محمد اسد علی ایڈوکیٹ
موجودہ دور میں عوام کی بڑی تعداد قانون کی خلاف ورزی کا رجحان رکھتی ہے جبکہ قانون کے پاسبان یعنی پولیس ملازمین اس موقع پر اہم رول ادا کرسکتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عوام کی پولیس سے توقعات کی تکمیل نہیں ہورہی ہے ، اس کا سبب یہ ہے کہ پولیس اور عوام دونوں میں بھی قانون کی پاسداری کا رجحان نہیں پایا جارہا ہے ۔ اگر عوام میں شعور ہو تو قانون کی حقیقی حکمرانی ہوسکتی ہے ۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ناانصافی اور جرائم کی صورت میں عوام پولیس اسٹیشن سے رجوع ہوتے ہیں ۔ اس امید کہ ساتھ پولیس انہیں انصاف فراہم کرے گی لیکن کئی ہفتوں پولیس اسٹیشن کے چکر کاٹنے کے باوجود بعض وقت پولیس دباؤ یا کسی اور وجہ سے فریقین مخالف کی تائید کرتی ہے اور درخواست گزار کو ڈرا دھماکر
(Fake Complain)
کا عذر پیش کرتے ہوئے معاملا کو رفع دفع کردیتی ہے ۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ محکمہ پولیس تقرر کے وقت نو بھرتی ملازمین کو دستور کے تحت حلف
(Oath)
لینا پڑتا ہے کہ وہ دیانتداری سے اپنے فرض منصبی کی تکمیل کرے گا لیکن اس کے برعکس چند پولیس ملازمین کا رویہ افسوسناک حد تک جانب دارانہ ہوتا ہے اور دیکھا گیا ہے کہ متمول فریقین مخالف کی دولت کی وجہ سے اس کی بیجا تائید کی جاتی ہے اور معاملے کو دبادیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں شکایت گزار اپنے حق سے یا انصاف سے محروم ہوجاتا ہے ، اس کے علاوہ سیاسی دخل اندازی بھی پولیس کی کارکر دگی پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے ۔ حال ہی میں نظام آباد کے ایک پولیس اسٹیشن میں ایک واقعہ پیش آیا تھا ، شکایت گزار کو فریقین مخالف کے خلاف پولیس اسٹیشن میں تحریری شکایت درج کرانے کیلئے تقریباً 40 دن تک پولیس اسٹیشن کے چکر کاٹنا پڑا۔ بعد ازاں اس کیس کے ذمہ دار پولیس آفیسر نے شکایت گزار کی تحریری درخواست کو نظر انداز کر کے پولیس کے ایک جوان سے تلگو میں درخواست لکھواکر شکایت گزار سے جبراً دستخط حاصل کئے جبکہ شکایت گزار تلگو سے ناواقف ہے، ایسے کئی شکایت گزاروں کو بعض پولیس والے ڈرا دھماکر دستخط لے لیتے ہیں جو انتہائی افسوسناک بات ہے ۔ نظام آباد کے کمشنر آف پولیس سے درخواست ہے کہ شہر کے تمام پولیس ا سٹیشن پر نظر رکھے تاکہ بے قصور افراد کو انصاف مل سکے۔ ان حالات میں پولیس کو چاہئے کہ وہ جانب داری سے گریز کرے اور درخواست گزار کو انصاف فراہم کرتے ہوئے ضروری کارروائی کرے ورنہ عوام کا پولیس پر سے اعتماد ختم ہوسکتا ہے ۔
یہاں اس بات کا تذ کرہ ضروری ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل امیتابھ بچن کی فلم ’’کالیہ‘‘ آئی تھی جس میں قانون کی ناکامی اور مجرم کی کامیابی کا اظہار ہوا ہے ۔ فلم کا ہیرو امیتابھ بچن جرائم کی پاداش میں جیل کی سزا کاٹنے کے بعد رہا ہوجاتا ہے اور اسمگلنگ کی وجہ سے نہایت متمول ہوجاتا ہے ، ایک مرتبہ وہ پارٹی دیتا ہے جس میں نام نہاد بڑے بڑے لوگوں کے علاوہ پولیس کے اعلیٰ عہدیدار بھی موجود تھے، دریں اثناء پران جس نے جیلر کا رول ادا کیا تھا وہ پارٹی میں شرکت کیلئے پہنچ جاتے ہیں اور جب ان کی نظر امیتابھ پر پڑتی ہے تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہوجاتا ہے کہ سزا یافتہ مجرم بڑے بڑے پولیس عہدیداروں کے ساتھ دوستانہ انداز میں محو گفتگو ہے۔ پران اس جیل کا جیلر تھا جس میں امیتابھ بچن نے سزا کاٹی تھی۔ پران جب یہ منظر دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا، اس کی حیرانگی کو دیکھ کر اگلے ساتھی نے اس سے دریافت کیا تھا کہ وہ اس قدر محو حیرت کیوں ہے جس پر پران جو جیلر تھا اُس نے یہ الفاظ کہے تھے’’وہ رہا کالیہ جس سے آپ ملنا چاہتے تھے، دیکھ بھی لیا اور پہچان بھی لیا، اس نے جیل کی کوٹھری سے اس محل تک فاصلہ بہت جلدی طئے کیا ہے ۔ میں نے کچھ اور بھی دیکھا ہے ایس پی صاحب جو شائد آپ نے نہیں دیکھا ہے۔ ‘‘’’آج کی دنیا میں جرم کتنا کامیاب ہے اور قانون کتنا بے بس‘‘۔
موجودہ دور میں ان ڈائیلاگ کی صد فیصد تصدیق ہوئی ہے ۔ اس سلسلہ میں عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ ایسا کوئی کام ہرگز نہ کرے جس سے قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہو اور جو بھی کام کرے قانونی مشورہ سے کرے تاکہ نقصان سے بچ سکے۔