی وی نرسمہا راؤ نے مسٹر آئی جی پاٹل کو عہدہ وزارت فینانس کی پیشکش کی تب انہوں نے وہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کردیا ساتھ ہی اس عہدہ کے لئے ڈاکٹر منموہن سنگھ کا نام پیش کیا اور کہا کہ ڈاکٹر سنگھ ہی ہندوستان کے عہدہ وزیر فینانس کے ساتھ پورا انصاف کرسکتے ہیں۔ جس وقت تقریب حلف برداری ہو رہی تھی اس وقت پہلی صف میں نیلے رنگ کی پگڑی والے بزرگ نما شحص کی موجودگی نے سب کو حیران کردیا۔ ان کے وجود سے شرافت و شائستگی کا اظہار ہو رہا تھا۔ اس وقت اگرچہ یہ واضح ہو چکا تھا کہ ڈاکٹر سنگھ کو کابینی وزیر کی حیثیت سے حلف دلایا جائے گا لیکن یہ واضح نہیں ہوسکا تھا کہ آخر وزیر اعظم (پی وی نرسمہا راؤ) انہیں کون سا قلمدان تفویض کریں گے اور پھر تقریب حلف برداری کے چند گھنٹوں میں ہی انہیں نارتھ بلاک میں دیکھا گیا۔
ریزرو بینک آف انڈیا نے یکم جولائی 1991 کو روپے کی قدر میں کمی یا گراوٹ کا اعلان کیا۔ وزیر اعظم نے 3 جولائی کی صبح مجھے اپنے دفتر میں ملاقات کے لئے طلب کیا اور روپے کی قدر میں کمی کے بارے میں اپنے بعض کابینی رفقاء کی بدگمانیوں کے بارے میں واقف کروایا (درحقیقت وہ ان کی اپنی بدگمانیاں تھیں) راقم الحروف نے دوسروں کی طرح یہ کہہ دیا کہ روپے کی قدر بڑھ گئی ہے۔ اس وقت برآمدات متاثر ہو رہی تھی جبکہ ہمارے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر بہت ہی کم ہوتے گئے، ان حالات میں بیرونی سرمایہ کار ہندوستان میں سرمایہ مشغول کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔ میری باتوں کی بغور سماعت کے بعد نرسمہا راؤ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ روپے کی قدر میں ایک اور مرتبہ کمی کی جارہی ہے۔ انہوں نے راقم الحروف سے یہ بھی کہا کہ آپ وزیر فینانس سے بات کریں۔ ان سے درخواست کریں کہ معاشی شعبہ میں دوسرا قدم اٹھانے کا ارادہ ترک نہ کیا جائے تو کم از کم اس اقدام کو ملتوی تو کیا جاسکتا ہے۔ لہذا دوسرے اقدام سے کچھ عرصہ گریز کیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ نرسمہا راؤ نے یہ کام صرف مجھے ہی نہیں سونپا بلکہ ڈاکٹر سنگھ کو سمجھانے انہیں روپیہ کی قدر میں ایک اور مرتبہ کمی سے روکنے کے لئے اپنے دوسرے قاصد بھی روانہ کئے تھے۔ اگرچہ میرے ذہن و قلب میں کئی شکوک و شبہات تھے اس کے باوجود میں نارتھ بلاک پہنچ گیا۔ وہ میری وزیر فینانس کے ساتھ پہلی باضابطہ سرکاری ملاقات تھی، میں نے وزیر اعظم کی ہدایت نہیں بلکہ درخواست ڈاکٹر منموہن سنگھ تک پہنچا دی جس پر وہ گہری الجھن میں مبتلا ہوگئے۔ پریشانی اور الجھن ڈاکٹر سنگھ کے چہرہ سے عیاں تھیں پھر بھی انہوں نے پرسکون انداز میں میرے خیالات کی سماعت کی اور پھر مجھے بتایا کہ صبح 10 بجے مارکٹ اوپننگ کے چند منٹوں میں ہی دوسرا قدم اٹھایا گیا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ صروری ہوگا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے آر بی آئی کے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر رنگا راجن سے جس طرح بات کی اس کی بھی ایک کہانی ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر رنگاراجن نے جو کچھ کہا وہ جملے تاریخ میں محفوظ ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ڈاکٹر سنگھ کا فیصلہ سن کر میں اچھل پڑا۔ روپے کی قدر میں کمی کا وہ فیصلہ اب لوک کہانیوں کا حصہ ہیں۔ اس ایک عمل نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو حادثاتی یا اتفاقی وزیر فینانس کے طور پر ایک پرعزم و بلند حوصلوں کے حامل وزیر فینانس میں تبدیل کردیا اور فولادی اعصاب کے ساتھ کام کرنے والے وزیر فینانس کی مہر ثبت کردی۔ انہوں نے وہی کیا جو ان کے خیال میں ہندوستانی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے صحیح تھا۔ اسی طرح کے فولادی عزائم کا مظاہرہ چند سال بعد دوبارہ اس وقت کیا گیا جب حکومت کی بقاء اس کا وجود خطرہ میں پڑ گیا تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ انڈو۔ امریکہ سیول نیوکلیر معاہدہ تھا۔ بائیں بازو کی جماعتیں بالخصوص سی پی آئی (ایم) نے شدت سے مخالفت کی تھی۔ سی پی آئی (ایم) کے جنرل سکریٹری مسٹر پرکاش کرت نے اس مسئلہ پر یو پی اے حکومت کی تائید واپس لینے کی دھمکی تک دے ڈالی تھی۔ دوسری جانب کئی کانگریسی قائدین نے معاہدہ کی مخالفت پر زور دیا تھا کہ وہ ملک کے مفاد میں انڈو۔ امریکن سول نیوکلیر معاہدہ کی تائید کریں اس کے باوجود ان (کانگریسی قائدین) میں اس معاہدہ کو لے کر اپوزیشن کی طرح تحفظات پائے جاتے تھے کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدہ کے نتیجہ میں اقتدار کی قربانی دینی پڑے گی کیونکہ حکومت ایوان میں اکثریت سے محروم ہو جائے گی۔ پارٹی کے اندر اور باہر شدید مخالفت کے باوجود ڈاکٹر سنگھ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر کانگریس پارٹی انہیں یہ معاہدہ منسوخ کرنے پر مجبور کرتی ہے تو ان کے پاس سوائے مستعفی ہونے کے کوئی اور امکان باقی نہیں رہے گا۔ راقم الحروف نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دلائل کو مضبوط پایا لیکن یہ مشورہ ضرور دیا کہ اس مسئلہ پر دوسری جماعتوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑیں اور پھر ایک ماسٹر اسٹروک کھیلتے ہوئے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے پارلیمنٹ میں تحریک اعتماد جیت لی (اس وقت 543 رکنی پارلیمنٹ میں 275 ووٹ حاصل کرکے تحریک اعتماد میں کامیابی حاصل کی جبکہ اپوزیشن کو 256 ووٹ حاصل ہوئے۔ دس ارکان غیر حاضر رہے اور ہندوستان اور امریکہ کے درمیان سول نیوکلیر معاملت پر دستخط ہوگئے۔ تحریک اعتماد میں کامیابی کے بعد بھی ڈاکٹر منموہن سنگھ نے غیر معمولی حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کی تائید سے دستبردار ہوچکی۔ بائیں بازو جماعتوں کے لیڈروں کا پہلے جیسا ہی احترام کیا اور ان کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھے جو یقینا ان کے غیر معمولی کردار کا ہی نتیجہ تھا۔ چند لوگ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت کے جو اہم ترین فیصلے اور پروگرامس تھے، اگر ڈاکٹر منموہن سنگھ فولادی عزائم ایک نیا جوش و ولولہ نہیں رکھتے تو پھر ان کا کبھی آغاز ہوتا اور نہ ہی ان پر کامیابی کے ساتھ عمل آوری ہوتی ویسے تو اس قسم کے کئی پروگرامس ہیں یہاں ہم آپ کے سامنے دو کی مثالیں پیش کررہے ہیں ایک تو زرعی محکمہ کو راحت (2008) اور دوسرا حق خوراک پروگرام (2013)، ڈاکٹر سنگھ نے ملک بھر میں ان دونوں پروگرامس پر عمل آوری کی پر زور وکالت کی جبکہ مجھے بار بار مالی خسارہ پر ان کے اثرات سے باخبر رہنا پڑا۔ ڈاکٹر سنگھ یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر Marco Economic مستحکم نہیں ہوتی ہے تو پھر کسی بہبودی پروگرام پر قلیل مدتی یا طویل مدتی بنیاد پر عمل آوری نہیں کی جاسکتی جب وہ اس بات سے مطمئن ہوگئے کہ حکومت مالی خسارہ کے ہدف کو پورا کرسکتی ہے تب ہی انہوں نے بہبودی پروگراموں کو منظوری دی۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ حقیقت میں اور فطری طور پر ایک مصلح تھے اور غریبوں کے حق میں ان کے مفاد میں فیصلے کرتے، ان کی بہتری اور خوشحالی کے پروگرامس اور منصوبے بناتے۔ انہوں نے ہمیں یہ سکھایا کہ بہبودی پروگرامس اور معاشی اصلاحات ایک ساتھ جاری رکھے جاسکتے ہیں۔
موجودہ نسل (جن کی پیدائش 1991 کے بعد ہوئی) بڑی مشکل سے اس بات پر یقین کرے گی کہ ایک ایسا بھی ہندوستان تھا جہاں صرف ایک ٹی وی چیانل ہوا کرتا تھا۔ ایک قسم کی کار ایک ایر لائن، ایک ہی ٹیلی فون سرویس پرووائڈر ہوا کرتا تھا جس میں ٹرنک کالس کا رواج تھا۔ پی سی او؍ ایس ٹی ڈی؍ آئی ایس ڈی بوتھس ہوا کرتے تھے۔ دو پہیوں کی گاڑیوں سے لے کر ٹرین ٹکٹس اور پاسپورٹس بنانے کے لئے بھی طویل قطاروں میں ٹھہرنا پڑتا تھا۔ ایسے میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے تبدیلی کی تخم ریزی کی اس حقیقت کو وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی خراج عقیدت اور تعزیت پیش کرتے ہوئے تسلیم کیا۔ اس ضمن میں مرکزی کابینہ میں ایک قرار داد بھی منظور کی گئی۔