رامچندر گوہا
حکمراں بی جے پی اور سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس کے درمیان لفظی جنگ اور الزامات و جوابی الزامات کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ کسی بھی ناکامی کیلئے بی جے پی قائدین بالخصوص وزیراعظم نریندر مودی کانگریس اور ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور آنجہانی اندرا گاندھی کو بھی شدید نکتہ چینی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر ایمرجنسی کیلئے مودی جی سے لیکر بی جے پی کا ہرچھوٹا بڑا لیڈر آنجہانی اندرا گاندھی اور کانگریس کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں ۔ واضح رہے کہ 25 جون 1975 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی اور مودی حکومت میں ہر25جون کو ایمرجنسی کی یاد کے نام پر کانگریس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے چنانچہ 25جون 2025 کو ایکس ( سابق ٹیوٹر) پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے مودی نے اسے ہندوستانی تاریخ کا سیاہ باب اور دستور کی خلاف ورزی قرار دیا ۔ انہوں نے کانگریس پر جمہوریت کو یرغمال بنانے کا الزام عائد کیا گیا ۔ انہوں نے ایمرجنسی کے خلاف آواز اٹھانے اور لڑنے والوں کی قربانیوں پر روشنی ڈالی ۔ مودی کے مطابق کانگریس نے ایمرجنسی کے ذریعہ جمہوریت کو اسیر بنایا تھا ۔ 42 ویں ترمیم کانگریس کی چالبازی اور جمہوریت دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ بی جے پی لیڈروں بشمول مودی کے خیال میں سمویدھان ہتیا دیوس (دستور کے قتل کا دن ) کے طور پر منایا جانا چاہیئے کیونکہ ایمرجنسی کے دوران صحافتی آزادی کو دبایا گیا ، سیاسی قائدین ، حکومت کے مخالفتین ، سماجی جہدکاروں ، طلبہ اور عام شہریو ں کو بھی جیلوں میں ٹھونساگیا ۔ بہرحال جیسے ہی ماہ جون آیا اس کے اوائل کے چند دنوں میں کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے سوشل میڈیا بالخصوص ایکس پر اپنے روزانہ کے پیامات میں ’ ایمرجنسی کے گیارہ سال ‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کرنا شروع کیا ۔ ان پیامات یا بیانات کے ذریعہ وہ ایوان اقتدار میں بیٹھے لوگوں ، حکومت پر مختلف کوتاہیوں ، غلطیوں اور یہاں تک کہ جرائم کے الزامات عائد کرتے رہے ۔ اگر دیکھا جائے تو جئے رام رمیش کا یہ اقدام اس چیز کا پہلے ہی سے منہ توڑ جواب دینے کیلئے تھا جس کے بارے میں وہ مانتے تھے کہ ماہ جون کے اوآخر میں واقع ہوگی مطلب مودی حکومت کی جانب سے ایمرجنسی کی 50ویں یاد یا برسی منائی جائے گی اور پھر کانگریس کو نشانہ بنایا جائے گا ۔ آنجہانی اندرا گاندھی نے 50سال قبل ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تھی ۔ مذکورہ ہیش ٹیگ کے ذریعہ جئے رام رمیش عوام کو یہ تاثر دینے میں مصروف رہے کہ اندرا گاندھی نے جو ایمرجنسی نافذ کی اس کی مدت دو سال سے بھی کم رہی لیکن مودی کا آمرانہ دور حکومت 10سال سے زائد عرصہ سے جاری ہے ۔
جہاں تک راقم الحروف کا سوال ہے اندرا گاندھی کے دور وزارت عظمی میں ہوا تھا اور دلچسپی کی بات یہ ہیکہ اب نریندر مودی کے دور وزارت عظمی میں ضعیف العمر ہورہا ہوں ۔ اپنے اس کالم میں راقم آنجہانی اندرا گاندھی اور نریندر مودی دونوں کی سیاسی میراث کا تقابل کریں گے جو نجی تجربہ اور علمی تحقیق پر مبنی ہوگا ( میں دونوں کی اقتصادی اور خارجہ پالیسیوں کی وراثت کا جائزہ اقتصادی ماہرین اور خارجہ پالیسی پر گہری نظر رکھنے والوں پر چھوڑوں گا جو ان موضوعات کو مجھ سے کہیں زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ) ۔ کسی بھی مورخ کیلئے ان دونوں وزرائے اعظم کے درمیان 5 حیران کن مشترکہ باتیں یا مماثلتیں پائی جاتی ہیں حالانکہ آنجہانی اندرا گاندھی اور نریندر مودی میں وقت اور نظریات سے وابستگی کا فرق پایا جاتا ہے اس کے باوجود دونوں میں کم از کم 5 مماثلتیں پائی جاتی ہیں ۔ ان میں پہلی مماثلت پائی جاتی ہے وہ یہ کہ اندرا گاندھی نے نہ صرف اپنی پارٹی بلکہ سارے ملک میں خود کی ایک بلند قامت لیڈر کے طور پر شبیہہ بنائی تھی اور شخصیت پرستی کو فروغ دیا تھا ۔ مودی نے اندرا کی طرح خود کی ایک بلند قامت شبیہہ بنائی اور شخصیت پرستی کے کلچر کو فروغ دیا جہاں وہ اپنے آپ کو پارٹی ، حکومت اور ملک و قوم کا صرف اور صرف ایک نمائندہ بناکر پیش کرتے ہیں ، وہ عوام کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ ملک و قوم کے وہ واحد نمائندہ ہے اور اس معاملہ میں کوئی بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ Cult یا حد سے زیادہ شخصی عقیدت عوامی خزانہ سے چلتی ہے اور ان کے ارد گرد موجود چاپلوس عناصر کے ذریعہ مزید چمکائی جاتی ہے ۔ اندرا گاندھی کے اردگرد چاپلوسوں کی کمی نہیں تھی اور نریندر مودی کے اطراف ایسے بھکتوں کی کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی ۔ ان دونوں میں جو دوسری مماثلت پائی جاتی ہے اندرا گاندھی نے جمہوریت کیلئے انتہائی ضروری اداروں کو کمزور کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا ، مودی نے بھی اس معاملہ میں اندرا گاندھی کی روش اختیار کی اور ان اداروں کو کمزور کرنے میں کافی محنت کی جن کاآزادانہ و شفاف انداز میں کام کرنا ، جمہوریت کیلئے نہایت ضروری ہے ۔ جب ہم اندرا گاندھی کی سیاسی زندگی پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ملک کی ایسی وزیراعظم تھیں جنہوں نے سب سے پہلے وفادار نوکر شاہی اور وفادار عدلیہ کے بارے میں بات کی اور حیرت و دلچسپی کی بات ہیکہ اندرا گاندھی کے اسی نظریہ اور اصطلاح کو مودی نے بھی اپنایا ۔ اندرا گاندھی نے ذرائع ابلآغ کو سچائی چھپانے پر مجبور کیا جبکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہیکہ مودی سچ عام کرنے کی بجائے میڈیا کو جھوٹ پھیلانے کیلئے اکساتے ہیں ، یہ بھی ایک حقیقیت ہے کہ موجودہ دور کی بیورو کریسی یا نوکر شاہی 1970 کی دہائی کی نوکر شاہی سے زیادہ آزاد نہیں ہے ۔ ہمارے ملک کے جو تحقیقاتی ادارے ہیں سیاسی مخالفین کو خاموش کرانے کیلئے ان کا پہلے سے کہیں زیادہ استعمال ہورہا ہے ۔ ہندوستانی نظام میں وزیراعظم کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور برابر والوں میں اسے پہلا تصور کیا جاتا ہے لیکن وہ ( چاہے خاتون وزیراعظم ہو یا مرد وزیراعظم ) اس طرح وہ کسی طاقتور صدر کی طرح کام نہیں کرسکتے ۔ اس کے باوجود اندرا گاندھی نے مشاورت سے کام کرنے کی بجائے یکطرفہ کام کیا ، ہاں اندرا اپنے دور اقتدار میں صرف ایک شخص کے مشورہ کو بہت سنجیدگی سے لیتی تھیں اور وہ پی این ہسکرتھے اوران کے بعد سنجے گاندھی تھیجن کے مشور وں کو وہ قبول کرتی تھیں چونکہ وہ اندرا گاندھی کے فرزند تھے اس لئے اندرا گاندھی ان کا مشورہ بھی قبول کرتی تھیں ۔ اندراگاندھی کی طرح مودی بھی کسی اور کے مشورے قبول نہیں کرتے بلکہ من مانی کرتے ہیں ، وہ صرف ایک شخص کے مشورہ پر عمل کرتے ہیں اور وہ امیت شاہ اور صرف امیت شاہ ہیں جن پر مودی بھروسہ کرتے ہیں اور دلچسپی کی بات یہ ہیکہ امیت شاہ بھی اپنے باس کی طرح غیر شفاف ،آمرانہ طرز حکمرانی کے کٹر حامی ہیں ۔ اندرا گاندھی اور مودی میں جو چوتھی مماثلت پائی جاتی ہے اندرا گاندھی کی طرح مودی نے بھی وفاقیت کو کمزور کرنے کی کوشش کی ۔ اندرا گاندھی نے غیر کانگریسی حکومتوںکو گرانے کیلئے انہیں زوال سے دوچار کرنے باالفاظ دیگر برطرف کرنے کیلئے دفعہ 356 کا بے دریغ اسعمال کیا ۔ ہر دفعہ ان کیلئے اپوزیشن کی زیر قیادت حکومتوں کو برطرف کرنے کا ایک ہتھیار تھا اگر ہم مودی کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ انہوں نے غیر بی جے پی حکومتو ں کو کمزور کرنے گورنر کے غیر جانبدارانہ دفتر کا استعمال کیا اور کررہے ہیں ۔ مودی اور شاہ کی زیر قیادت بی جے پی نے اپوزیشن جماعتو ں کو توڑنے اور عوام کی زبردست تائید و حمایت سے بننے والی حکومتو ں کی جگہ بی جے پی کی حکومتیں قائم کرنے کیلئے اپنے بدنام زمانہ واشنگ مشین کا استعمال کیا ( اس بارے میں چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی کا کہنا ہیکہ بی جے پی کے پاس ایسی واشنگ مشین ہے جو داغدار سیاستدانوں کی بدعنوانیوں کے داغ دھبوں کو پوری طرح صاف کردیتی) ۔ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو بی جے پی میں شامل ہوتے ہی اس مشین میں ڈال کر صاف کردیا جاتا ہے ۔ اندراگاندھی اور مودی کے درمیان جو پانچویں مماثلت پائی جاتی ہے وہ یہ ہیکہ اندرا گاندھی کی طرح مودی نے بھی اپنی حکمرانی کو مضبوط و مستحکم بنانے شدت پسندی سے بھرپور قوم پرستی کو فروغ دیا ۔ اندرا کی طرح انہوں نے اپنی پارٹی ، ریاست اور میڈیا کو یہ دعویٰ کرنے کیلئے استعمال کیا کہ صرف وہی ہندوستان کی نمائندگی کرتے ہیں اور ہندوستانی عوام کی خواہشات و تمناؤں کا بھی وہی اظہار کرسکتے ہیں ، وہی ان کی بہتری کے خواہاں ہیں ۔ مودی عوام کو یہ بھی تاثر دیتے ہیں کہ ان پر اور ان کی حکومت پر جو تنقیدیں کی جارہی ہیںانہیں بدنام کیا جاتا ہے وہ دراصل بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر کیا جاتا ہے ۔ اندرا گاندھی بھی اپنے مخالفین کو مغربی طاقتوں کے ایجنٹس کہا کرتی تھیں ۔ انہوں نے جئے پرکاش نارائن جیسے محب وطن اور عوامی ہر دلعزیز لیڈر کو مغربی طاقتوں کا آلہ کار کہا تھا ۔ اب بی جے پی کا جو ایکوسسٹم ہے وہ قائد اپوزیشن راہول گاندھی کو جارج سورس کے تنخواہ یاب کہتا ہے ۔اس قسم کی مماثلت اندراگاندھی اور مودی میں پائی جاتی ہیں جو میںنے دیکھی ہیں ۔ اب میں دونوں کے درمیان پائے جانے والے فرق کے بارے میں بتانا چاہوں گا ۔ پہلا فرق یہ ہیکہ اپنے آمرانہ انداز کے باوجود اندرا گاندھی نے دستور میں موجود ہندوستان کی کثیر الجہتی کے تصور کی پاسداری کی جہاں زبان ، مذہب اور نسل کی بنیاد پر شہریت کا تعین نہیں کیا جاتا بلکہ دستور ہندنے بلالحاظ مذہب و ملت ، رنگ و نسل ، ذات پات و علاقہ تمام ہندوستانی شہریوں کو مساویانہ حقوق عطا کئے ہیں ۔ اس بارے میں آپ کو یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ پنڈت جواہر لال نہرو جیسے سیکولر وزیراعظم نے جو اندرا سے کہیں زیادہ اصول پسند اور سیکولر تھے ،کانگریس کی زیر قیادت والی ریاستو ں میں ایک بھی مسلم کو چیف منسٹر نہ بناسکے ۔ ان کے برعکس اندرا گاندھی نے ایک نہیں بلکہ چار مسلمانوں کو چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز کیا ، یہ بھی مشہور ہیکہ اندرا گاندھی نے اپنے سکھ باڈی گارڈس کو برخواست کرنے سے انکار کردیا تھا اور اس اصول پر اپنی زندگی گنوا دی ۔ دوسری طرف نریندر مودی اکثریت حامی ہیں جن کا اندازہ ان کے بھکتوں کے ہندو راشٹر کے مطالبہ سے ہوتا ہے ۔