موت اور ہاتھ کاٹنے کی سزائیں بحال ہونگی: طالبان

,

   

کابل : طالبان کے بانی رہنما اور امورِ جیل خانہ جات کے وزیر ملا نورالدین ترابی نے کہا ہے کہ طالبان کی ماضی کی حکومت کی طرح اس مرتبہ بھی ملک میں سزائے موت اور ہاتھ کاٹنے جیسی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک انٹرویو کے دوران ملا ترابی نے کہا کہ اس مرتبہ طالبان کی حکومت میں ججز مقدمات کی سماعت کریں گے جن میں خواتین بھی شامل ہوں گی۔ البتہ افغانستان کے قانون کی بنیاد قرآن ہو گا۔ انہوں نے طالبان کی جانب سے ماضی میں کھلے میدان میں سرِ عام سزائیں دیے جانے پر ہونے والی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دنیا افغانستان کے معاملات میں مداخلت سے باز رہے۔انہوں نے کہا کہ کھلے میدان میں سزائیں دینے پر ہر کسی نے ہم پر تنقید کی لیکن ہم نے سزاؤں سے متعلق کسی بھی ملک کے قانون پر کچھ نہیں کہا، کسی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے قوانین کس قسم کے ہونے چاہئیں۔ ملا ترابی نے کہا کہ ہم اسلام کی پیروی کریں گے اور اپنے قوانین قرآن کے مطابق بنائیں گے۔یاد رہے کہ ماضی میں طالبان کی جانب سے کابل اسپورٹس اسٹیڈیم یا عیدگاہ گراؤنڈ میں عام شہریوں کے سامنے دی جانے والی سزاؤں پر بین الاقوامی برادری مذمت کرتی رہی ہے۔ 90ء کی دہائی میں طالبان کی جانب سے متعارف کردہ قوانین کے تحت قتل کے جرم میں موت کی سزا پانے والے شخص کو سرِ عام سر میں گولی ماری جاتی تھی۔ متاثرہ خاندان میں سے کوئی شخص یہ کام انجام دیتا یا متاثرہ خاندان کو یہ متبادل دیا جاتا تھا کہ وہ خون بہا لے کر مجرم کی جان بخش دے جبکہ چوری یا ڈکیتی کے جرم میں سزا پانے والے شخص کے ہاتھ کاٹے جاتے تھے۔مقدمات کی سماعت اور سزاؤں سے متعلق بہت کم ہی معلومات عام ہوتی تھیں اور عدلیہ میں علما کا زیادہ اثر و رسوخ تھا جن کا قانون سے متعلق علم صرف مذہبی احکامات تک ہی محدود تھا۔