منی پور جل رہا ہے ، بھارت جل رہا ہےمودی کیا کررہے ہیں ؟

   

روش کمار
کیا واقعی آپ کا اس بات میں یقین ہے کہ منی پور کے سانحہ پر وزیر اعظم کو نہیں بولنا چاہئے؟ کیا آپ اس بات پر بھروسہ رکھتے ہیں کہ تین ماہ سے وہاں تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیر اعظم مودی نے منی پور نہیں جاکر بہت اچھا کام کیا ؟ آپ خود کو وزیر اعظم کی جگہ رکھ کر دیکھئے، ملک کی ایک ریاست جل رہی ہے کیا آپ ایک طویل مدت تک چپ رہ پائیں گے؟ کتنی محنت کرنی پڑے گی آپ کو چپ رہنے کیلئے، ہر وقت دوسرا بہانہ ڈھونڈنا پڑے گا ۔ دوسرے موضوع یا مسئلہ کی تلاش کرنی ہوگی کہ آج کیا کریں کہ عوام منی پور کے بارے میں پوچھیں اور نہ ہی بولنے کی نوبت آئے۔ وزیر اعظم مودی کو صرف اپنی ناکامی پر نہیں بولنا چاہیئے۔ وہ چاہتے تو منی پور کے عوام سے امن کی اپیل بھی کرسکتے تھے جو انہوں نے نہیں کی۔ اگر ان سوالات پر آپ کو بھروسہ ہے، یقین ہے کہ یہ سوالات بالکل درست ہیں اور وزیراعظم کو اس مسئلہ پر بولنا چاہیئے تھا تب پھر آپ کو لوک سبھا میں ان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو غور سے سننا چاہیئے۔ اس پر جتنے بھی لوگ بات کررہے ہیں ان تمام کے خیالات کی وزیر اعظم کو ضرور سماعت کرنی چاہیئے۔ ان 9 برسوں میں وزیر اعظم مودی کے خلاف یہ دوسری تحریک عدم اعتماد ہے۔ تحریک عدم اعتماد پر تین دن تک بحث چلی اور 10 اگسٹ کو وزیر اعظم مودی جواب دیا جس میں انہوں نے صرف اور صرف کانگریس کو نشانہ بنایا، منی پور پر زیادہ نہیں بولا۔ ترنمول کانگریس کے پروفیسر سوگتا رائے نے جب کہا کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ نہیں آتے ہیں‘ اس پر انہیں کہا گیا کہ وزیر اعظم کے خلاف شخصی الزامات عائد نہ کریں۔ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں نہیں آتے ہیں‘ یہ شخصی الزام کیسے ہوسکتا ہے؟۔ پارلیمنٹ میں بحث کی شروعات کانگریس کے گورو گوگوئی نے کی اور سرکاری بنچ کی طرف سے پہلا جواب بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے نے دیا۔ آپ بھی نشی کانت دوبے کی تقریر یا ان کا جواب لوک سبھا کی ویب سائیٹ سے نکال کر پورا پڑھئے اور ان کے خطاب کا ویڈیو بھی سنئے جو لوک سبھا کے یوٹیوب چیانل پر بھی موجود ہے۔ منی پور تین ماہ سے جل رہا ہے، جہاں ہتھیار لوٹے گئے ہیں، قتل و غارت گری ہوئی ہے، عصمت ریزی کے واقعات پیش آئے ہیں، ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے ہیں اور وہ عارضی کیمپوں میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں لیکن بی جے پی رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے کے خطاب میں منی پور کا ذکر اتنا ہی ہے کہ وہ اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے منی پور سے اظہار ممنونیت کرتے ہیں۔ کیا منی پور کی تباہ کن حالت اظہار تشکر کرنے کے قابل ہے کہ اس کے بہانے اپوزیشن کی پرانی تاریخ کو دہرانے کا انہیں موقع ملا۔ اپوزیشن پر الزامات عائد کرنے کیلئے بی جے پی رکن نشی کانت دوبے منی پور کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ کیا نشی کانت منی پور کی تباہی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اظہار تشکر کررہے ہیں یا پھر انہیں اپنی پارٹی کی حکومت اور مرکزی حکومت سے سوال کرنا چاہیئے تھا کہ ریاست منی پور میں ایسے حالات کیوں ہیں؟۔ نشی کانت دوبے نے اس سوال پر ایک لفظ نہیں کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی منی پور کیوں نہیں گئے؟ منی پور پر کیوں اپنا منہ نہیں کھول رہے ہیں؟ یا منی پور کو لیکر کیا کیا اقدامات کررہے ہیں؟
نشی کانت دوبے حکومت کی ناکامیوں کو بھول گئے اور کانگریس حکومت کی تاریخ کو گِنانے لگ گئے کہ کب کب اپوزیشن کی حکومتوں کو زوال سے دوچار کیا گیا۔ این سی پی کی رکن پارلیمنٹ سپریہ سولے نے یاد دلایا کہ مودی سرکار کے نو سال میں 9 حکومتوں کو گرایا گیا ہے۔ سپریہ سولے نے کہا کہ اروناچل پردیش، اتر کھنڈ، منی پور، میگھالیہ، کرناٹک، گوا، مدھیہ پردیش، پڈوچیری اور مہاراشٹرا میں حکومتیں گرائی گئی ہیں۔ مہاراشٹرا میں دو مرتبہ حکومت گرائی گئی۔ سپریہ سولے شاید یہ بتانا بھول گئیں کہ جب مودی حکومت اقتدار میں آئی تھی تب اروناچل پردیش اور اترا کھنڈ میں حکومت برخواست کردی گئی۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے دو معاملوں میں کہا کہ غیر قانونی طور سے حکومتیں برخواست کی گئی ہیں۔ اگر کانگریس نے حکومتیں برخواست کرکے غلط کام کیا تو مودی حکومت کو اپنے دسویں سال میں ییہ بتانا چاہیئے تھا کہ کیسے انہوں نے حکومتیں گرانے کا کھیل ختم کردیا۔لیکن سب نے دیکھا کہ کانگریس کے وقت کی اس غلطی کو مودی حکومت نے کھل کر کھیلنا شروع کردیا۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت اپوزیشن کے دور حکمرانی کی غلط کاریوں کی نشاندہی کرتی ہے تاکہ وہ اپنی حکومت کے اقدامات کو جائز اور منصفانہ ٹہرا سکے۔ جوبرا ہوا اسے مٹاکر اچھا نہیں کرنا ہے۔ جو برا ہوا ہے اس سے اور بھی زیادہ برا کرنا ہے۔ مودی حکومت کو نینی تال ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو پڑھنا چاہیئے جو صدر راج نافذ کرنے کے معاملہ میں آیا تھا، تو ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بی جے پی کے رکن نشی کانت دوبے نے قریب آدھا گھنٹہ بولا لیکن انہوں نے منی پور کا ذکر ہی نہیں کیا۔ نشی کانت دوبے نے ہی راہول گاندھی پر طنز کیا کہ وہ پہلے بولنے نہیں آئے شاید دیر سے جاگے ہوں گے، لیکن نشی کانت دوبے کے ٹھیک ایک لائن پیچھے بی جے پی کے منی پور سے رکن پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر راجکمار رنجن سنگھ بیٹھے تھے۔ ان کے گھر کو اس تشدد میں نذرِآتش کردیا گیا اس وقت رنجن سنگھ نے بیان دیا تھا کہ منی پور میں قانون ہی نہیں ہے۔ راجکمار رنجن سنگھ منی پور سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ہیں، جب نشی کانت دوبے بات کررہے تھے تب بی جے پی کے ہی رکن رنجن سنگھ کو کیسا لگ رہا ہوگا ؟ ان کی ریاست کے تشدد کو لیکر تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہے، قاعدہ سے وہ بحث کی شروعات کرسکتے تھے ، کرتے تو اچھا ہوتا لیکن مودی حکومت نے جھارکھنڈ کے گڈا کے رکن نشی کانت دوبے کا انتخاب کیا۔ اوٹر منی پور سے رکن پارلیمنٹ ہیں ایس فوز وہ ناگا پیپلز فرٹ کے رکن ہیں لیکن قومی جمہوری اتحاد کا ہی حصہ ہیں۔ اگر بی جے پی اور مودی حکومت منی پور کے ان دو ارکان سے ہی اپنا جواب شروع کرتی تو ان کی زبانوں سے سن کر اطمینان ہوتا کہ منی پور کیلئے مودی اور ان کی حکومت نے ان تین ماہ میں کیا کیا ہے؟ لیکن منی پور کا نام لیکر نشی کانت دوبے ہر سیاسی جماعت کی تاریخ بتانے لگ گئے، کبھی بنگال چلے گئے تو کبھی ٹاملناڈو۔ کب کون بولے گا یہ سیاسی جماعتیں طئے کرتی ہیں، ہمارا سوال ہے کہ تین دنوں تک تحریک عدم اعتماد پر بحث چلے گی ایسے میں کیا حکومت منی پور سے تعلق رکھنے والے اپنے دو ارکان پارلیمنٹ کو کچھ کہنے کی اجازت دے گی۔ یہ اس وقت کا سب سے بڑا سوال ہے اور آپ کو بھی ان دو ارکان پارلیمنٹ پارلیمنٹ پر نظر رکھنی چاہیئے کہ آخر یہ کیا کہتے ہیں۔ منی پور کے ارکان پارلیمان جب بولیں گے تو اپنی ریاستی اور بی جے پی حکومت کے بارے میں کیا بولیں گے؟ کیا انہیں بولنے دیا جائے گا کہ ریاست میں قانون کا کنٹرول ختم ہوگیا ہے، جیسے کہ وہ میڈیا میں کہہ چکے ہیں۔ کیا منی پور سے تعلق رکھنے والے یہ دو ایم پیز بول پائیں گے کہ مجاہد آزادی کی 80 سالہ بیوی کو جلاکر ماردیا گیا، اُس مجاہد آزادی کے بیٹے نے کہا تھا کہ اس واقعہ پر وزیر اعظم کیا بولیں گے ۔ ایک سابق فوجی نے کہاکہ اپنے ملک کی حفاظت کیلئے اس نے کارگل میں دشمنوں کے خلاف لڑا لیکن ہجوم سے اپنی بیوی کی حفاظت نہیں کرسکا جسے ہجوم نے برہنہ کرکے گشت کروایا تھا۔ منی پور واقعہ کو لیکر ہزاروں لوگوں نے احتجاجی مارچ کیا اور اس میں میزورم کے چیف منسٹر اور ان کے تمام وزراء شامل تھے۔ اس مارچ میں منی پور کے وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ کے خلاف نعرے لگائے گئے۔ ہمارا سوال ہے کہ میزورم کے رکن پارلیمنٹ اور میزو نیشنل فرنٹ کے سی لال سورنگا کو بولنے کا موقع ملے گا یا نہیں؟ کیا وہ بولیں گے تو ان کا خطاب اپوزیشن قائدین کے خطاب سے میل کھائے گا۔ تحریک عدم تعاون آسام کے کالیہ پور سے کانگریس کے گوروگوگوئی نے پیش کی تھی چونکہ اس کا نوٹس انہوں نے ہی دیا تھا۔ آپ نشی کانت دوبے کے ساتھ ساتھ گورو گوگوئی کی پوری تقریر لوک سبھا کی ویب سائیٹ پر جاکر پڑھیئے اور سنسد ٹی وی کے یو ٹیوب چیانل پر جاکر سنئے، آپ پائیں گے کہ گوروگوگوئی کے خطاب کا زیادہ تر حصہ منی پور تک ہی محدود رہا، ان کے خطاب سے پتہ چلے گا کہ وہ منی پور کو لیکر وزیر اعظم سے کیوں سوال کررہے ہیں؟ کیا سوال کررہے ہیں؟ ان کا جواب دینے آئے نشی کانت دوبے کے جواب کا تعلق گورو گوگوئی کے اٹھائے گئے سوالات سے تھا بھی یا نہیں‘ یہ آپ طئے کریں تو بہتر رہے گا۔ گوروگوگوئی انڈیا اتحاد کے اس وفد میں شامل تھے جو منی پور کا دورہ کرنے گیا تھا۔ گوروگوگوئی نے یہی سوال کیا کہ اپوزیشن نے منی پور کا دورہ کیا لیکن وزیراعظم دورہ کرنے کیوں نہیں گئے۔ حکومت نے کوئی وفد کیوں نہیں بھیجا، وزیر داخلہ امیت شاہ منی پور گئے یہ کہکر آئے کہ 15 دن میں پھر ائیں گے لیکن دوبارہ نہیں گئے۔ 5 ہزار سے زیادہ اسلحہ لوٹے گئے، 35 پولیس اسٹیشنوں پر حملے ہوئے۔ کیا یہ قومی سلامتی کا معاملہ نہیں ہے، ہمارے مشیر قومی سلامتی کیا کررہے ہیں؟ گوروگوگوئی نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم 80 دنوں تک چپ رہے اور جب بولے تو صرف 30 سیکنڈ ، اس کے بعد پھر سے چپ ہوگئے۔ ان کی طرف سے امن کی اپیل نہیں کی گئی۔ گوگوئی نے تیسرا سوال رکھا کہ آخر منی پور کے چیف منسٹر کو کیوں برخواست نہیں کیا گیا ہے؟ جب بھی انتخابات آتے ہیں تب تو گجرات، اترا کھنڈ اور تریپورہ کے سی ایم کو تبدیل کردیا جاتا ہے لیکن بیرین سنگھ کو برخواست نہیں کیا جاتا ہے۔ جو سرکار ایک ہندوستان کی بات کرتی تھی اس نے اب دو منی پور بنادیئے ہیں۔