جھانوی سین
ریاست تلنگانہ کے پارلیمانی حلقہ کریم نگر میں چہارشنبہ کو بی جے پی امیدوار کی انتخابی مہم میں حصہ لیتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے انتخابی مہم میں ایک نیا مسئلہ لایا ہے اور وہ مسئلہ ’’ ایک معاملت ‘‘ ہے ۔ انہوں نے الزام عائد کیا ہیکہ کانگریس نے ملک کے بزنس ٹائیکونس گوتم اڈانی اور مکیش امبانی کے ساتھ معاملت کی ہے یہ ایسے دو صنعت کار ہیں جو ایک ہی ریاست گجرات سے تعلق رکھتے ہیں ( وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کا تعلق بھی اسی ریاست سے ہے ) اور مودی پر اپوزیشن قائدین مسلسل یہ الزام عائد کررہے ہیں کہ انہوں نے ان دونوں صنعت کاروں کے ہاتھوں ملک فروخت کردیا ہے۔ مودی کا اپنے خطاب میں یہ کہنا تھا کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کانگریس کے شہزادہ ( راہول گاندھی ) نے گزشتہ 5 سال ایک ہی رٹ لگاتے ہوئے گزارے دراصل رافل معاملت کے ساتھ ہی ان لوگوں ( کانگریسیوں اور دوسرے اپوزیشن قائدین نے نیا رونا رونا شروع کردیا ، 5 برسوں تک وہ بار بار 5 صنعتکار ، 5 صنعتکار ، 5 صنعتکار دہراتے رہے ۔ آہستہ آہستہ ان کے لب و لہجہ میں تبدیلی آئی 5 صنعت کاروں کی بجائے وہ امبانی ۔ اڈانی ، امبانی ۔ اڈانی کہنے لگے اور جیسے ہی انتخابات کی تواریخ کا اعلان کیا گیا شہزادہ نے امبانی ۔ اڈانی مخالفت میں کہنا روک دیا ایسے میں تلنگانہ کے اس ضلع سے وہ ( مودی ) راہول سے پوچھ رہے ہیں کہ خاموشی اختیار کرنے انہوں نے امبانی ۔ اڈانی سے کتنی رقم وصول کی ہے اور انہوں نے دونوں صنعتکاروں سے سیاہ دولت ( بلیک منی ) کے کتنے تھیلے وصول کئے ہیں ۔ مودی کا یہ الزام بالکل غلط ہے 24 اپریل کو صدر کانگریس ملک ارجن کھرگے نے صاف طور پر کہا تھا کہ آج ملک میں جو ہورہا ہے وہ یہ ہیکہ دو فروخت کنندہ ہیں اور دو خریدار ہیں آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ صدر کانگریس نے دو فروخت کنندگان کی جو بات کہی ہے اس سے مراد مودی اور امیت شاہ اور خریداروں سے مراد امبانی اور اڈانی ہیں ۔ 12 اپریل کو کوئمبتور میں ایک انتخابی ریالی سے خطاب کرتے ہوئے راہول گاندھی نے پر زور انداز میں کہا تھاکہ نریندر مودی اور اڈانی کی پالیسیوں نے دو Indias بنادیئے ہیں ایک ارب پتیوں کا انڈیا اور ان کی بڑھتی دولت ، بھارت جوڑو یاترا کے دوران راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ مودی حکومت میں ارب پتیوں کی دولت میں بے تحاشہ ( کئی گنا اضافہ ) ہورہاہے اور دوسرا غریبوں کا انڈیا ۔ جہاں تک مودی کا اڈانی اور امبانی سے متعلق راہول گاندھی کی جانب سے خاموشی اختیار کرنے کا الزام ہے مودی درست ہیں کیونکہ اڈانی اور امبانی کو لیکر ہندوستانی عوام بہت فکر مند بلکہ تشویش میں مبتلا ہیں اور اپنی مرضی و خواہش کے مطابق نئی حکومت کیلئے ووٹ دیتے ہوئے یہ لوگ یقیناً اس مسئلہ کو سنجیدہ لیں گے ۔ انڈیا ٹو ڈے کے موڈ آف دی نیشن پول میں جو جاریہ سال کے اوائل میں جاری کیا گیا واضح طور پر کہا گیا کہ 52 فیصد لوگوںکا یہ ماننا ہے کہ مودی حکومت بڑے تاجرین اور صنعت کاروں کو زیادہ سے زیادہ مدد پہنچانے کیلئے اقتصادی پالیسیاں تیار کررہی ہیں اور انہیں اپنا رہی ہے اگر دیکھا جائے تو جو سب سے پہلا نکتہ ہے وہ اس طرح ہے ۔
-1 اڈانی اور ا مبانی کی دولت میں اضافہ ہندوستانی معیشت اور عام لوگوں کیلئے پریشانی ہے ۔ ہم اگر پچھلے دس برسوں کے دوران اڈانی اور امبانی کی دولت کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ پچھلے دس برسوں میں یہاں تک کہ کووڈ 19- کی عالمی وباء کے دوران بھی ان کی دولت میں قابل لحاظ اضافہ ہوا حالانکہ اس وقت ملک کی معیشت تعطل کا شکار ہوگئی تھی اور کروڑوں ہندوستانی ایک آمدنی کا ذریعہ حاصل کرنے جدوجہد سے دوچار تھے ۔ آپ کو بتادیں کہ فی الوقت امبانی ایشیا کے دولت مند ترین شخص ہیں اور ان کے بعد بلکہ ان سے بالکل قریب اڈانی ہیں اس کے علاوہ دنیا کے 15 سرفہرست متمول شخصیتوں میں بھی دونوں ( اڈانی اور امبانی ) کے نام شامل ہیں ۔ اس کے برعکس ہندوستانی معیشت سست روی کا شکار ہے ۔ گھریلو بچت میں کم ہوگئی ہے ، حقیقی تنخواہیں گراوٹ کا شکار ہیں اور نوجوانوں میں تشویشناک حد تک بیروزگاری پائی جاتی ہے ۔ دوسرا نکتہ یہ ہے ۔
-2 اڈانی کی کمپنیوں پر مارکٹ کے استحصال کے عالمی اور قومی سطح پر متعدد الزامات عائد کئے گئے اور اس تعلق سے کی جارہی تحقیقات سست روی کا شکار ہے ۔ امریکی شارٹ سیلز ہنڈبنرگ ریسرچ نے اڈانی اور ان کی کمپنیوں کی بدعنوانیوں سے تعلق رپورٹ جاری کئے 15 ماہ کا عرصہ گذر چکا ہے ۔
-3 ٹی ایم سی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا کا پارلیمنٹ سے اخراج :ترنمول کانگریس کی لیڈر مہوا موئترا کو لوک سبھا رکنیت سے برطرف کردیا گیا جس پر مودی حکومت کو اپوزیشن قائدین کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جن میں یہ کہا گیا کہ مودی حکومت نے مہوا موئترا کو اس لئے نشانہ بنایا کیونکہ اڈانی گروپ کے غلط کاموں کو نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ پارلیمنٹ میں اس مسئلہ کو بڑی شدت سے اُٹھایا خاص طور پر اڈانی گروپ کے بارے میں انہوں نے زبردست سوالات اُٹھائے لیکن افسوس کے مودی حکومت نے موئترا کے اُٹھائے گئے سوالات میں سے کسی بھی ایک سوال کا جواب تاحال نہیں دیا ۔ دوسری طرف راہول گاندھی نے بھی یہی الزام عائد کیا تھا کہ پارلیمنٹ کی رکنیت کیلئے انہیں نااہل قرار دیا گیا ( یہ اور بات ہیکہ بعد میں ان کی پارلیمانی رکنیت بحال کردی گئی ) اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنی تقاریر میں اڈانی گروپ کی بدعنوانیوں کے 6 حوالے دیئے گئے۔ چوتھی اہم نکتہ یہ ہے ۔
-4 حکومت پر طرفداری کے الزامات : اکثر یہی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ نریندر مودی حکومت اڈانی ، امبانی اور اپنے قریبی دوست صنعت کاروں کے مفادات کی نگہبانی کرتی ہے اور جو بھی اقدامات مودی حکومت نے کئے وہ صنعت کاروں کے مفادات میں کئے گئے مثال کے طو رپر تین سیاہ زرعی قوانین ( کسانوں کے احتجاج کے بعد ان خواتین بلز کو واپس لے لیا گیا ) ۔ اس کے علاوہ طیرانگاہوں کو خانگیانہ ، کانکنی کے قواعد وغیرہ وغیرہ جس سے صنعت کاروں کو فائدہ حاصل ہوا ۔ ( حد تو یہ ہیکہ اپوزیشن نے اور دیانتدار میڈیا نے مودی حکومت پر یہ الزام عائد کیا کہ اس نے صرف 26 صنعت کاروں کے 16 لاکھ کروڑ روپئے معاف کئے جبکہ کسانوں کے قرض معاف کرنے سے بڑی بے شرمی سے انکار کیا ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ مودی حکومت کو کسانوں کی نہیں بلکہ اپنے دوست صنعت کاروں کی فکر لاحق ہے ۔