منی پور کے حالات نااہل حکمرانی کا نتیجہ

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

دستور کی دفعہ 355 میں ہر ریاست کو بیرونی جارحیت اور داخلی شورش سے بچانے کے لئے کچھ یوں کہا گیا ’’یہ یونین کا فرض ہوگا کہ وہ ہر ریاست کو بیرونی جارحیت اور داخلی خلفشار کے خلاف تحفظ فراہم کرے اور اس امر کو یقینی بنائے کہ ہر ریاست کی حکومت اس آئین یا دستور کی دفعات کے مطابق چلائی جائے‘‘۔ یہ مضمون کئی طرح سے اہمیت کا حامل ہے جہاں تک مرکزی حکومت اور ریاستوں کے درمیان تعلقات یعنی مرکز۔ ریاست تعلقات کا سوال ہے یونین (مرکزی حکومت) کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی ہر ریاست کا تحفظ کرے نہ کہ اسے کمزور یا تباہ کرے۔ اس طرح دفعہ 355 ہندوستانی ریاست کی وفاقی نوعیت کا اقرار ہے۔مرکزی حکومت بھی اس بات کو یقینی بنانے کی پابند ہے کہ ریاست ہمیشہ آئین کے مطابق چلائی جائے، یہ مرکزی حکومت کے لئے ایک یاددہانی ہے کہ جب کوئی ریاست غلط طریقہ سے چلائی جاتی ہے یا حکومت نہیں کرتی ہے تو وہ (مرکزی حکومت) خاموش تماشہ بنی نہیں رہ سکتی۔ یہ دو الگ الگ فرائض ہیں۔ واضح رہے کہ یونین (مرکزی حکومت) ایک دستوری تصور ہے بالآخر یہ مرد و خواتین ہی ہیں جو مرکزی حکومت کی جانب خدمات انجام دیتے ہیں اور بات کرتے ہیں اور یہ مرد و خواتین وہ ادارہ دراصل مجلس وزراء ہے جبکہ مجلس وزراء کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا۔
دوہری ذمہ داریاں : منی پور کے معاملہ میں 3 مئی 2023 سے ہر دن ان دونوں ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی جارہی ہے۔ ان دونوں فرائض سے غفلت برتی جارہی ہے۔ ان کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا جارہا ہے۔ دستور کی دفعہ 355 میں مرکزی حکومت پر ریاستوں کے تحفظ سے متعلق جو ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں۔ انہوں نے منی پور کا دورہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ منی پور میں حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک اس گڑبڑ زدہ ریاست میں 120 افراد سے زائد کی ہلاکتیں ہوئیں۔ وہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس بارے میں حکومت کے بعض ناقدین کا سوچنا ہیکہ یہ ایک پاگل پن ہے اور اس پاگل پن و جنون کے پیچھے کارفرما وجوہات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ میں اس ضمن میں حسب ذیل وجوہات کے بارے میں سوچ سکتا ہوں۔
-1 منی پور میں بی جے پی کا اقتدار ہے اگر مرکزی حکومت ریاستی حکومت کی سرزنش کرتی ہے یا اسے برطرف کرتی ہے تو اس کا مطلب خود کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوسکتا ہے (لیکن موجودہ حالات میں منی پور کی ریاستی حکومت کو برطرف کرنے مودی حکومت یہ کہہ سکتی ہے کہ میرا ملک میری پارٹی سے بالاتر ہے لیکن وہ صرف پارٹی مفادات کو ترجیح دے رہی ہے)
-2 مسٹر نریندر مودی ریاست میں ڈبل انجن سرکار (حکومت) کو استحکام بخشنے کی خاطر غیر مقبول ریاستی چیف منسٹر مسٹر بیرن سنگھ سے خود کو دور رکھنا چاہ سکتے ہیں۔
-3 منی پور ایک دور دراز کی ریاست ہے۔ منی پور میں جو کچھ ہوتا ہے یا ہو رہا ہے اس کے مابقی ملک پر اثرات مرتب نہیں ہوتے، حالانکہ حکومت شمال مشرقی ریاستوں میں کام کے تئیں فخر کے لئے بہت کچھ کرنے کا دعویٰ کرسکتی ہیں۔
-4 میتھئی اور ککی قبائل کو لڑنے دیں، میتھئی قبائل کے زیر کنٹرول ریاستی حکومت اور میتھئی قبائل کے زیر اثر بی جے پی کی تائید و حمایت سے بالآخر میتھئی قبائل کی ہی جیت ہوگی اور اس کے لئے سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس جیسے نعرہ پر فخر کیا جائے گا۔
یوم سیاہ کا اعادہ : منی پور کی تاریخ میں 3 مئی یقینا یوم سیاہ ہے۔ 30 سال قبل 3 مئی 1983ء کو میتھئی ہندوؤں اور میتھئی مسلمانوں (پنگلوں) کے درمیان خونریز تصادم کے واقعات پیش آئے تھے اور اس بدترین تشدد میں 100 سے زائد انسانی جانوں کا اتلاف ہوا ۔ اس طرح 3 مئی 2023 کو وہی تاریخ دہرائی گئی لیکن اس مرتبہ میتھئی اور ککیوں کے درمیان تشدد پھوٹ پڑا اور اس تشدد کی وجہ منی پور ہائی کورٹ کا ایک حکم تھا۔ دراصل میتھئی برادری طویل عرصہ سے اس بات کا مطالبہ کررہی ہے کہ انہیں منی پور کے درج فہرست قبائل کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ سابقہ حکومتوں نے بڑی ہشیاری سے اس مطالبہ پر کوئی کارروائی نہیں کی کیونکہ ریاست میں مختلف برادریوں کے مختلف مفادات ہیں اگر حکومت میتھئی برادری کو درج فہرست قبائل کی فہرست میں شامل کرتی تو اس سے ان برادریوں کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ ہوتا۔ نتیجہ میں امن و امان کے حالات دھماکو ہو جاتے۔ منی پور میں تین بڑے قبائل یا برادریاں رہتی ہیں جن میں میتھئی، ککی اور ناگاقبائل شامل ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ آزادی سے قبل میتھئی کمیونٹی منی پور کے قبائیلیوں کی فہرست میں شامل تھی لیکن اس برادری کو دستور (درج فہرست قبائیل) آرڈر 1960 ء میں شامل نہیں کیا گیا۔ موجودہ طور پر میتھئی برادری سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت کو عام زمرہ میں رکھا گیا ہے جبکہ ان میں سے تقریباً 17 فیصد ادبی سیریز ہیں۔ اگر دیکھا ئے تو منی پور میں جو تینوں بڑی برادریاں ہیں ان کے درمیان سیاسی توازن بہت نازک ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ منی پور کے 60 اسمبلی حلقوں میں سے 40 حلقوں میں میتھئی کمیونٹی کی اکثریت ہے۔ 10 حلقوں پر ککی قبائل کی اجارہ داری ہے اور 10 اسمبلی حلقوں میں ناگا قبائل کی اکثریت ہے۔ آپ کو بتادیں کہ ککی اور ناگا ریاست کی ان 36 برادریوں میں شامل ہیں جنہیں ایس ٹی زمرہ میں رکھا گیا ہے۔ اگر میتھئی برادری سے تعلق رکھنے والوں کو ایس ٹی زمرہ میں شامل کیا جاتا ہے تو بھی اس سے انتخابی نقشہ پر زیادہ فرق نہیں پڑے گا لیکن نوٹیفائیڈ قبائیلی علاقوں میں اراضیات کی خریدی اور سرکاری ملازمتوں کے حصول پر ضرور اثرات مرتب ہوں گے۔
جیسا کہ میں نے نوٹ کیا ہے منی پور ہائی کورٹ کے کارگذار چیف جسٹس مسٹر جسٹس مرلیدھرن کے فیصلہ نے ریاست میں ہلچل مچادی اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری ریاست جل اٹھی۔ انہوں نے اپنے فیصلہ خاص طور پر یہ بات کہی کہ ریاستی حکومت نے میتھئی برادری کو درج فہرست قبائل میں شامل کرنے سے متعلق کوئی سفارش پیش نہیں کی۔ عدالت نے ریاستی حکومت کو اس بات کی ہدایت دی کہ وہ اس ضمن میں اندرون چار ہفتے مرکزی حکومت کو سفارش روانہ کرے۔ اگر دیکھا جائے یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا جس پر عدالت کو کسی قسم کی ہدایت دینی چاہئے تھی۔ عدالت یہ مسئلہ قانون ساز اسمبلی یا کمیشن برائے درج فہرست قبائل کی صوابدید پر چھوڑ سکتی تھی۔ اس تمام ایپی سوڈ کی ایک اور خاص بات یہ ہیکہ اس اس مسئلہ پر بی جے پی ارکان اسمبلی کے ایک 30 رکنی وفد نے وزیر اعظم سے ملنے کی کوشش کی۔ اسے ناکامی ملی، منی پور کے ایک سابق چیف منسٹر کی زیر قیادت دس اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو بھی وزیر اعظم سے ملاقات کا وقت نہیں دیا گیا اور عزت مآب وزیر اعظم نے ریاست منی پور کو جلنے کے لئے چھوڑ دیا۔ منی پور کی بیرن سنگھ حکومت کی میعاد نااہلی، غفلت و لاپرواہی، تعصب و جانبداری کی علامت بن گئی ہے اور اب وزیر اعظم سے ملاقات نہ کرنا بھی کسی توہین سے کم نہیں۔ منی پور میں ایک انجن (ریاستی حکومت) میں فیول ختم ہوگیا اور دوسرا انجن (مرکزی حکومت) خود کو خاموشی کے خول میں بند کرلی ہے اور ڈبل انجن سرکار کی بے حسی کے نتیجہ میں آج منی پور جل رہا ہے۔