منی پور میں بادشاہ کو بچانے پیادہ کی قربانی

   

سنگیتا ہاروہ پشاروتی
گڑبڑ زدہ منی پور میں بالآخر ایک بادشاہ کو بچانے کی خاطر ایک پیادے کی قربانی دے دی گئی۔ ویسے بھی جہاں تک بادشاہ اور پیادے کا سوال ہے کون بادشاہ اور کون پیادہ ہے آپ سب اس بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں۔ بہر حال منی پور کے چیف منسٹر بیرین سنگھ نے استعفی دے ہی دیا جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی پوری مضبوطی کے ساتھ بیرین سنگھ کے ساتھ کھڑی رہی۔ منی پور میں قتل و خون اور غارت گری کے پیش نظر سارے ملک میں وہاں کے چیف منسٹر کو برطرف کرنے انہیں عہدہ سے ہٹانے کیلئے شدت سے مطالبات کئے گئے ۔ بی جے پی قیادت نے ان مطالبات کو ماننے سے انکار کردیا اور ہر بار خاموشی اختیار کی۔ اب ایسا کیا ہوا کہ بیرین سنگھ کو عہدۂ چیف منسٹری سے استعفی دینا پڑا۔ منی پور میں جو تازہ تبدیلی آئی اس کے بارے میں یہی کہا جارہا ہے کہ ایک مایوس کن قدم اُٹھاتے ہوئے اکثر شطرنج کے کھلاڑی بادشاہ کو بچانے پیادہ کی قربانی دیتے ہیں ایسا ہی کچھ گڑبڑزدہ شمال مشرقی ریاست منی پور میں ہوا ہے۔ 3 فروری سے منی پور میں جو کچھ دیکھنے میں آرہا تھا 9 فروری کی شام ریاستی چیف منسٹر این بیرین سنگھ کے استعفے کے ساتھ اختتام کو پہنچ گیا اور اس تبدیلی کی وضاحت صرف بی جے پی قیادت ہی یہ کہتے ہوئے کرسکتی ہے کہ بادشاہ کو بچانے یہ سب کچھ کیا گیا۔ آپ کو بتادیں کہ 10 فروری سے منی پور اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے والا تھا جسے بعد میں ملتوی کردیا گیا ۔ کانگریس نے یہ اعلان کردیا تھا کہ وہ اسمبلی میں چیف منسٹر بیرین سنگھ کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرے گی‘ اس سے پہلے کہ کانگریس تحریک عدم اعتماد پیش کرنے سے متعلق اپنے منصوبہ میں کامیاب ہوتی ،بی جے پی قیادت نے مایوس کن قدم اُٹھاتے ہوئے بیرین سنگھ کو مجبوراً مستعفی کروایا کیونکہ اُسے اس بات کا خوف تھا کہ کانگریس کی زیر قیادت اپوزیشن ریاستی بی جے پی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرے گی تب حکمراں جماعت کے چند ارکان بھی اس کی تائید و حمایت کرسکتے ہیں کیونکہ حکمراں بی جے پی کے کئی ایک ارکان اسمبلی چیف منسٹر کی تبدیلی چاہتے تھے۔
3 مئی 2023 کو ریاست میں جو نسلی و مذہبی تشدد پھوٹ پڑا تب سے ہی خود بی جے پی ارکان اسمبلی چیف منسٹر کو ہٹانے کا مطالبہ کررہے تھے لیکن دہلی میں بیٹھی بی جے پی قیادت ان کے مطالبہ کو مسلسل نظرانداز کررہی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکمراں پارٹی میں موجود بیرین سنگھ کا مخالف گروپ دن بہ دن مستحکم ہوتا گیا۔ اس گروپ کو ایک نئی طاقت اس وقت حاصل ہوئی جب بیرین سنگھ کے ’’ آڈیو ٹیپ ‘‘ کی لیاب رپورٹ منظرِ عام پر آئی اور یہ رپورٹ کسی عام لیاب نے جاری نہیں کی بلکہ ٹروتھ لیاب نے تیار کرکے 3 فروری کو ہی سپریم کورٹ میں پیش کردی۔ اس رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا کہ آڈیو ٹیپ میں جو آواز ہے وہ 93 فیصد این بیرین سنگھ کی آواز سے میل کھاتی ہے جو ریاست میں بھڑکے نسلی تشدد میں ان کے رول کو ظاہر کرتا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ منی پور نسلی تشدد میں کم از کم 250 جانیں گئیں، 70 ہزار سے زائد لوگ بے گھر ہوئے اس ریاست میں ککی اور مپتی قبائیلیوں کے درمیان تشدد کی آگ بھڑک اُٹھی تھی جس کے نتیجہ میں نہ صرف ریاست کی معیشت تباہ و برباد ہوگئی بلکہ منی پور نسلی خطوط پر عملاً دو حصوں میں تقسیم ہوکر رہ گیا۔
آپ کو بتادیں کہ گذشتہ سال ہی مذکورہ آڈیو ٹیپ‘ منی پور تشدد کی تحقیقات کیلئے قائم کردہ عدالتی کمیشن کو پیش کیا گیا تھا اور یہ کمیشن مرکزی وزارت امور داخلہ کی جانب سے قائم کیا گیا تھا جس کی قیادت گوہاٹی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس‘ جسٹس اجئے لامبا نے کی۔ کمیشن کو یہ بتایا گیا کہ یہ ریکارڈنگ 2023 میں چیف منسٹر کی قیامگاہ میں کی گئی۔ اس وقت ساری ریاست میں نسلی تنازع زوروں پر تھا۔ اس کے فوری بعد ککی تنظیم برائے حقوق انسانی (KOHUR) نے سپریم کورٹ سے رجوع ہوکر اس آڈیو ریکارڈنگ کی آزادانہ تحقیقات کی درخواست کی۔ اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرا چوڑ نے درخواست گذاروں سے کہا اس آواز کے حقیقی ہونے کا سائنسی طور پر پتہ چلائے۔ آپ کو یہ بھی بتائیں کہTRUTH LAB سابق چیف جسٹس ایم این وینکٹ چلپا کی قیادت میں قائم کیا گیا جس کی رپورٹس ماضی میں بھی عدالت عظمیٰ نے قبول کی۔ جنوری کے اواخر میں TRUTH LAB نے اس بات کی وضاحت کی کہ آڈیو ٹیپ میں جو آواز ہے اس آواز میں اور بیرین سنگھ کی آواز میں 93 فیصد مماثلت پائی جاتی ہے۔ 3 فروری کو جیسا کہ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے التجا کی سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے حکومت کو ٹیپ کی اصلیت کا پتہ چلانے اور وہ بھی حکومت کی سنٹرل فارنسک سائنس لیباریٹری (CFSL) کی جانب سے رپورٹ تیار کرنے کی گنجائش فراہم کی گئی۔ تاہم کئی موقعوں پر CFSL نے TRUTH LAB سے تعاون طلب کیا۔ بی جے پی ارکان اسمبلی بشمول سینئر قائدین کا اس بارے میں احساس تھا کہ کم از کم اس مرتبہ بیرین سنگھ کو استعفے دینے پر مجبور کیا جائے گا۔
منی پور کا جہاں تک سوال ہے اس ریاست میں مپتی اکثریت اور ککی قبائل اقلیت میں ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بیرین سنگھ نے اکثریتی کارڈ کھیل کر اپنے اقتدار کو بچایا۔ بیرین سنگھ کے خلاف کئی ایک سنگین الزامات بھی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کچھ غیر سرکاری عناصر نے منی پور پولیس کی گاڑیاں بھی استعمال کی، ہزاروں کی تعداد میں اشرار کو سرکاری اسلحہ خانوں سے اسلحہ و گولہ بارود لوٹنے کی اجازت دی گئی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بیرین سنگھ اپنی طاقت کامظاہرہ کرتے ہوئے عہدہ چیف منسٹری پر برقرار رہنے کیلئے 15 ارکان اسمبلی کے ساتھ دہلی پہنچے ، ان کے ہمراہ بی جے پی کی حلیف جماعتوں این بی پی اور ناگا پیپلز فرنٹ کے5 ارکان اسمبلی بھی تھے ، وہ بتانا چاہ رہے تھے کہ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں یہ ارکان اسمبلی غیر حاضر رہیں گے۔ لیکن امیت شاہ اور جے پی نڈا سے ملاقات کے اندرون 15 منٹ یہ فیصلہ کیا گیا کہ بیرین سنگھ کو استعفی دینا پڑے گا۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی منی پور میں کونسا نیا سیاسی کھیل کھیلتی ہے۔ ویسے بھی 21 ماہ کے دوران ریاست بُرے حالات سے گذررہی ہے جبکہ مودی جی آج کی تاریخ تک ریاست کا دورہ کرنے اور متاثرین سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے ان کے زخموں پر مرہم نہ رکھ سکے۔