مودی۔شاہ جانتے ہیں پین انڈیا این آر سی کے بغیر شہریت بل علامتی ہے

   

روحی تیواری
بی جے پی یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ وہ قومی سطح پر این ار سی کی باتیں کرتے رہنا دراصل اسے دو آتشہ بنانے کے مماثل ہے جیسا کہ اس نے آسام میں کیا۔نریندر مودی کے زیر قیادت بی جے پی کی شہریت (ترمیم) بل سوائے علامتی دستخط کے کچھ بھی نہیں۔ اس بل کے ذریعہ وہ سیاسی مفادات بذریعہ ہندوؤں کو جوش دلاکر حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن یہ بل خود (بی جے پی) اس کے لئے بے معنی ہے۔ اس لئے کہ بی جے پی نے اب تک بھی اس کیلئے کوئی منصوبہ نہیں بنایا ہے کہ اس کو کس طرح لاگو کیا جائے۔ یہ بل، اپنے آپ میں نہایت خطرناک اور مخالفانہ ہے جو بی جے پی کے ہندوتوا کی بنیاد کو مضبوط کرنے کا تیقن ہے ۔ بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کے غیر مسلم پناہ گزینوں کو ہندوستانی شہریت عطا کرنے کی بات کرنا کچھ زیادہ مضبوطی عطا نہیں کرتا الایہ کہ غیر قانونی اور مشتبہ تارکین وطن کی اصل فہرست نہ بنائی جائے۔
صرف باتیں، عمل ندارد
بی جے پی اور اس کے Core ووٹر بیس کے لئے شہریت ترمیمی بل کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مسلم اور ہندو پناہ گزیں کا فرق جتلایا جائے اور اس فرق کو این آر سی کے ذریعہ بی جے پی کسی بھی وقت پیش کرنے ہمت نہیں رکھتی۔
مکار حکمت عملی
مودی۔ امیت شاہ کی قیادت کی یہ ایک سوچی سمجھی مکارانہ حکمت عملی ہے ۔ یہ شہریت بل ، کور (Core) ہندو توا کا بی جے پی ایجنڈہ میں سے ایک ہے جس میں ایودھیا میں رام مندر جموں و کشمیر میں تنسیخ آرٹیکل 370 اور یکساں سیول کوڈ شامل ہے ۔ آغاز کے دو اجزاء تو طئے پاچکے اور اب شہریت ترمیمی بل دوسرا قدم ہے جس کو بی جے پی کی کور (Core) بیس توقع کرسکتی ہے لیکن بی جے پی کے دو اہم قائدین (مودی و شاہ) یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ شہریت ترمیمی بل ، ان کاد وسرا قدم ہے اور جس میں ہندو پناہ گزینوں کو قبول کرنے اور مسلم پناہ گزینوں کو نکال باہر کی بات کئے بغیر اس (بل) کا اصل مقصد و مدعا حاصل نہ ہوسکے گا ۔ اس لئے پیان۔انڈیا این آر سی پر بیان بازی چلتی رہے اور اس پر شکوک و شبہات کا اظہار بھی ہوتا رہے۔
اس سلسلہ میں پارٹی کے پاس کوئی روڈ۔میاپ موجود نہیں ہے یا پھر مخصوص تفصیلات جو اس سے متعلق ہیں کچھ بھی ان کے پاس دستیاب نہیں ہے، سوائے اس کے کہ ایک مبہم وعدہ کہ وہ 2024 ء تک اس کو ضرور نافذ کریں گے جو آئندہ لوک سبھا انتخابات سے نہایت متصل ہے ۔ اس ذریعہ وہ ووٹرس کو لبھاکر کہ آئندہ مرتبہ لوک سبھا کیلئے ووٹ دے کر کامیاب کریں گے تو ہم اس وعدہ کو پورا کریں گے ۔ علاوہ ازیں تمام گھس پیٹھیوں کی فہرست تیار کر کے انہیں خلیج بنگال میں پھینک دیں گے اور اب یہاں دونوں محاذوں کا اندازہ کریں کہ جس میں شہریت ترمیمی بل کا فریم ورک تیار ہے اور دوسرے بی جے پی کے اس بل میں کتنا دم خم ہے اس کو اچھی طرح جانچ لیا ہے ۔ اس معاملہ میں ترمیمی بل کے لئے مودی حکومت نے ا پنے پہلے دور (حکومت) سے اس کا تعاقب کیا ہے ، اسے پارلیمنٹ میں دو بار لایا، جس پر کئی مرتبہ بات چیت ہوئی ۔ ملک بھر میں این آر سی کے مکمل نفاذ کیلئے کوئی تحریک اصلاً موجود نہیں ہے ، نہ ہی کوئی کوشش اس ضمن میں موجود ہے۔ صرف بھڑکیلے اور جذباتی نوعیت کا حامل ہے جس کی کوئی وجہ بادی النظر میں موجود نہیں ہے ۔
سی اے بی (شہریت ترمیمی بل) اور این آر سی ، ایک معمہ
بی جے پی کو آسام میں این ار سی کے نفاذ کے بعد بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ درخواستیں داخل کئے ہوئے افراد میں سے صرف 19 لاکھ افراد جو کہ درخواست گزاروں کا 6 فیصد سے کم ہوتے ہیں، فہرست میں شامل ہونے سے رہ گئے جن میں کئی لاکھ ہندو شامل تھے ۔ اب بی جے پی کیلئے نہایت کم موقع تھا کہ وہ این ار سی کو مسترد کرے چاہے وہ اس کیلئے نتیجہ ناگوار آئے ۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ این ار سی کے آسام میں نفاذ کے بعد جیسے آسام تعطل کا شکار ہوگیا ۔ حکومت کی بشمول تمام کلیدی اسکیمات ا پنے ہدف سے مرکوز ہوگئیں ۔ کیا مودی حکومت پورے ملک کو تعطل کا شکار بنانے کیلئے تیار ہوسکتی ہے ، کیا اس میں اتنی ہمت واقعتاً موجود ہے؟ اور بی جے پی قدیم ترین دستاویزات کو جو کئی دہوں پر محیط ہیں، باہر نکال کر کیا کرلے گی ۔ ان کے اصلی شہری ہونے پر حکومت کو کیا حاصل ہوگا ۔ پھر بھی آسام میں این آر سی کا نفاذ ایک لحاظ سے صحیح اس معنی میں تھا کہ وہاں نسلی کشمکش طویل عرصہ سے جاری تھی اور وہاں موجود ’بیرونی افراد‘ کی پہچان کرنے کا مطالبہ جاری تھا جو غیر قانونی طور پر وہاں فروکش تھے لیکن یہاں نریندر مودی اور امیت شاہ نے پورے ملک کے شہریوں کو بے چین کر رکھا ہے اور بشمول تمام ہندو (برادران وطن) کو اپنے ہندوستانی ہونے کا ثبوت دینے کی شرط لگائی ہے کہ وہ اس بات کا ثبوت دیں کہ آیا وہ حقیقتاً ہندوستانی ہیں ؟ بی جے پی کا یہ عمل بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہے جیسا کہ اس کی سیاست سے ظاہر ہے ۔ یہ شہریت بل اصل این ار سی سے منہا ہوتے ہوئے نافذ کرنا دراصل صرف جوا ہے اور مودی ۔ امیت شاہ دونوں ہی اس کو خالص بنیادوں پر علامتی طور پر کام کر رہے ہیں ۔