مودی بھکتوں کیلئے اوباما اب برے کیوں ہوگئے؟

   

روش کمار
وزیراعظم نریندر مودی سابق امریکی صدر براک اوباما سے اپنی دوستی اور قربت کے بارے میں بڑا فخر کرتے اور فخریہ انداز میں اُسی دوستی کا ذکر کرتے تھے۔ اب مودی کے وزراء اُس براک اوباما کے خلاف سخت الفاظ پر مشتمل مذمتی بیانات جاری کررہے ہیں۔ سابق امریکی صدر پر تنقید اور ان کی مذمت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اصل میں ہوا یہ کہ براک اوباما کے ایک بیان سے مودی حکومت پریشان ہوگئی ہے کچھ کا کچھ جواب دیئے جارہی ہے۔ ہندی کا سوال پوچھا جارہا ہے اور جواب میں سنسکرت کے اشلوک لکھے جارہے ہیں۔ حکومت کے وزراء کے مذمتی بیانات میں بھی ایک احتیاط پائی جاتی ہے وہ سیدھے سیدھے امریکہ کی مذمت نہیں کررہے ہیں بلکہ براک اوباما کی مذمت کررہے ہیں۔ اگر مرکزی وزیرفینانس نرملا سیتارامن کا یہ کہنا ماسٹر اسٹروک ہیکہ اوباما کے دورصدارت میں 6 مسلم ملکوں پر بموں کی بارش کی گئی تو آپ یہ پوچھئے کہ اس بیان پر کسی مسلم ملک نے بھارت کے بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔ مسلم ملکوں کی خاموشی کس کو مسلم دشمن یا مسلم مخالف بتارہی ہے۔ جواب کا تصور کیجئے ہاں ایک اور احتیاط برتی جارہی ہے وہ یہ ہیکہ مرکزی وزارت خارجہ وزیرخارجہ اور معتمدخارجہ مذمت نہیں کررہے ہیں۔ وزیرخارجہ ایس جئے شنکر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اوباما کوئی منوج منتشر نہیں ہے اب پوچھئے منوج منتشر کا نام کیوں لے لیا؟ یقین نہ ہو تو 2018ء کے اخبارات میں شائع ان خبروں پر پھر سے نظر ڈالدیجئے تب خبروں میں اوباما کی زبردست تعریف و ستائش کی گئی تھی۔ ان خبروں میں بتایا تھا کہ براک اوباما ہندو مذہب سے کتنا پیار کرتے ہیں لیکن اپنی جیب میں ہنومان کی چھوٹی سی مورتی رکھنے والے بھگت اوباما کو چیف منسٹر آسام ہیمنت بسواسرما نے حسین اوباما کہہ دیا اور کہا کہ بھارت میں کئی حسین اوباما ہیں ان کے خلاف اب آسام کی پولیس اپنی ترجیحات کے مطابق کام کرے گی۔ براک حسین اوباما یہ پورا نام ہے مگر آپ جب حسین اوباما کہتے ہیں تو اس کا لب و لہجہ بتاتا ہے کہ ارادہ کیا ہے۔ صدر کے عہدہ سے ہٹنے کے بعد اوباما مست زندگی گذار رہے ہیں۔ دنیا بھر سے گھوم پھر کر لکچرس دیتے ہیں اور ان لکچرس کیلئے لاکھوں کروڑوں کی فیس لیتے ہیں۔ لوگ انہیں سننے کیلئے پیسے دے رہے ہیں۔ اوباما فاونڈیشن بنا کر کئی نسل کی قیادت تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ براک بھلے ہی میرا چیانل دیکھتے ہیں اور نہ ہی انہوں نے ملین ڈالر دے کر میرے چینل کو جوائن کیا ہے لیکن اس سے ناراض ہوکر میں انہیں فالتو آدمی نہیں کہہ سکتا۔ ٹوئیٹر پر اوباما کے 13 کروڑ فالوورس ہیں اور ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کے 9 کروڑ فالوورس ہیں۔ ظاہر سی بات ہیکہ اوباما کے بیان کو لیکر تبصرے ہونے تھے اوباما نے صرف بھارت کے مسلمانوں کو لیکر بیان نہیں دیا ہے بلکہ 27 مئی کو ان کا ایک ٹوئیٹ ہیکہ یہودیوں کے خلاف امریکہ یں جو حملے ہورہے ہیں اس پر سب کو چوکس ہوجانا چاہئے۔ کسی بھی طرح کی نفرت کی اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے ہم سب کو اس خطرہ سے لڑنا ہوگا تو اوباما نے صرف مسلمانوں کے حق میں بات نہیں کی ہے۔ امریکہ میں یہودیوں کے خلاف بڑھتی نفرت پر بھی اظہارخیال کیا ہے۔ جو آدمی امریکہ کا صدر رہا ہو، امریکہ میں یہودیوں کے خلاف نفرت کی لہر پھیل رہی ہے اسے لیکر مذمت کرتا ہو وہی آدمی بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہورہی ناانصافیوں اور تشدد کے خلاف بول سکتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف تشدد اور امتیاز پر براک اوباما نے کچھ کیا کہدیا کہ انہیں مخالف مسلم ثابت کیاجانے لگا۔ ہے نہ کمال، یہ بوکھلاہٹ ہے یا بچپن آپ طئے کریں۔ نرملا سیتارامن اور ہیمنت بسوا سرما سے امید کی جاسکتی تھی کہ وہ کم از کم براک اوباما کے اس احسان کو تو یاد رکھتے کہ مسلم مخالف فسادات کے باعث مودی جی پر امریکہ نے جو پابندی عائد کی تھی اسے براک اوباما نے ہی ہٹایا تھا تب حسین اوباما نہیں تھے تب انہوں نے مسلم ملکوں پر بم نہیں گرایا تھا تب وزیراعظم مودی نے اکشے کمار سے انٹرویو میں کہا تھا کہ اوباما سے ان کی بہت گہری دوستی ہے کیا بات ہے اوباما جب بھی ملتے ہیں تو کم سونے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ تو ایسا کیا کرتا ہے! براک اوباما سے وزیراعظم مودی کی اس سطح کی دوستی رہی ہے۔ آج ان کے وزراء اوباما کی دھلائی کرنے لگے ہیں اب تو اتنا کہنا باقی ہے کہ اوباما کے بھارت کے دورہ پر مودی جی نے فضول میں اتنے پیسے خرچ کردیئے۔ 2015ء کی سردی میں حیدرآباد ہاؤس کے سبزہ زار پر مودی نے اوباما کو اپنے ہاتھوں سے بنا کر جو چائے پلائی وہ بیکار گئی، انہیں لیمو پانی پلانا چاہئے تھا۔ براک کے خیرمقدم میں مودی جی نے ایسا مہنگا سوٹ پہنا جس کا کپڑا خاص طور پر ان کیلئے تیار کیا گیا تھا اس پر ان کا نام لکھا تھا گارجین سے لیکر تمام اخبارات نے اس پر طنز کیا اور راہول گاندھی نے سوٹ بوٹ کی سرکار کا لیبل ایسا چپکایا کہ سوٹ کو اتار کر اس کی نیلامی کرنی پڑ گئی۔ نرملا سیتارامن سے لیکر راجناتھ سنگھ سے میرا ایک سوال ہے، سوال ان صحافیوں اور سیاستدانوں سے بھی ہے جو سبکدوشی کے بعد خارجہ پالیسی کے ماہر بن جاتے ہیں اور لکھنے لگ جاتے ہیں جو آج اوباما کی حملہ آور بیانات کو لیکر اس کی اوقات دکھانے لگ گئے ہیں۔ ان تمام سے میرا سوال ہیکہ وہ بس اتنا دکھادیں کہ اوباما کو جب 2015ء کے جشن آزادی تقریب کیلئے مہمان خصوصی بنایا گیا انہوں نے یہ سب لکھا تھا کہ 26 ہزار بم گرانے والے کو یوم آزادی تقریب کا مہمان خصوصی کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ اوباما کو ملک میں 21 توپوں کی سلامی دی جارہی تھیں۔ راشٹرپتی بھون میں تب پرنب مکرجی نے مہاتما گاندھی کی پسندیدہ دعاؤں میں سے ایک کا حصہ سنایا جسے آگے چل کرجشن آزادی کی تقریب سے ہٹادیا گیا۔ برسوں پرانی یہ روایت ختم کردی گئی اس پرارتھنا کا ایک مطلب یہی تھا کہ تاریکی میں جب ہم دونوں کوئی ایک دوسرے کی طرف دیکھتے تو کوئی ایک ضرور کہدے کہ مجھ پر بھروسہ رکھنا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ جو ہورہا ہے اسے لیکر اگر وہی اوباما کچھ کہہ رہے ہیں تو ان پر برہم ہونے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ جو ہورہا ہے اسے روک دینے کی ضرورت ہے لیکن اب تو وہ پرارتھنا بھی نہیںہے اور نہ اوباما امریکی صدر ہیں۔ بھارت میں گودی میڈیا پر رات دن مسلم دشمن مباحث چلتے رہتے ہیں۔ سڑک پر دھرم سنسد کے نام پر مسلم دشمن نعرے بازی ان کے قتل عام کے نعرے لگتے ہیں کہ نہیں لگتے اور گاورکھشا کے نام پر مسلم نوجوانوں کو گھیر کر ماردیا جاتا ہے۔ ان قتلوں سے آپ کیسے انکار کرسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی بے شمار تنقیدی ریمارکس ہیں۔ کیا یہ سب کچھ جھوٹ ہے؟ اوباما نے جو کچھ کہا کیا وہ سپریم کورٹ کے تنقیدی ریمارکس سے الگ ہے۔ جنوری 2024ء میں ملک بھر میں پروگرامس ہونے والے ہیں اور کیا پتہ اس ایک موضوع پر انتخاب لڑا جائے گا لیکن کورٹ کیلئے فیصلہ تو مسجد بنانے کیلئے ہی دیا اگر دونوں ساتھ ساتھ بنتے تو مودی حکومت پر بھروسہ بلندیوں پر پہنچ جاتا لیکن گودی میڈیا اس مسجد کے بارے میں نہیں بتاتا۔