موجوده حالات ميں ہمارى ذمه دارى از: محمد أكرم ندوى آكسفورڈ

,

   

تمهيد:

 اس وقت صرف هندوستان مين نہیں بلكه پورى دنيا مين ہم مسلمان جن حالات سے گزر رهے ہیں ان كى سنگينى كا احساس هر خاص وعام كو هے، همارى سياسى طاقت مدتون سے ٹوٹ چكى هے، اجتماعيت كا شيرازه منتشر هو چكا ہے، گروهى عصبيت همارى رگ جان مين پيوست هو گئى هے، ہمارا مزاج فرقه وارانه بن چكا هے، ہمارے جان ومال وعزت وآبرو كا عدم تحفظ همارى ذلت وبے كسى كا آئينه دار هے، مختلف ملكون مين ملازمتون كے شرائط اس طرح تبديل كئے جا رهے هين كه مسلمانون كے لئے ملازمتون كا حصول مشكل هوتا جا رها هے، مسلم ملازمين كى پريشانيون مين اضافه ہو رہا ہىے، مسلم خواتين كا پرده تنقيد اور امتيازى سلوكـ كى زد مين ہے، اسكولوں، اسپتالوں اور عوامى ريسٹورانون سے حلال كهانوں كى قانونى آسانيان ختم كى جا رہى ہیں، تكفين وتدفين كى حاصل هونے والى سهوليتين بهى نشانه پر ہیں، اور وه وقت دور نہیں جب يكسان مواقع كے دستور كو خواتين اور هم جنس پرست اماموں كى تقررى كے لئے استعمال كيا جائے گا.

 هندوستان ميں مسلمانون كى تعداد چونكہ بہت زياده ہے اس لئے غير اطمينانى كى فضا كو روكنے كے لئے اس طرح كى كار روائياں شايد بہت كهل كر نه هون، البته پوليس ايكشنز، تعليمى ادارون كى تفتيش، مسجدون اور مدرسوں كے لئے بلڈنگ ريگوليشنز اور لائيسنز جيسے قانونى حربوں كا استعمال جارى ہے، جن كى وجہ سے مسلمان خود كو پابند قيود وسلاسل محسوس كر رہے ہیں۔

 ان حالات سے نپٹنے كے لئے ہم مختلف پيمانون پر متفرق اور غير منظم كوششون مين لگے ہوئے ہیں، ليكن كسى واضح مقصد كے عدم تصور اور كسى طويل الميعاد منصوبه كى عدم موجودگى كى وجه سے بجائے پيش رفت كے ہم مزيد تنزل وادبار كا شكار ہیں۔

مسائل كا سبب:

 ايسے حالات مين دوسروں كو مورد الزام ٹهرانا ہمارا معمول بن گيا ہے، سچى بات يہ ہے كه ہمارى مشكلات كا سبب غيروں كى عمده كار كردگى نہیں بلكہ ہمارى خراب كار كردگى ہے، ہمارے مخالفين جس منزل كى طرف روان دوان ہيں وه منزل نہیں ہے، اسى لئے وہاں تكـ پہنچنے كے بعد ان كا زوال وانتشار يقينى ہے، ہمارى پريشانى كا سبب ان كى ترقى نہیں ہونى چاھیئے، همارى پريشانى كى اصل وجه يه هونى چاهیئے كہ ہمارے پاس منزل ہے ليكن ہم نے اپنى منزل چهوڑ كر دوسروں كى منزلوں كو اپنى منزل تصور كرليا هے، اس لئے همارے اور دوسرون كے راستون، طريقه كار اور تگ ودو مين كوئى فرق نہيں رہا.

امتحان:

 مسلمان ہونے كى حيثيت سے ہمیں جو رتبه ومقام حاصل ہے اور ہمارے اندر جس طرح كى اميد وحوصلہ ہے، وه ہمارے مخالفين كو حاصل نہيں، اور ہمیں اس كى قيمت ادا كرنى ہوگى، خدا كے ماننے والوں سے اس قيمت كى ادائيگى كا مطالبه ہر دور مين رہا ہے، اور يہ قيمت هے همارے ايقان واذعان كا امتحان، كه كيا ہم صرف اس وقت ايمان پر قائم رہتے ہيں جب ہميں زمين ميں عروج، طاقت، اقتدار اور خوشحالى حاصل ہو، يا ہم كمزورى، سختى، پريشان حالى اور فقر وفاقه كى حالت مين بهى دين وايمان پر قائم ره سكتے ہیں، كيا هم اهل ايمان اپنى صفون مين ايكـ دوسرے كے ساتهـ اتحاد استوار ركهـ سكتے هين، مشتركه منصوبے بنا كر ايكـ دوسرے كے ساتهـ كام كر سكتے ہیں، يا ہم وقتى سكون اور عارضى مفاد كے لئے اپنے اصولون، اور دينى وملى مفاد كا سودا كر كے اپنى مختلف نسبتوں اور منقسم شده فرقون اور گروهوں كو اپنى شناخت قرار ديں گے.

سياسى تبديلى:

 بعض حالات مين اچهے اثرات ونتائج كے لئے تبديلى لانے كا مروجه طريقه كار قابل استعمال نہیں ہوسكتا، مثال كے طور پر اس وقت بهت سے ممالكـ مين اس كى كوئى خاص اہميت نہیں ہے كه ہم كس كو ووٹ دے رہے ہيں، كيونكه ان ممالكـ مين حقيقى طاقت سياسى سرگرميون كى سطح كے بهت اندر گهرائى مين چهپى هے، اس سے كوئى فرق نہیں پڑتا كه آپ ان سياسى سرگرميون پر اثر انداز ہوں، كيونكه اس سے اندرونى حقائق تبديل نہیں ہوسكتے، اس كى مثال ايسى هى هے جيسے كسى بهتے هوئے دريا مين آپ كوئى چهوٹى يا بڑى چٹان پهينكين، ايكـ مختصر وقفه كے لئے پانى مين هلچل هوگى، اس كے بعد دريا اپنے دهارے كے مطابق دوباره اپنا بهاؤ قائم كر لے گا.

 هندوستان اور يورپ وامريكه كے بهت سے ممالكـ مين مسلمانون كے لئے كوئى سياسى تبدبيلى لانا يا سياسى پارٹيوں پر اثر ڈالنا عملا نا ممكن ہے، كيونكه ان ممالكـ مين اسلام اور مسلمانون كے خلاف گهرى نفرت كى فضا قائم كردى گئى ہے، جب تكـ مسلمان اپنے مسلمان ہونے كا انكار نہ كريں اس وقت تكـ وه جو كچهـ بهى كريں گے يا كهيں گے اسے شكـ وشبهه كى نگاه سے ديكها جائے گا اور ان پر اعتماد نہیں كيا جائے گا، اور دهيرے دهيرے مسلمانون كو اقتدار اور اثر اندازى كى پوزيشن سے مكمل طور پر بے دخل كرديا جائے گا.

 ہميں اس تلخ حقيقت كا اعتراف كرلينا چاهیئے كہ ہم اس وقت سياسى اقتدار كے نه اهل ہيں، اور نہ سياسى اقتدار ہمارے مسائل كا حل ہے، ہمارى نا اهليت اس سے عيان هے كہ ہم صحيح طريقے سے مدرسوں، مسجدوں، مركزوں، اداروں بلكه اپنے گهروں كا نظام نهيں چلا سكتے، اور سياسى اقتدار كے توسط سے همارے مسائل كے حل نہ ہونے كى ايكـ اھم شهادت مسلم ممالكـ كى صورت حال هے، جہاں مسلمان اكثريت ميں ہیں اور حكومت كى باگ ڈور ان كے ہاتهون ميں ہے، وہاں كے حالات بهى كس قدر خراب ہیں، بلكه بعض مسلم ممالكـ مين اسلام اور مسلمانون كى حالت هندوستان سے بد تر هے.

ہمارا مقصد حيات:

 تبديلى يا اصلاح كا كوئى قدم اٹهانے سے پهلے ہميں اچهى طرح ذهن نشين كرنا هوگا كه ہمارا مقصد حيات كيا ہے، اور پهر اپنے تمام منصوبوں اور تمام كوششون كا از سر نو جائزه لينا هوگا كه يه منصوبے اور يه كوششيں اس مقصد كے لئے كس حد تكـ ضرورى ہیں، اور ان كے درميان آپس مين كس قدر هم آهنگى ہے، ہر شخص جسے كتاب الهى كا تهوڑا بهى علم ہے اور جسے پيغمبروں كى تاريخ سے واقفيت ہے اسے يه اندازه كرنے مين دير نهين لگے گى كه ہم نے دوسرى قوموں كى تقليد مين اپنا مقصد حيات تبديل كرديا ہے، اس لئے ہمارے سوچنے كا انداز بدل گيا ہے، ہم نے وہى وسائل اور طريقه كار استعمال كرنا شروع كرديئے ہیں جو دوسرى قوموں كى سوچ كا منتها ہیں، ہم ميں اور دوسرى قوموں مين داعى اور مدعو كى نسبت تهى، اس وقت هم دنيا كى سارى قوموں كے فريق اور مقابل بن گئے هين، اسى حيثيت سے هم دوسرى قوموں سے معامله كرتے ہیں، اور اسى حيثيت سے وه ہم سے معامله كرتى ہیں، ظاهر هے كه اس صورت حال مين همارے اور دوسرى قوموں كے درميان نفرت اور دشمنى مين اضافه كے علاوه كوئى اور امكان نہیں.

 نقطه آغاز يه هونا چاهئے كه هم اپنے مقصد كو پہچانیں، اس دنيا مين همارا مقصد خدا كى عبادت هے، باقى سارى چيزيں اس اصل مقصد كى معاون، مسلمانوں كے لئے بهت اهم اور ضرورى هے كه عبادات پر صحيح توجه ديں اور اپنے ايمان واسلام كو اپنے درميان اور كهلى فضا مين پورے حوصله وعزم كے ساتهـ قائم كرنے كى كوشش كريں، همارى اكثريت صرف نام كى مسلمان هے، اسلام كے اركان پر بهت كم لوگ عمل پيرا ہیں، اس سلسله ميں سخت مهم اور جد وجهد كى ضرورت هے، مسلمانوں كو ايمان اور اسلام كے راسته پر قائم كرنا همارى بنيادى اور اولين ترجيح هونا چاهئے.

منصوبه بندى:

 اس بنيادى مقصد كى روشنى مين ہمیں ايكـ طويل الميعاد منصوبه پر كام كرنا هوگا جس سے همارے افراد اور همارى جماعتيں ان خوبيوں سے متصف هوجائيں جو دونوں جہاں كى كاميابى كے لئے كليدى حيثيت كى حامل ہیں:

1- اس منصوبه كا سب سے پهلا حصه تعليم كى فراهمى هے، اسے يقينى بنائين كه هر مسلمان قرآن وسنت كى اس قدر تعليم ضرور حاصل كرے جو اسے خدا كى بندگى كى ادائيگى كے لئے ضرورى هے، اور كچهـ ايسے افراد تيار كئے جائين جو اسلامى علوم ميں تحقيق كے مقام پر فائز ہوں.

 اس كے بعد دنياوى تعليم پر توجه كى جائے، دنياوى تعليم اس وقت صرف تعليم نہیں، بلكه ملازمتون كے حصول اور با عزت مال كمانے كا سب سے اهم ذريعہ ہے، ہر گاؤں اور ہر شهر بلكه ہر مسلم آبادى مين ہم يقينى بنائيں كه مسلمان بچے تعليم سے بهره ور رہوں، اس سلسله ميں جو مالى اور غير مالى موانع پيش آئيں ان كا حل نكاليں، تعليم كے حصول كى راه مين كسى عذر يا ركاوٹ كو حائل نه هونے ديں۔

 ايسے ذرائع اپنائيں جن سے ہمارے بچے اعلى تعليم اور اچهے معيار پر حاصل كرين، نادار گهرانوں كے بچوں كى فيس كى ادائيگى، ان كے لئے وظائف كا انتظام، اور تعليم ميں كمزور بچوں كے لئے معقول ٹيوشنز كى سهوليات فراهم كى جائيں.

 امتياز وتفوق همارى خصوصيت ہونى چاهئے، اس وقت كسى ميدان ميں اسى كى قدر ہے جو فائق هو، تفوق وامتياز كے حامل كو فرقه پرست اور تعصب پسند بهى نظر انداز نهين كر سكتے.

2- دوسرا اهم منصوبه رفاهى كاموں كا قيام هے، جو لوگ روز مره كى غذائى اشياء سے محروم ہیں انہیں تحفظ فراهم كيا جائے، لڑكيون كى با عزت شادى كى سعى كى جائے، حكومتوں كى بعض پاليسيوں كى وجه سے بہت سے مسلمان اپنے ذرائع آمدنى سے محروم ہو رہے هين، ان كے لئے صحيح متبادل كا نظم كيا جائے.

3- اخلاق اور بلند كردار كى تعمير اس منصوبه كا اہم حصه ہے، ہمارى اخلاقى حالت دوسروں سے بهتر نہیں، ہمارے اندر بے حيائى، فحاشى، بد ديانتى عام ہے، بے صبرى اور غصه كى زيادتى كى وجه سى بهت سى اخلاقى بيماريان پيدا هو رهى هين، علماء اور تعليميافته طبقه كے اخلاق بهى گرے هوئے هين، مال وجاه كى محبت بڑهى هوئى ہے.

 من حيث القوم ہمارا بقا ان اخلاقى قدرون پر منحصر هے، همارے خاندانون اور همارى اجتماعيت كے انتشار كا ايكـ اهم سبب همارى اخلاقى كمزوريان ہیں، ہم عورتوں، بچوں، والدين، اعزاء واقرباء، فقراء اور يتامى كے حقوق كى ادائيگى اور ان كے احترام سے بڑى حد تكـ غافل هين، ان امور پر خصوصى توجه كى ضرورت هے، اخلاقى تربيت كے منظم پروگراموں كا انعقاد همارى اصلاحى كوششون كا بنيادى حصه هونا چاهئے.

4- غير مسلمون سے اچهے تعلقات قائم کریں، غير مسلم پڑوسیوں كا خيال كريں، ان كو تحفے تحائف دين، تقريبات مين انہیں مدعو كريں، هر محله كے اندر ذات پات اور طبقاتى واجتماعى تقسيمات سے بالا هو كر مسلمانوں اور غير مسلموں كے مشتركه اجتماعات منعقد كرين جن مين كهانے پينے كا انتظام هو اور انسانى اور ملكى اور ديگر باهم دلچسپى كے امور پر تبادله خيال هو، هم ان كے بچوں اور بوڑهوں سے اپنى دلچسپى كا اظهار كرين، يه قريبى تعلقات جس قدر استوار هون گے اسى قدر ميڈيا اور اسلام اور مسلمان دشمن تنظيمون كے منفى اثرات كم ہوں گے.

6- موجوده حالات مين ہمیں بے انتها صبر وتحمل سے كام لينا هوگا، ہمیں ہر وقت بهڑكانے كى کوششیں كى جائیں گى، همارے محلوں سے مذهبى اور غير مذهبى جلوس نكالكر ہمیں مشتعل كيا جائے گا، عبادتگاهوں كو ملوث كيا جائے گا، ان سارے موقعوں پر هم اشتعال انگيزى سے بچين، نعرون اور شور هنگامون كا جواب خاموشى سے دين.

 عراق اور شام كى صورت حال سے همارے مخالفين كو ايكـ نيا راسته نظر آرها ہے، وه يه ہے كه بجائے غير مسلم اور مسلم فسادات كے، مسلمانون كے اندر جو اختلافات ہیں ان كو ابهارا جائے، اور انہیں ايكـ دوسرے سے لڑا ديا جائے، اس وقت هم تاريخ كے ايكـ اهم مرحله سے گزر رہے ہیں، اپنے اختلافات كو بالائے طاق ركھ كر ملت كے لئے كام كرنے كا جذبه پيدا كرنا هوگا، هم مين سے هر ايكـ كو يه طے كرنا هوگا كه شيعه سنى اختلافات، ديوبندى اور بريلوى، اور سلفى وغير سلفى ترجيحات كو صرف كلاس روم تكـ محدود رکھیں، مسجدوں اور سارے عوامى اجتماعات مين ہمیں مسلكى اور فرقه وارانه اختلافات ختم كركے ايكـ دوسرے سے دين كى اصولى باتون پر اتحاد كو تقويت دينى چاهئے، اور ملت كے عمومى مصالح كے لئے اپنے ذاتى اور گروهى مفادات كو هنسى خوشى قربان كرنے كى تربيت حاصل كرنى چاهئے.

خاتمه:

 يه افكار وخيالات اسى وقت مؤثر هوسكتے ہیں جب انہیں ايكـ تحريكى شكل دى جائے، ان مين سے هر منصوبه كى تطبيق كے لئے الگ الگ تنظيميں بنائى جائيں۔ جو ملكـ كے ہر گوشه مين ان هدايات كى نشر واشاعت اور ان كے اجراء كا كام كريں.

 الحمد لله بعض جگہوں پر ان اصولوں كى روشنى كچهـ كام شروع هو چكا هے، اور اس وقت اسى كو آگے بڑهانے اور مزيد منظم كرنے كى كوشش تيز كرنى چاهئے، دعا كريں كه الله تعالى ہمیں حوصله اور همت سے كام كرنے كى توفيق دے، اور تبصرے بازى اور طعن وتشنيع سے همارى حفاظت فرمائے. آمين.