پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
میں نے اپنے پچھلے کالموں میں ملک کے اقتصادی و سیاسی حالات و دیگر مسائل پر بہت کچھ لکھا۔ منی پور تشدد، اس تشدد میں بے شمار انسانی جانوں کا اتلاف، خواتین کی اجتماعی عصمت ریزی اور ان کی برہنہ پریڈ کی شرمناک حرکتوں کے بارے میں بہت کم لکھا جس کا مجھے افسوس ہے اس کے لئے میں نے اپنے آپ کی سرزنش بھی کی ہے۔ آخری مرتبہ میں نے منی پور کی صورتحال کے بارے میں 30 جولائی 2023 ء کو لکھا تھا، اس طرح اس تحریر کو 13 ماہ گزر چکے ہیں۔ یہ ناقابل معافی ہے۔ جیسا کہ منی پور کے واقعات تمام ہندوستانیوں کے لئے ناقابل معافی ہے کیوں کہ انہیں منی پور میں جو کچھ ہوا اسے اپنے اجتماعی شعور کی گہرائیوں تک پہنچانا چاہئے تھا۔ جب میں نے گزشتہ سال منی پور کے دھماکو اور سنگین حالات کو تحریر کی شکل میں پیش کیا تھا، اس تحریر کے اشارے یقینا تکلیف دہ تھے۔ میں نے واضح طور پر لکھا تھا کہ یہ شمال مشرق کی اُس ریاست میں نسلی تطہیر کی شروعات ہے۔ اپنے مضمون میں راقم الحروف نے لکھا تھا، ’’ آج تمام رپورٹس مجھے موصول ہوئی ہیں یا میں نے جن کا مطالعہ کیا ہے اس کے مطابق وادی امپھال میں عملی طور پر ککی، زومی اور ککی زومی اکثریتی علاقوں میں کوئی میتئی نہیں ہے‘‘۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ چیف منسٹر منی پور اور ان کے کابینی رفقاء اپنے گھروں میں واقع دفاتر سے ورک آؤٹ کررہے ہیں اور وہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے سے قاصر ہیں اور دورے کر بھی نہیں سکتے۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ کوئی بھی نسلی گروہ منی پور پولیس پر بھروسہ نہیں کرتا اور کوئی بھی ریاست میں پیش آئے تشدد کے مختلف واقعات میں مارے گئے لوگوں کی تعداد سے متعلق سرکاری اعداد و شمار پر یقین بھی نہیں کرتا۔
ایک ایک لفظ جو میں نے تحریر کیا بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سچ ثابت ہوئے۔ ویسے بھی ایک پارلیمانی جمہوریت منی پور سانحہ کے لئے کسی نہ کسی کو جو اقتدار میں بیٹھے ہیں ذمہ داری لینی ہوگی، اس ضمن میں تین شخصیتوں کے نام لئے جاسکتے ہیں جنھیں منی پور سانحہ کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی اور وہ شخصیتیں حسب ذیل ہیں۔
نریندر مودی، وزیراعظم ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی حال میں ریاست منی پور کا دورہ نہ کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔ منی پور کے تعلق سے ان کا جو رویہ ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ منی پور کو جلنے دو والا رویہ ہے۔ انھوں نے شائد یہ عہد کر رکھا ہو کہ میں منی پور کی سرزمین پر ہرگز قدم نہیں رکھوں گا۔ آپ کو یہ بتادوں کہ مودی نے جب سے تیسری میعاد کے لئے اپنے عہدہ کا جائزہ حاصل کیا (9 جون 2024 ء)کو تب سے انھیں اٹلی (13-14 جون)، روس (8-9 جولائی)، آسٹریلیا (10 جولائی)، پولینڈ (اگسٹ 21-22)، یوکرین (23-24)، برونائی (ستمبر 3-4 ستمبر) اور سنگاپور (ستمبر 4-5) کے دوروں کیلئے وقت ملا جبکہ 2024 کے مابقی مہینوں میں ان کے بیرونی دوروں کے شیڈول میں امریکہ، لاوس، ساموس، روس، آذربائیجان اور برازیل کے دورے شامل ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ منی پور ہمارے اپنے ملک میں ہے، ہمارے ملک کا جزلائنفک ہے لیکن ہمارے وزیراعظم نے نسلی آگ میں جل رہے منی پور کا دورہ کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ ایسا لگتا ہے کہ منی پور کے دورے کیلئے مودی جی کے پاس وقت نہیں ہے اسی لئے انھوں نے اس بے بس ریاست کا دورہ نہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ منی پور جیسی تباہ حال ریاست کا دورہ کرنے سے مودی کا انکار اصل میں ان کی ضد اور ہٹ دھرمی ہے اور مودی کی ضد و ہٹ دھرمی کا مشاہدہ ہم نے گجرات فسادات، شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں اور تین سیاہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کے دوران کیا۔ ہم نے مودی کی ضد اور ہٹ دھرمی کا مشاہدہ اس وقت بھی کیا جب انھوں نے اپنے تمام کابینی رفقاء کو تمام تحریک التواء کی مخالفت کرنے کی ہدایت دی۔ انھوں نے اپنے کابینی رفقاء کو ہدایت دی تھی کہ چاہے کتنا بھی ہنگامی معاملہ کیوں نہ ہو اگر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں تحریک التواء پیش کی جاتی ہے تو اس کی پوری شدت سے مخالفت کی جائے۔
امیت شاہ : وزیرداخلہ امیت شاہ کی ہدایات منی پور میں حکمرانی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ریاستی حکومت میں سینئر عہدیداروں کے تقررات سے لے کر سکیورٹی فورس کی تعیناتی میں ان کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے، بہ الفاظ دیگر امیت شاہ ہی منی پور کی حکومت ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی ناک کے نیچے ہی ساری ریاست میں تشدد بڑی تیزی کے ساتھ پھیلا۔ اگر دیکھا جائے تو منی پور کے عوام آزادی کے بعد پہلی مرتبہ صرف بندوقوں اور بموں سے ایک دوسرے کے خلاف نہیں لڑرہے ہیں بلکہ یہ لوگ لڑائی میں راکٹوں اور ڈرونس کا بھی استعمال کئے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ ریاست کے دو اضلاع میں کرفیو نافذ کیا گیا، اسکولس اور کالجس بند کردیئے گئے۔ 5 اضلاع میں انٹرنیٹ خدمات منقطع کی گئیں جبکہ امپھال کی سڑکوں پر پولیس اور طلبہ کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا جس پر قابو پانے کے لئے سی آر پی ایف کے مزید دو بٹالین (2000 مرد و خواتین اہلکاروں) کو منی پور میں تعینات کیا گیا ،وہاں پہلے ہی سے 26000 سی آر پی ایف جوان تعینات ہیں۔
این بیرن سنگھ : منی پور کے چیف منسٹر ہیں وہ اپنے ہی ذات کے اسیر ہیں، اپنے ہی خول میں بند ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ وہ اور ان کے وزراء وادیٔ امپھال میں گھومنے پھرنے کے بھی قابل نہیں۔ ان سے ککی ۔ زومی سخت نفرت کرتے ہیں، میتئی قبائلیوں کا خیال تھا کہ وہ (بیرہن سنگھ) ان کی سلامتی کو یقینی بنائیں گے لیکن ان کی مکمل ناکامی نے انھیں منی پور کی تاریخ کا سب سے غیر مقبول چیف منسٹر بنادیا۔ وہ میتئی قبائل میں بھی اپنی مقبولیت کھوچکے ہیں۔ ریاست میں ایسا لگتا ہے کہ اڈمنسٹریشن ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ ان کی نااہلی اور جانبدارانہ حکمرانی ریاست میں شہری بے چینی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ وہ تمام فریقوں کے لئے ایک مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ انھیں اپنی ناکامی کے لئے کئی ماہ قبل ہی مستعفی ہوجانا چاہئے تھا۔ عہدہ چیف منسٹری پر ان کی برقراری سے مسٹر مودی اور مسٹر امیت شاہ کے اپنی غلطیاں تسلیم نہ کرنے سے متعلق رویہ کا اظہار ہوتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اصل میں منی پور دو ریاستیں ہیں۔ چراچند پور، پھیرزوال اور کانگ یوکپی جیسے اضلاع پر پوری طرح ککی قبائل کا کنٹرول ہے جبکہ تینگنو پال ڈسٹرکٹ (بشمول سرحدی ٹاؤن موری) میں جہاں ککی ۔ زومی اور ناگا قبائلی کی ملی جلی آبادی پائی جاتی ہے اور یہ ضلع ککی ۔ زومی کے کنٹرول میں ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ککی ۔ زومی ایک علیحدہ نظم و نسق چلاتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ککی ۔ زومی زیر کنٹرول علاقوں میں کوئی بھی میتئی سرکاری ملازم نہیں ہے۔ وادی کے اضلاع سے منسلک کئی علاقوں میں ککی ۔ زومی ایک ایسی ریاست کا حصہ بننا نہیں چاہتے جہاں میتئی اکثریت میں ہیں (منی پور کی 60 رکنی اسمبلی میں 40 ایم ایل ایز میتئی ہیں) چنانچہ میتئی اور ککی زومی کے درمیان گہری نسلی عداوت پائی جاتی ہے۔ میتئی منی پور کی علاقائی سالمیت اور شناخت کا تحفظ چاہتے ہیں۔ ایک اور اہم بات ہے کہ کسی کے درمیان بات چیت بھی نہیں ہے ۔ حکومت اور نسلی گروپوں کے درمیان میتئی اور ککی زومی کے درمیان بھی بات چیت نہیں ہے۔ ناگاؤژ کے اپنے مفادات ہیں۔ وہ اس تنامعہ کا حصہ نہیں بننا چاہتے ہیں۔ منی پور میں یہ لوگ باہمی اعتماد سے محروم ہیں۔