موجودہ حالات میں مظلوم لڑکیاں انصاف کی متقاضی

   

محمد اسد علی ایڈوکیٹ
موجودہ دور میں ہر شخص صرف اپنے مفاد کو ترجیح دیتا ہے اور حقوق اور فرائض کو نظرانداز کردیتا ہے حالانکہ مذہب اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہیکہ دوسروں کا بھی اسی طرح خیال رکھا جانا چاہئے جیسا ہم اپنا خیال رکھتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں ان باتوں پر کوئی بھی توجہ نہیں دیتے ہیں بظاہر بہت سے لوگ جو مذہبی باتیں کرتے ہیں وہ بھی خود عمل سے گریز کرتے ہیں بلکہ بعض اپنے مفاد کے پیش نظر یا دوسروں کی ناراضگی کے اندیشے سے حق بات کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس دور میں خواتین بالخصوص لڑکیوں کو شدید مسائل و مشکلات کا سامنا ہے اور متوسط طبقہ کی لڑکیاں ایسی صورتحال سے بہت زیادہ متاثر ہیں حالانکہ بعض والدین کا فریضہ ہیکہ وہ جائیداد میں بھی لڑکی کا حصہ اپنی زندگی میں تقسیم کرالے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض والدین کا رجحان اور ان کی توجہ زیادہ تر لڑکوں پر رہتی ہے اور لڑکیوں کے ساتھ بے التفائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں نظر انداز کردیتے ہیں جس کی وجہ سے والدین کے بعد لڑکیاں اپنے حق سے محروم ہو جاتی ہیں۔ عام طور پر رشتہ دار اور میل جول رکھنے والے دیگر افراد بھی ایسے موقع پر کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں اور مدد کے لئے آگے نہیں بڑھتے ہیں حالانکہ والدین کا فریضہ ہیکہ وہ لڑکیوں کی بعد کی زندگیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی میں ہی ان کا جائز و شرعی حق دے دیں، اکثر صورتوں میں لڑکے جائیداد یا پیسہ حاصل کرلیتے ہیں اور ماں باپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ لڑکیوں بالخصوص اپنے بہنوں کا خیال رکھیں گے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وعدہ کی تکمیل نہیں ہوتی ہے اور لڑکیاں یا بہنیں بے یار و مددگار اور ٹھو کریں کھانے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ انتہائی شرمناک بات یہ ہے کہ بعض کیسیس میں خود اولاد اپنی بیوی اور ساس کی سکاوٹ اور بہکاوے میں آکر ماں باپ کے خلاف جائیداد میں جائز طور پر یہ حق حاصل کرنے کے لئے عدالت سے رجوع ہوتے ہیں اور والدین یا والدہ کو عدالت میں گھسیٹا جاتا ہے اپنے مفاد کی خاطر ان کی بزرگی کو نظرانداز کردیا جاتا ہے اور ان کے لئے طرح طرح کی مشکلات پیدا کی جاتی ہے۔ ماضی میں جب کبھی آپسی تنازعات پیدا ہوتے تو فریقین باہمی سمجھوتہ کرلیا کرتے تھے اور اگر کوئی معاملہ سنگین نوعیت کا ہوتا تو ایسے میں فریقین کلام پاک کی قسم کھاتے ہوئے حقیقت کو تسلیم کرلیا کرتے تھے، لیکن موجودہ دور میں افسوس اور شرم کی بات یہ ہیکہ عام طور پر لوگ مذہب سے دور ہوتے جارہے ہیں اور خوف خدا ان کے دلوں سے دور ہوتا جارہا ہے۔ ہر بات میں ذاتی مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے اور فریق مخالف کو کسی نہ کسی طرح نقصان پہونچا نے کے حربہ اختیار کئے جاتے ہیں۔ ہر طرف جھوٹ کا بول بالا ہے اور اگر کوئی شخص یہ کہے کہ بھئی جھوٹ مت بولو اس لئے کہ کل کے دن تم کو خالق کائنات کے سامنے جواب دینا ہوگا جہاں جھوٹ کے ذریعہ حقیقت کو نہیں چھپایا جاسکتا لیکن انتہائی شرم کی بات یہ ہے کہ لوگ اس بات کو اہمیت نہیں دیتے اور یہ کہتے ہیں کہ جب مریں گے تب دیکھیں گے۔

یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ جائیداد کا تنازعہ ہویا شوہر اور بیوی میں لڑائی جھگڑا بعض نام نہاد رشتہ دار آپس میں بات چیت کے دوران حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے بغیر کسی ثبوت کے جلد بازی میں یکطرفہ تائید کرتے ہیں اور اس مسئلہ کو اللہ تعالیٰ کو حاضر جان کر حل کرنے کے بجائے اسے اور پیچیدہ بناتے ہوئے لوگوں کی پیریشانی میں مزید اضافہ کردیتے ہیں کچھ بولنے سے قبل یہ نہیں سوچھتے کہ کہ ان کی جھوٹی گواہی سے فیصلوں میں تاخیر، وقت اور پیسوں کی تباہی کے ساتھ ساتھ خاندان میں اور عداوت بڑھ جاتی ہے اور ایک دوسرے کی صورت تک دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ خاندان میں کسی کے ہاں سکھ، دکھ، ہو یا عید کے موقع پر بھی رسمی طور پر ملتے ہیں لیکن دلوں میں تو دشمنی برقرار رہتی ہے۔ بڑوں کی طرف سے لگائی گئی چنگاری بچوں کے دلوں میں دشمنی آگ کی طرح جنم لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے بیشک جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ بس اپنے پیٹ میں آگ ہی بھرتے ہیں اور عنقریب وہ دہکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ انبیاء ا ور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تم کو گناہ کبیرہ میں سب سے بڑے گناہ کو نہ بتادوں، صحابہ کرام نے عرض کیا ضرور بتادیں اے اللہ کے رسولؐ آپؐ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، اور جھوٹی گواہی دینا۔ حالانکہ مذہبی احکام کے مطابق ہر صورت میں مومن کو حق بات کہنا چاہئے صرف زاہد پر فریب سننے سے جنت نہیں ملتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ حلیہ کی بجائے اعمال کو دیکھتا ہے اور اگر بالخصوص مذہبی طرز زندگی اختیار کرنے والے ناانصافی کرے تو انہیں یقینی طور پر میدان حشر میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا اور اپنے افعال اور اعمال کی پاداش میں سزاء بھی بھگتنی پڑے گی۔ اس سلسلے میں اگر کوئی جائیداد کا تنازعہ اٹھ کھڑا ہوتو بزرگوں کی مدد سے اسے گھر ہی میں حل کیا جائے تاکہ نہ صرف بدنامی سے بچ سکے بلکہ اللہ تعالیٰ کے غضب سے بھی محفوظ رہے، بالخصوص مذہبی رجحان کے حامل لوگوں کو چاہئے کہ وہ حق بات کے لئے آگے بڑھیں اور مظلوم کو انصاف دلائیں۔ مزید تفصیلات کے لئے اس نمبر 9959672740 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔