موجودہ دور کے نوجوانوں میں اخلاقی گراوٹ اور اصلاح کی ضرورت

   

محمد اسد علی ،ایڈوکیٹ
حال ہی میں ٹائمس آف انڈیا میں شائع رپورٹ کے مطابق ایک 14 سالہ لڑکا اپنے والدین کے ہمراہ ایک ڈاکٹر سے رجوع ہوا۔ واضح طور پر وہ Disturbاور فکرمند تھا۔ نویں جماعت کے طالب علم کے والدین نے بتایا کہ لڑکا سارا دن نیند میں رہتا ہے اور اس کی تعلیم بھی اس صورتحال سے بہت متاثر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر کی ترغیب پر ایک ماہر نفسیات نے ایسی بات ظاہر کی جو ان دنوں نوجوانوں میں عام طور پر پائی جاتی ہے بلکہ وہ نیند سے محروم رہا کرتے ہیں اور 14 سے 17 سال کی عمر کے لڑکوں کو روزانہ کم از کم 8 تا 10 گھنٹوں کی نیند کی ضرورت ہوتی ہے تاہم ڈاکٹرس کا کہنا ہے کہ بہت سے لڑکوں کو مناسب نیند یعنی وہ نیند سے پوری طرح مستفید نہیں ہوپاتے جس کا سبب یا تو تعلیمی دباؤ ہوتا ہے یا پھر وہ سوشیل میڈیا پر سونے سے قبل کھیلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ذہنی صحت اور رویہ جاتی علوم کے شعبہ کے ڈاکٹر سمیر پاریکھ کا کہنا ہے کہ کورونا وباء کے بعد اس قسم کے مسائل اور بھی سنگین ہوگئے ہیں کیونکہ بچوں کی جسمانی سرگرمیوں میں کمی ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نیند سے محرومی ذہنی اور اکیلے رہنے کے ساتھ صحت کے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس صورتحال میں بچوں کا موڈ بھی متاثر ہوسکتا ہے اور ان میں جارحانہ رویہ دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ نیند سے محروم افراد اور بچے لاپرواہی برتتے ہیں اور غلطیاں کرتے ہیں، کیونکہ وہ کسی چیز پر توجہ مرکوز نہیں کرسکتے ۔
Dr. Samir Parikh (Director of the department of Mental Health and Behavioural Sciences at Fortis Health Care نے بتایا کہ American Association (ATA) نے بالغ افراد میں سوشیل میڈیا کے بارے میں مشورہ جاری کیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بالغ افراد کو کم از کم 8 گھنٹوں کی نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے سونے اور جاگنے کے وقت برقرار رکھتے ہوئے اس پر توجہ دیں۔ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹیکنالوجی کا استعمال بالخصوص سونے سے ایک گھنٹہ اور اس کے علاوہ سوشیل میڈیا کا استعمال بھی نیند میں خلل پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں بالغ افراد کے دماغ میں اعصابی بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کے جذباتی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ جس سے ان کی خودکشی کا خطرہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں جائزہ میں پتہ چلتا ہے کہ نیند سے محرومی کی وجہ سے سردی اور فلو (Cold & Flu) سے مدافعت کا نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایسے لوگوں میں (Metabolic Disorders) عوارض پیدا ہوتے ہیں۔ موجودہ پرآشوب دور میں بچے اور بالغ افراد بھی رات دیر گئے تک مضر صحت سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں، جن میں غیرضروری طور پر کثرت سے موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں اور سوشیل میڈیا میں حد سے زیادہ دلچسپی ان حالات کی وجہ ہے۔ نوجوان نسل ، اخلاق اور اعلیٰ کردار سے محروم ہورہی ہے اور ان کی صحت شدید متاثر ہورہی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہوٹل بازی، گانجہ، نشیلی ادویات کا استعمال، راتوں میں چبوتروں پر بیٹھک کے علاوہ چیخنا چلاناایک عام بات ہے۔ ایسے نوجوانوں یا بچوں کو اگر کوئی روکے تو جھگڑے ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ سے لوگ خاموشی سے ان باتوں کو برداشت کرتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بچوں کے رات بھر باہر ہونے پر ماں باپ یا سرپرست اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے ہیں اور اولاد کی تربیت جو ایک مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے، اس کو بھی نظرانداز کررہے ہیں۔ والدین یا ان کے سرپرست یہ محسوس نہیں کرتے ہیں کہ نوجوانوں کی بے راہ روی کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں جبکہ خود ان کے خاندان کیلئے بھی یہ ایک تباہ کن بات ثابت ہوسکتی ہے۔ جبکہ یہ کہا جاتا تھا کہ ’’باادب بانصیب، بے ادب بے نصیب‘‘ لیکن آج کل کے نوجوانوں میں بزرگوں کا کوئی احترام نہیں ہے۔ اس قسم کی بات تعلیم یافتہ نوجوانوں کیلئے ضروری ہے لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ ہماری تہذیب و تمدن ہمیں اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ ہم اپنے بڑوں کا احترام کریں لیکن نوجوان اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ عام طور پر نابالغ بچوں کو بائیک یا موٹر سائیکل دلائی جاتی ہے اور وہ فراٹے بھرتے ہوئے سڑکوں پر رنگ رلیاں منا رہے ہیں جس کی وجہ سے آئے دن حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کے حالات کے ذمہ دار کون ہیں؟ اور اس رویے سے معاشرہ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ نوجوان ایک دوسرے کو دیکھ کر آپس میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے نہ صرف سڑکوں پر چلنے والوں کی جان خطرہ میں رہتی ہے بلکہ خود بائیک سوار بھی اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے اور غیرضروری طور پر گاڑیوں کا ہارن بجایا جاتا ہے جس سے اطراف کے لوگوں میں خلل پیدا ہوتا ہے اور اس رویہ سے حادثات بھی ہونے لگتے ہیں جبکہ ذمہ داری نوجوانوں ان کے والدین اور سرپرستوں پر عائد ہوتی ہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ تعلیم حاصل کرنے والے بعض نوجوان مختلف پبس (Pubs) کا رخ کرنے لگے ہیں اور رنگ رلیاں مناتے ہیں اور کالج اور بعض اسکول کے طلباء کبھی حقہ پارلر جیسی لعنت کا شکار ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی انہیں روکنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس سے جھگڑنے لگتے ہیں۔ حالانکہ ان حرکات سے ان کا مستقبل بھی نہ صرف متاثر بلکہ تباہ ہوجاتا ہے۔ نابالغ بچوں کے ہاتھوں میں بھی موبائیل فونس ہوتے ہیں جبکہ انہیں اچھے یا برے کی تمیز نہیں ہوتی اور یہ بات ان کے اخلاق اور ان کی زندگی پر اثرانداز ہوتی ہے۔ ماضی میں شہر حیدرآباد کو تہذیب کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا لیکن دیگر ریاستوں سے حیدرآباد آنے والے بیشتر لوگوں کی وجہ سے یہاں کا کلچر اور یہاں کی تہذیب شدید متاثر ہورہی ہے اور قتل کی سنگین وارداتیں، شراب نوشی، گٹکھا، گانجہ، حقہ، وغیرہ کا استعمال بے تحاشہ ہورہا ہے۔ ان حالات میں سرپرستوں اور والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے کردار اور ان کی دیگر سرگرمیوں پر گہری نظر رکھیں اور معاشرہ کا ہر فرد اپنی ذمہ داری سمجھ کر غلط راستہ اختیار کرنے والوں کو روکنے کی کوشش کرے تاکہ ہر شہری امن و سکون کیساتھ زندگی گزار سکے۔ بقول شاعر
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر باکبوتر باز باباز
مزید تفصیلات کیلئے اس نمبر 9959672740 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔