منوج جھاپر ٹھاکروں کو غصہ کیوں آیا

   

پروفیسر اپوروانند
آج کل بہار میں ذات پر مبنی سروے کے نتائج کو لے کر مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی میں کافی بے چینی پائی جاتی ہے۔ دوسری طرف آر جے ڈی رکن پارلیمنٹ پروفیسر منوج جھانے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کے ذریعہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں یا اشرافیہ کو پریشان کردیا ہے حد تو یہ ہیکہ ایوان میں ان کے خطاب سے اعلیٰ ذات والوں میں اس قدر برہمی پائی جاتی ہے کہ ان لوگوں نے انہیں قتل کرنے ان کا سر تن سے جدا کرنے کی دھمکیاں دی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو منوج جھا کے خطاب پر اونچی ذات والوں نے جس طرح کے ردعمل کا اظہار کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ ذات کے یہ لوگ اپنے میں پائے جانے والے احساس برتری کے خول سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہتے۔ اس کے علاوہ پروفیسر جھا کے بیان پر جس قسم کے ردعمل سامنے آئے ہیں ان سے اعلیٰ ذات اور طبقہ اشرافیہ کے پرتشدد مزاج کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر منوج جھا نے پارلیمنٹ میں ایسا کیا کہہ دیا کہ اعلیٰ ذات والے ان کی جان کے دشمن بن گئے ہیں۔ دراصل منوج جھا نے پارلیمنٹ میں خواتین تحفظات بل پر بحث کے دوران اوم پرکاش والمیکی کی نظم’’ٹھاکر کا کنواں‘‘ پڑھ کر سنایا تھا۔ اس نظم کے ذریعہ آر جے ڈی رکن پارلیمنٹ یہ بتانا چاہتے تھے کہ قدرتی و سماجی وسائل پر ٹھاکروں کے قبضے ہیں اور مابقی لوگوں کے پاس کچھ بھی نہیں۔ اس نظم میں والمکی نے بہت ہی خوبصورت انداز میں بتایا ہیکہ چولہا مٹی کا، مٹی تالاب کی، تالاب ٹھاکر کا بھوک روٹی کی، روٹی باجرے کی، باجرا کھیت کا، کھیت ٹھاکر کا، بیل ٹھاکر کا، بل ٹھاکر کا، بل کی موٹھ پر ہتھیلی اپنی، فصل ٹھاکر کی، کنواں ٹھاکرکا، پانی ٹھاکر کا، کھیت کھلیان ٹھاکر کا، گلی محلے ٹھاکر کے، پھر اپنا کیا؟ گاؤں؟ شہر؟ دیش؟ ۔ اس نظم کا ٹھاکر کون ہے؟ چونکہ یہ ایک سادہ سی نظم ہے اس لئے زیادہ تشریح طلب بھی نہیں۔ ہم نے سطور بالا میں جیسا کہ تحریر کیا کہ اس نظم کا ٹھاکر کون ہے؟ تو اس سوال سے کئی سوال پیدا ہوتے ہیں کہ آیا وہ ٹھاکر صرف راجپوت ہے؟ کیا وہ برہمن بھی ہوسکتا ہے، بھومی ہار یا اعلیٰ ذات کا کوئی اور بھی ہوسکتا ہے۔ آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اس نظم کے تخلیق کار اوم پرکاش والمیکی خود ایک دلت ہیں ایسے میں انہوں نے اپنی نظم میں بڑے ہی صاف صاف اور سادہ سے الفاظ میں معاشرہ کی جو عکاسی کی ہے اس سے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس میں ایک گہری سماجی شکایت ہے۔ سماجی شکوہ ہے یا پھر کوئی الزام ہے۔ وہ بہ آسانی معلوم ہو جاتا ہے، اگر آپ یہ نظم پڑھیں گے تو آپ کو پریم چند کی مشہور کہانی ٹھاکر کا کنواں یاد آجائے گی۔ (اگر آپ نے ٹھاکر کا کنواں نامی یہ کہانی پڑھی ہو تب) کیونکہ پریم چند کی اس کہانی میں بھی ایک گہری سماجی شکایت ہے۔ اگرچہ منوج جھانے مذکورہ نظم پڑھتے ہوئے بڑی احتیاط سے کام لیا تھا اور بعد میں کسی بھی قسم کے تنازعہ سے بچنے کے لئے یہ کہا تھا کہ اس نظم کا ٹھاکر خود ان میں بھی ہے اس ایوان میں بھی ہے اور ہر جگہ موجود ہے۔ اسے مارنا ہوگا (مارنے کا مطلب یہاں قتل نہیں ہے بلکہ خود ساختہ اعلیٰ ذات اور اس کی وجہ سے سماج یا معاشرہ میں بیٹھے ہوئے ٹھاکر پن کا خاتمہ ہے) لیکن پروفیسر منوج جھا کی لاکھ احتیاط کے باوجود منوج جھا پر کچھ لوگ برہم ہوگئے۔ ان کے حسب نسب کے بارے میں بکواس کرنے لگے یہاں تک کہ ان لوگوں کو جھاکے برہمن ہونے پر بھی شبہ ہونے لگا جن لوگوں نے آر جے ڈی رکن پارلیمنٹ پر برہمی کا اظہار کیا۔ وہ لوگ اپنے آپ کو گشتریہ کہتے ہیں راجپوت کہتے ہیں بعض علاقوں میں انہیں ٹھاکر بھی کہا جاتا ہے، بہرحال ان لوگوں نے منوج جھا کی زبان کھینچ لینے (زبان کاٹ دینے) اور گردن تن سے جدا کرنے کی دھمکیاں دی ہیں، حد تو یہ ہیکہ منوج جھا کو ان کی ذات یاد دلائی جارہی ہے۔ انہیں صرف نام کا برہمن کہا جارہا ہے وہ کہہ رہے کہ ان کے ڈی این اے کی جانچ کروانے سے اصلیت کا پتہ چل جائے گا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ڈی این اے ٹسٹ سے ذات کا تعین کیا جانے لگے تو پھر ہمارے ملک میں ذات پات کا تصور ہی ختم ہو جائے گا، خاص طور پر ان لوگوں کا کیا ہوگا جو نسلوں سے اپنے آپ کو برہمن مانتے ہوئے آئے ہیں۔ برہمن ہونے کا ببانگ دہل دعویٰ کرتے ہیں اگر ان کے ڈی این اے اور ان لوگوں کے ڈی این اے میں جو برہمن نہیں ہیں یکسانیت یا مماثلت نکل آئی تو ان لوگوں کا کیا ہوگا؟ ہاں ایک بات تو ضرور ہے کہ منوج جھا جیسے سیاستداں کے پارلیمنٹ میں بطور مثال سماجی انصاف پر دلالت کرتی نظم پڑھنے سے جو ردعمل سامنے آیا ہے اس سے یہ اچھی طرح انداز ہوگیا ہیکہ جب سیاست اور ادب کا امتزاج ہوتا ہے تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ جو لوگ منوج جھا کی ذات پر نسل پر سوال اٹھا رہے ہیں وہ پریم چند کے بارے میں کیا کہیں گے جنہوں نے ’’ٹھاکر کا کنواں‘‘ جیسی کہانی لکھی تھی۔ پریم چند بھی اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے تھے۔