متنازعہ سی اے اے کے معیشت پر تباہ کن اثرات ، بجٹ 2020 ء مودی کی کڑی آزمائش
حیدرآباد ۔ /21 جنوری (سیاست نیوز) ہمارے ملک میں پچھلے 6 برسوں سے جو حالات پیدا ہوئے ہیں اور جو واقعات وقفہ وقفہ سے پیش آرہے ہیں اسے یقیناً حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کہا جاسکتا ہے ۔ اب جبکہ بجٹ 2019-20 ء پیش کیا جانے والا ہے ۔ ایسے میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ایسے واقعات پیش آسکتے ہیں جس سے مودی حکومت کی ناکامیوں پر عوام کی توجہ نہیں جائے گی ۔ مثال کے طورپر عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے ہمارے ملک کی شرح نمو 4.8 فیصد رہنے کی بات کہی ہے ۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی معیشت میں سست روی کا سلسلہ جاری ہے اور معیشت کی یہ ست روی مودی حکومت پر بھاری پڑسکتی ہے ۔ بہرحال مرکزی بجٹ 2020-21 جہاں مرکزی وزیر فینانس نرملا سیتارامن کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے وہیں وزیراعظم مودی کی بھی بڑی آزمائش ہے ۔ کیونکہ انہوں نے اپنی پہلی میعاد کے دوران جو نوٹ بندی نافد کی تھی وہ بری طرح ناکام رہی ۔ جی ایس ٹی نے رہی سہی کسر پوری کردی ۔ خاص طور پر اوسط درجے کے تاجرین کو جی ایس ٹی سے بہت نقصان پہنچا ۔ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ مسلسل یہ دعوے کررہے ہیں کہ ان کی قیادت میں ملک نے بہت ترقی کی ہے ۔ دونوں اس لحاظ سے صحیح ہے کہ ملک نے ترقی ضروری کی ہے لیکن فرقہ پرستی درندگی ، انسانیت دشمنی ، مذہبی بنیادوں پر امتیاز اور ذات پات پر مبنی نظام کو فروغ دینے کے معاملہ میں یہ ترقی ہوئی ہے ۔ بیروزگاری کے معاملہ میں شائد یہ ترقی ہوئی ہے ۔ مثال کے طور پر نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے ڈیٹا میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ سال 2018 ء میں ہر روز اوسطاً 72 بیروزگار نوجوانوں نے خودکشی کی اور اس طرح 12 ماہ کے دوران 26085 بیروزگار یا چھوٹے موٹے کاروبار سے جڑے لوگوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا ۔ شائد مودی حکومت کیلئے بیروزگار نوجوانوں کی خودکشیاں بھی ترقی میں شمار کی جاتی ہیں ۔ بہرحال ہم بجٹ کی بات کررہے ہیں ۔ یکم فروری کو نرملا سیتارامن بجٹ پیش کرنے والی ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی حکومت نے بجٹ 2020-21 کیلئے کیا تیاریاں کی ہیں ۔ آیا وہ اس مرتبہ بھی انفرادی انکم ٹیکس کی شرحوں میں کمی کرے گی یا نہیں ؟ یہ سوال بہت زیادہ گردش کررہا ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ عبوری بجٹ میں جو فروری 2019 ء میں پیش کیا گیا تھا انکم ٹیکس راحت ان افراد کو دی گئی تھی جن کی سالانہ آمدنی 5 لاکھ روپئے ہو ۔ تنخواہ پانے والے طبقہ کو ایک اور راحت دیتے ہوئے 40 ہزار کی معیاری تخفیف کی گئی جو دراصل مرکزی بجٹ 2018 ء میں متعارف کروائی گئی تھی اور اس میں 10000 روپئے سے اضافہ کرکے 50000 روپئے فی سال کردیا گیا ۔ لیکن پچھلے سال معیشت سست روی نے بہت متاثر کیا ۔ نتیجہ میں طلب اور قوت طلب میں کمزوری محسوس کی گئی ۔ اس لئے ہوسکتا ہے کہ طلب پیدا کرنے کیلئے حکومت اس مرتبہ انکم ٹیکس کی شرحوں میں کمی کرسکتی ہے اور موجودہ Slabs میں مزید ذیلی سلیبس پیدا کرسکتی ہے ۔ مثال کے طورپر 5 لاکھ تا 10 لاکھ روپئے کے Slab کیلئے ٹیکس کی موجودہ شرح 20 فیصد ہے ۔ یہ شرح ممکن ہے کہ کم کرتے ہوئے 10 فیصد کردی جائے گی اور دس لاکھ روپئے سے 20 لاکھ روپئے تک 20 فیصد شرح ٹیکس عائد کی جائے گی ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ حکومت کو موجودہ حالات میں انفرادی شرح ٹیکس میں کمی کرنی ہی پڑے گی ۔