موجودہ دور میں طلاق کے واقعاتوکلاء کا اہم رول

   

محمد اسد علی
موجودہ دور میں مسلم معاشرہ کا ایک انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ’’ طلاق‘‘ جیسی ناپسندیدہ چیز عام ہوگئی ہے حالانکہ جائز چیزوں میں اللہ کی نظر میں طلاق سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز ہے۔ میاں بیوی میں عام جھگڑوں سے گھر میں انتشار پیدا ہوتا ہے اور نوبت عدالتی کشاکش تک جاتی ہے۔ مقدمہ بازی کے نتیجہ میں اولاد کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے اور خاص طور پر اگر کسی عورت کو لڑکیاں ہو تو طلاق کی صورت میں نہ صرف اس کی بلکہ لڑکیوں کی زندگی بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔ عام طور پر طلاق کے معاملے میں عدالتوں کا سہارا لیا جاتا ہے جس میں وکلاء اہم رول ادا کرتے ہیں۔ حالانکہ پیشہ وکالت ایک ایسا پیشہ ہے جس میں سب سے اہم بات دیانت داری اور سچائی ہوتی ہے لیکن عام طور پر اس کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سال کے 12 مہینوں میں مقدس ماہ رمضان میں بھی بعض وکلاء بددیانتی اور جھوٹ سے نہیں بچتے ہیں اور پیسوں کے پیچھے دوڑتے ہیں حالانکہ انہیں چاہئے کہ وہ سچائی اور دیانت داری سے کام کرے تاکہ آخرت میں اور خود دنیا میں بھی انہیں ایک بڑا اجر مل سکے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض وکلاء صرف پیسے کی خاطر حق کو ناحق بتاتے ہوئے جانبداری سے کام لیتے ہیں۔ کسی مظلوم اور قابل رحم خاتون سے ہمدردی کی بجائے اس کے خلاف قانونی کارروائی میں ناجائز طور پر کارروائی کی جاتی ہے۔ ماضی میں ہم نے سنا تھا کہ بعض ایڈوکیٹ اپنے موکلین سے کہا کرتے تھے کہ اگر جھگڑا ہوجائے تو وہ اپنے حریف کا سَر لائیں اور بعدازاں جو کچھ ہوگا، ہم تمہیں اس کے قانونی نتائج سے بچا لیں گے، ایسے بہت سے وکلاء انتقال کرچکے ہیں لیکن آج بھی ناانصافی کا شکار ہونے والے انہیں بددعا دیتے ہیں۔ انتہائی شرمناک پہلو یہ ہے کہ بعض وکلاء صرف دنیاوی زندگی کو ہی اپنا نصب العین سمجھتے ہیں اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ اگرچیکہ وقتی طور پر انہیں کامیابی ہوتی ہے لیکن اس سے ان کی آخرت تباہ ہوسکتی ہے جبکہ اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت آخرت کی زندگی کو دی گئی ہے اور بار بار سچائی و دیانت داری کی تلقین کی گئی لیکن بعض وکلاء اس معاملے میں یہ کہتے ہیں کہ ’’جھوٹ نہ بولیں تو اور کیا کریں ، ہمارا یہی پیشہ ہے‘‘۔ اس قسم کے غلط خیالات سے ان کی آخرت شدید متاثر ہوسکتی ہے حالانکہ دیانت داری کا راستہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے اور انصاف کے ساتھ پریکٹس کی جاسکتی ہے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ دنیاوی مفاد کو آخرت پر ترجیح دی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ ’’وہاں کا کون سوچتا ہے‘‘۔ اہم بات یہ ہے کہ بعض غیرمسلم حضرات بھی سچائی اور دیانت داری کے راستے پر چل رہے ہیں اور ہمدردی کا اظہار بھی کررہے ہیں۔ جبکہ ہماری ملت میں ایسا جذبہ بہت ہی کم دیکھنے میں آیا ہے۔ اسلام میں مظلوم کی مدد کا کھلا حکم دیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ظالم کی مدد مظلوم پر ظلم کے برابر ہے۔ وکلاء کو چاہئے کہ وہ زمانے کی روش کو نہ اپنائیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر حتی الامکان عمل کرے۔ چند روزہ دنیاوی زندگی ہمیشہ کی زندگی میں کام آنے والی ہے جبکہ اسے نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ نہ صرف پیشہ وکالت بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں اسلامی رہنمائی کو مشکل راہ بنانا چاہئے چونکہ ہمارا معاشرہ اسلام سے دُور ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر اقوام ہم پر مسلط ہے اور ہم ظلم کا شکار ہورہے ہیں لیکن اعمال کا جائزہ لیا جائے تو شرم سے سرجھک جاتا ہے۔ عام طور پر رمضان کے مہینے میں بھی بعض وکلاء عدالت میں جھوٹ سے گریز نہیں کرتے اور صرف پیسے کی خاطر سچ کو جھوٹ ثابت کرکے فائدہ حاصل کرتے ہیں جس سے فریق مخالف کو اگرچیکہ دنیا میں نقصان پہونچتا ہے لیکن آخرت میں ایسے وکلاء کو سختی سے اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا جہاں کوئی سفارش یا دولت کام نہیں آئے گی اور صرف سچائی اور دیانت داری ہی وہاں کام آسکتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ وکلاء کو چاہئے کہ وہ حق کو سامنے رکھتے ہوئے مظلوم کی تائید و مدد کرے اور ناانصافی کا ساتھ نہ دیں۔ جبکہ دیکھا گیا ہے کہ مظلوم پر رحم نہیں کیا جاتا ہے اور صرف پیسے کیلئے ظالم کا ساتھ دیا جاتا ہے۔ طلاق کے واقعات کے سلسلے میں میں بھی فریقین جب کسی وکیل سے رجوع ہوں تو وکیل کو چاہئے کہ وہ مقدمہ بازی کی ترغیب دینے کے بجائے میاں بیوی میں مصالحت کروائیں جس سے نہ صرف دنیا میں وکیل کی نیک نامی ہوگی بلکہ آخرت میں بھی یہ کام ان کیلئے بہت کام آئے گا۔ صرف پیسوں کی خاطر میاں بیوی کو الگ کرنے کی قانونی کارروائی میں معاونت کرنا ایک گناہ کے مماثل ہے اور اس اقدام سے مظلوم اپنے پہونچنے والے حق سے محروم ہوجاتا ہے جبکہ انصاف اور پیشۂ وکالت کا تقاضہ ہے کہ مظلوم کا ساتھ دیا جائے اور ظالم کی مدد سے گریز کیا جائے بلکہ ظالم کے مقابل مظلوم کی مدد کیلئے ڈھال بن جانا چاہئے۔ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ دور میں ان تمام چیزوں کو فراموش کردیا جارہا ہے جس سے ملت اسلامیہ میں انتشار پیدا ہورہا ہے۔ پیشۂ وکالت میں سب سے زیادہ اہمیت انصاف اور سچائی کو دی گئی ہے لیکن حلف لینے کے باوجود بھی بعض وکلاء سچائی اور ہمدردی کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ میرا یہ مضمون صرف اصلاح کیلئے جاری کیا گیا ہے اور کسی کے جذبات مجروح کرنا یا کسی کو تکلیف پہونچانا نہیں اور نہ اس کے ذریعہ کسی پر تنقید کی گئی ہے بلکہ اس کا مقصد ملت میں ایسے معاملات میں شعور بیداری پیدا کرنا ہے تاکہ دنیا و آخرت دونوں بہتر ہوسکے۔ مزید تفصیلات کیلئے فون 9959672740 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔