نیلم پانڈے
منی پور میں پھر سے تشدد بھڑک اُٹھا ، تشدد کے تازے واقعات میں 16 افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے جن میں سے 10کا تعلق عیسائی اکثریتی ککی قبائل اور 6 کا تعلق ہندو اکثریتی میتئی قبائل سے ہے ۔ شمال مشرقی اس ریاست میں جاری نسلی تشدد کو لیکر نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرونی ممالک میں بھی تشویش کا اظہار کیاگیا ۔اگر دیکھا جائے تو 18 ماہ سے منی پور میں نسلی عصبیت کا سلسلہ جاری ہے اس میں 200 سے زائد انسانی زندگیوں کا اتلاف ہوا ۔ اس تشدد کو لیکر وزیراعظم نریندر مودی کی خاموشی کے بارے میںحقوق انسانی کی تنظیموں اور جہدکاروں نے کئی ایک سوالات اُٹھائے اور اُنھیں تنقید کا نشانہ بنایا ۔ خود بی جے پی کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کی جانب سے بھی اس بارے میں تشویش ظاہر کی گئی۔ آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ویدیارتھی پریشد (ABVP) نے منی پور تشدد پر قابو پانے میں ناکامی کیلئے منی پور کی ریاستی حکومت اور مرکز کی نریندر مودی حکومت پر تنقید کی ۔ ABVP کا کہنا ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں اس شمال مشرقی ریاست میں عوام کی سیفٹی و سلامتی کے ساتھ ساتھ حالات کی معمول پر واپسی کو یقینی بنانے میں بری طرح ناکام ہوگئیں ہیں۔
واضح رہے کہ آر ایس ایس کی منی پور یونٹ نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے ریاست میں جاری بحران کے حل کیلئے فورفی کارروائی کرنے کا مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کیا ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ منی پور میں 3 مئی 2023 ء سے نسلی تشدد کا سلسلہ جاری ہے ۔ نسلی تشدد برپا کرنے والوں کی درندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حال ہی میں 6 بے قصور شہریوں بشمول 3 خواتین اور تین بچوں کا اغواء کرکے اُنھیں قتل کیا گیا جن میں ایک سات ماہ کا شیرخوار بھی شامل تھا ۔ اس واقعہ کے ساتھ ہی منی پور بری طرح تشدد کی لپیٹ میں آگیا۔ اگر ہم اس درندگی کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ظالموں نے بنیادی انسانی اُصولوں کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا جبکہ بنیادی انسانی اُصولوں کے مطابق کسی بھی قسم کے تشدد و تصادم کے واقعات میں عام اور روایتی طورپر خواتین اور بچوں کو کسی قسم کا گزند نہیں پہنچایا جاتا ( یہ اور بات ہے کہ مذہبی خطوط پر اقلیتوں کو نشانہ بنانے والوں نے لڑکیوں اور خواتین کی عصمتوں ان کے وقار و احترام کی بھی پرواہ نہیں کی ۔ گجرات یوپی فسادات کی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں ) اے بی وی پی منی پور یونٹ نے بالآخر ( شائد شرم محسوس کی ہوگی ) منی پور میں 6 مغویہ خواتین اور بچوں کے قتل اور مسلح انتہاپسندوں کے ہاتھوں مکانات کو نذر آتش کئے جانے ، پولیس اور سی آر پی ایف اہلکاروں پر حملوں ( یہ واقعات Jiribam میں پیش آئے ) کی مذمت کی ہے ۔
اگر ہم ABVP کے مذمتی بیان کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو یہ پتہ بھی چلتا ہے کہ اُس نے برہم و مشتعل ہجوموں کی جانب سے جمہوری طورپر منتخبہ رہنماؤں کی املاک پر حملوں اور اُنھیں تباہ کرنے کی بطور خاص مذمت کی اور کہاکہ یہ بہت ہی پریشان کن ہے ۔ اے بی وی پی کے مطابق اگر بروقت کارروائی کی جاتی تو 6 زندگیاں بچائی جاسکتی تھیں۔ بیان میں اے بی وی پی نے یہ بھی کہاکہ متعلقہ حکام فرائض کی ادائیگی میں ناکام ہوگئے ہیں اور ریاستی و مرکزی حکومتیں منی پور کے عوام کی سیفٹی و سلامتی میں بری طرح ناکام رہی ۔ آپ کو بتادیں کہ JIRIBAM کے قریب سے نعشوں کو برآمد کئے جانے کے سایتھ ہی تشدد اور احتجاج پھوٹ پڑا ۔ دوسری طرف آر ایس ایس کو بھی انسانیت یاد آگئی اُس نے سخت الفاظ میں خواتین اور بچوں کے اغواء اور کئی دنوں تک اُنھیں یرغمال بنائے رکھنے کے بعد قتل کئے جانے کی مذمت کی ہے اور اسے غیرانسانی اور ظالمانہ کارروائی قرار دیا ۔ آر ایس ایس نے مرکز اور ریاست دونوں پر ریاست میں جاری تنازع کو سنجیدگی سے حل کرنے پر بھی زور دیا ۔ آر ایس ایس کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ منی پور میں جاری تباہی و بربادی اور قتل و غارت گری کی آگ پر قابو پانے میں مرکز کی مودی اور ریاست کی بیرن سنگھ زیرقیادت بی جے پی حکومت سنجیدہ نہیں ہے ۔ آر ایس ایس کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ’’یہ بڑی بدقسمتی و بدبختی کی بات ہے کہ 3 مئی 2023ء کو شروع ہوئے منی پور تشدد کو 19 ماہ ہورہے ہیں لیکن اب تک اس بحران اور تنازعہ کو حل نہیں کیاگیا ‘‘ ۔ واضح رہے کہ ریاست میں تشدد کی نئی لہر کے پیش نظر نیشنل پیپلز پارٹی (NPP) کے سات ارکان اسمبلی نے این بیرن سنگھ حکومت کی تائید سے دستبرداری اختیار کرلی ہے ۔