محمد ریاض احمد
ساری دنیا بالخصوص ہندوستان میں اسرائیلی جاسوسی سافٹ ویر یا جاسوسی ویر پیگاسیس کے حکومتوں اور سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ مبینہ استعمال کو لے کر ہلچل مچی ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن جماعتوں نے ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔ اپوزیشن قائدین بشمول راہول گاندھی کا یہ الزام ہے کہ اس معاملہ میں وزیرداخلہ امیت شاہ کو اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مستعفی ہوجانا چاہئے۔ ویسے بھی راہول گاندھی کا یہ مطالبہ ایک طرح سے بچکانہ مطالبہ ہے اس لئے کہ فی الوقت ملک میں اخلاقی اقدار تباہ و برباد کردیئے گئے۔ شرم و حیا جیسے الفاظ سیاستدانوں کی ڈائری سے حذف ہوچکے ہیں۔ امیت شاہ، لال بہادر شاستری یا پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی کابینہ کے کوئی وزیر نہیں جو معمولی سے ریل حادثہ پر بھی استعفے دے دیں۔ اُن لوگوں کا ضمیر زندہ رہا کرتا تھا، سینے میں دھڑکنے والے دلوں میں ملک و قوم کی محبت موجزن ہوا کرتی تھی۔ بے شرمی کی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان قائدین کو چھوکر بھی گزرے۔ راہول گاندھی نے مودی حکومت پر بے شمار الزامات عائد کئے جن میں یہ بھی الزام ہے کہ مودی حکومت اپنے مخالفین کے خلاف پیگاسیس جاسوسی سافٹ ویر کو بطور ہتھیار استعمال کررہی ہے۔ انھوں نے سارے معاملہ کی عدالت کے زیرنگرانی تحقیقات کرانے کا بھی مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں 50 ہزار سے زائد فونس کو نشانہ بنایا گیا یا ان کی نگرانی کی گئی جن میں 14 ملکوں کے حکمراں بشمول صدر فرانس ایمانول مائیکرون، پاکستانی وزیراعظم عمران خان بھی شامل ہیں جبکہ فرانس کے میڈیا ادارہ فاربڈن اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عالمی سطح پر 17 میڈیا اداروں کے ذریعہ پراجکٹ پیگاسیس پر پوری تندہی سے کام کیا۔ اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ آخر یہ سافٹ ویئر کس ملک کی کس کمپنی نے تیار کیا ہے؟ اس کی قیمت کیا ہے؟ اسے کن مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس جاسوسی سافٹ ویر کی آیا صرف حکومتوں اور سرکاری ایجنسیوں کو فروخت عمل میں آتی ہے یا پھر مختلف آزاد اداروں اور افراد بھی اسے راست طور پر خرید سکتے ہیں؟ ایک اور سوال عام لوگوں کے ذہنوں میں گردش کررہا ہے کہ یہ آخر کس طرح جاسوسی کرتا ہے؟ اس بارے میں ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ سب سے پہلے قارئین کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ایک ناجائز مملکت ہے اور اس کے یہاں ایسی بے شمار تنظیمیں اور ادارے ہیں جہاں شیطانی دماغ کام کرتے ہیں۔ جہاں تک اپوزیشن قائدین، حقوق انسانی کے جہدکاروں، حکومت کی پالیسیوں و پروگراموں سے غیر مطمئن اعلیٰ عہدہ داروں کے فونس کی جاسوسی اور ہیکنگ کا سوال ہے یہ کام وہ حکومتیں کرتی ہیں جہاں جمہوریت بہت کمزور ہوگئی ہے ۔حکومتوں اور حکومتی اداروں کے سوا کوئی اور اس بارے میں سوچ نہیں سکتا۔ اب اُس سوال کی جانب چلتے ہیں کہ آخر اسے کن مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ این ایس او کا دعویٰ ہے کہ اس جاسوسی سافٹ ویر کا دہشت گردوں، انتہا پسندوں، امن کی دشمن تنظیموں، انسانی اسمگلنگ کیلئے کی جانے والی سرگرمیوں، بچوں کے جنسی استحصال اور منشیات کی غیر قانونی منتقلی میں ملوث ٹولیوں و گروپس پر نظر رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن اب دنیا کی کمزور جمہوریتوں سے لے کر خود کی بقاء کے لئے لڑرہی حکومتوں، مخالفین کو بلیک میل کرتے ہوئے انھیں خاموش کرنے، ناجائز طریقوں سے اقتدار حاصل کرنے، دیانتدار، نڈر و بے باک صحافیوں و حقوق انسانی کے جہدکاروں کی آوازیں دبانے انھیں مختلف جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کیلئے استعمال کررہی ہیں۔ خود ہمارے ملک میں بھیما کورے گاؤں کیس کے سلسلہ میں 84 سالہ فادر اسٹین سوامی و دیگر کو گرفتار کیا گیا۔ ان پر وزیراعظم مودی کے قتل کی سازش رچنے کے الزامات عائد کئے گئے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ فرضی مکتوبات اور قابل اعتراض مواد ان کے فونس اور لیاپ ٹاپ میں خفیہ طریقوں سے پہنچایا گیا اور بے چاری عدالتوں کو بھی اس کا احساس نہیں ہوا۔ درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران فادر اسٹین سوامی کو اس دنیا سے ہی نجات مل گئی۔ ہندوستان میں 300 شخصیتوں کے فونس کی جاسوسی کی گئی جس میں 40 صحافی بھی شامل ہیں۔ ان صحافیوں میں روہنی سنگھ جیسی خاتون صحافی بھی شامل ہے جنھوں نے امیت شاہ کے بیٹے جئے شاہ کے کاروباری معاملت پر مسلسل تحقیقاتی رپورٹس پیش کی تھیں۔ اس طرح انہوں نے وزیراعظم نریندر مودی کے ایک قریبی ساتھی صنعت کار نکھیل مرچنٹ کی کاروباری معاملتوں کے ساتھ ساتھ پیوش گوئل اور وجئے پیرامل کی معاملتوں پر بھی رپورٹس پیش کی جس کے ساتھ ہی ان کے فون میں بھی پیگاسیس جاسوس چھوڑ دیا گیا۔ عوام کے ذہنوں میں یہ سوال اُبھر رہا ہے کہ آخر اس سافٹ ویر کو صرف حکومتیں خریدتی ہیں یا دوسرے افراد اور آزادانہ ادارے بھی حاصل کرسکتے ہیں؟ اس بارے میں این ایس او نے خود دعویٰ کیا ہے کہ صرف اور صرف حکومتیں اور ان کی ایجنسیوں کو ہی یہ سافٹ ویر فروخت کیا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پتہ نہیں ہندوستان میں مودی حکومت کے مخالفین کے خلاف کونسی سرکاری ایجنسی پیگاسیس سافٹ ویر استعمال کررہی ہے۔ دنیا بھر اور بالخصوص ہندوستان میں لوگ یہ جاننے کے لئے بے چین ہیں کہ آخر پیگاسیس جاسوسی سافٹ ویر کا استعمال کیسے ہوتا ہے۔ اس تعلق سے آپ کو یہ بتادیں کہ یہ اصل میں وہ جاسوس ہے جسے کسی بھی مخالف کے فون میں ایک پیام یا مسڈ کال کے ذریعہ چھوڑ دیا جاتا ہے اور پھر وہ اپنا کام شروع کردیتا ہے۔ سب سے پہلے یہ Spy Ware فون کا پاس ورڈ حاصل کرلیتا ہے اور پھر اپنی مرضی کے مطابق فون کو چلانا شروع کردیتا ہے۔ یہ جاسوس اپنے من کی بات کے ذریعہ فون پر آنے والے مسیجس چاہے وہ واٹس ایپ پیامات ہوں یا تصاویر و ویڈیوز سب کو اپنے آپ میں اُتار لیتا ہے۔ تحریری پیام ہوکہ وائس مسیج اسے بھی خود میں ریکارڈ کرلیتا ہے۔ اگر اس نے اسرائیل سے یہ سافٹ ویئر نہیں خریدا ہے (ویسے بھی یہی کہا جارہا ہے کہ اس بارے میں وزیراعظم نریندر مودی کے دورۂ اسرائیل اور اُس وقت کے وزیراعظم اسرائیل بنجامن نیتن یاہو کے ساتھ ایک جھیل کنارے چہل قدمی کے دوران معاملت طئے پائی تھی) تو پھر اسے اعلان کردینا چاہئے کہ اس نے یہ سافٹ ویئر نہیں خریدا پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اور اس کی ایجنسیوں نے یہ سافٹ ویئر نہیں خریدا تو کس نے خریدا؟ اس کی تحقیقات کرانا اپوزیشن کا نہیں ،حکومت کا کام ہے۔ یہ ایک سنگین معاملہ ہے، ملک کی سلامتی سے اس کا راست تعلق ہے، ایسے میں عدالتوں کو بھی خاموش تماشائی بنے نہیں رہنا چاہئے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے کئی ذرائع کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ ہندوستان نے یہ جاسوسی سافٹ ویئر خریدا ہے تو کیا مودی حکومت، راہول گاندھی سے لے کر صحافیوں اور سماجی جہد کاروں کو دہشت گرد سمجھتی ہے یا پھر ملک پر اپنی مرضی تھوپنا چاہتی ہے۔
[email protected]