پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیرداخلہ و فینانس
وزیراعظم نریندر مودی آج کل مختلف شخصیتوں کو فرداً فرداً مبارکباد دیئے جارہے ہیں اور بار بار مبارکباد دیئے جارہے ہیں۔ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں، اس بارے میں ہم اور آپ سب جانتے ہیں لیکن ایک شخصیت کو دو دو بار اور بار بار مبارکباد آخر کیوں دی جارہی ہے۔ اس کے پیچھے کارفرما وجوہات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں انھوں نے امریکی صدر کو صرف 4 دن میں دو مرتبہ مبارکباد پیش کی اور ان کی تعریفوں کے پُل باندھ دیئے جو یقینا غیرمعمولی بات تھی یعنی مودی جی کی امریکی صدر کو مبارکباد معمول سے ہٹ کر بات تھی۔ انھوں نے کسی فرد کی تعریف نہ صرف ایک بلکہ دو بار کی اور وہ بھی چند دن کے وقفہ میں مودی نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو پہلے اسرائیل ۔ حماس جنگ بندی کے لئے 20 نکاتی منصوبہ پیش کرنے کے لئے مبارکباد دی اور کہاکہ ٹرمپ اپنے امن منصوبہ کیلئے قابل مبارکباد ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے امن منصوبہ پیش کرنے کا مقصد دو سال سے زائد عرصہ سے جاری اسرائیل ۔ حماس جنگ ختم کرنا تھا۔ واضح رہے کہ 30 ستمبر کو مسٹر مودی نے صدر ٹرمپ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کے پیش کردہ 20 نکاتی امن منصوبہ کو غزہ کے تنازعہ کا ایک جامع منصوبہ قرار دیا۔ مسٹر نریندر مودی نے یہ بھی کہا تھا کہ ٹرمپ کا امن منصوبہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کیلئے امن و امان کا ایک پائیدار راستہ فراہم کرتا ہے۔ دیرپا امن، سلامتی اور ترقی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ساتھ ہی مغربی ایشیاء کے سارے خطہ کے عوام کے لئے بھی یہ معاہدہ ایک راحت کا باعث بنے گا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مسٹر مودی نے ٹرمپ اور ان کے امن منصوبہ کی تعریف و ستائش پر مبنی اپنا بیان ایک نہیں دو نہیں بلکہ سات زبانوں میں جاری کیا جن میں عربی، چینی زبان مندارین، انگریزی، فرنچ، روسی، ہسپانوی، عبرانی اورہندی جیسی زبانیں شامل ہیں۔ عربی میں بیان جاری کرنے کا مقصد عربوں کو اور عبرانی میں بیان جاری کرنے کا مقصد اسرائیلیوں یا یہودیوں کو خوش کرنا تھا۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ 30 ستمبر کے بعد 4 اکٹوبر کو مسٹر نریندر مودی نے ایک اور بیان جاری کرتے ہوئے ٹرمپ کی کچھ اس طرح ستائش کی ’’ہم امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت کا خیرمقدم کرتے ہیں کیوں کہ غزہ میں امن کے لئے ٹرمپ کی کوششوں میں نمایاں پیشرفت ہورہی ہے‘‘۔ جب میں یہ کالم تحریر کررہا ہوں تب تک حماس اور اسرائیل اس امن منصوبہ کے پہلے مرحلہ یعنی جنگ بندی پر متفق ہوگئے ہیں۔ (اسرائیلی کابینہ نے ٹرمپ کے امن منصوبہ کی توثیق کرتے ہوئے اسے منظوری بھی دے دی ہے اور جنگ بندی پر عمل آوری شروع ہوگئی ہے) اس معاہدہ کے تحت حماس اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گا۔ اس بات کی اطلاعات ہیں کہ حماس کے قبضہ میں صرف 20 اسرائیلی یرغمالی ہیں جو زندہ بچ گئے ہیں۔ حماس اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گا اور اسرائیل جنگ بند کردے گا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ حماس نے ٹرمپ کے منصوبہ کے کئی پہلوؤں یا نکات کو ہنوز قبول نہیں کیا ہے۔ اس نے پرزور انداز میں کہہ دیا ہے کہ وہ غزہ کو کسی بیرونی اتھاریٹی کے کنٹرول میں دینے کی سخت مخالف ہے۔
ظاہر ہے یہ سوال فطری ہے کہ آخر مسٹر مودی نے امریکی صدر ٹرمپ کو خوش کرنے اور ان کی تعریف و ستائش کرنے میں اتنی جلد بازی اور بے چینی کا مظاہرہ کیوں کیا جبکہ ٹرمپ نے 20 جنوری 2025ء کو بحیثیت امریکی صدر اپنے عہدہ کا حلف لینے کے بعد ہندوستان کو ذلیل و رُسوا کیا اور اپنے عجیب و غریب اقدامات باالفاظ دیگر غیر منصفانہ اقدامات کے ذریعہ زک پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ اپنی پہلی صدارتی میعاد (2017-2021) مسٹر ٹرمپ نے ہندوستان اور دوسرے ممالک کی مختلف مصنوعات پر ٹیرف عائد کرتے ہوئے نشانہ بنایا۔ مثال کے طور پر ٹرمپ نے اس وقت فولاد یا اسٹیل پر 25 فیصد المونیم پر 10 فیصد ٹیرف عائد کیا جبکہ ہندوستان کو ملنے والے GSP فوائد کو بھی ختم کردیا۔ 2020ء میں ٹرمپ نے ویزوں کے اُن مختلف زمرہ جات کو ختم کردیا جس سے ہندوستانی پیشہ وارانہ ماہرین استفادہ کیا کرتے تھے۔ خاص طور پر H-1B ویزے۔ اس کے باوجود آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ 22 ستمبر 2019ء کو ہوسٹن ٹیکساس میں ایک ریالی کے دوران مسٹر مودی نے یہ بدنام زمانہ نعرہ ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ لگایا تھا۔ اس قدر تائید و حمایت اور ٹرمپ کو خوش کرنے کی کوششوں کے باوجود ٹرمپ نے اپنی دوسری میعاد میں بھی ہندوستان سے کسی قسم کی مروت نہیں برتی بلکہ ہمارے ملک پر تجارتی محاصل پر محاصل عائد کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ واضح رہے کہ بحیثیت صدر اپنی دوسری میعاد کے 9 ماہ میں ٹرمپ نے ہندوستان (اور برازیل) پر سب سے زیادہ ٹیرف عائد کئے۔ اس طرح انھوں نے امریکہ کو ہندوستان سے اسٹیل، المونیم، پارچہ جات، قیمتی پتھر، ہیرے، زیورات، سمندری غذائیں، ادویات، فٹ ویئر (جوتے، چپل، سینڈلس وغیرہ)، فرنیچر، کاروں اور کھلونوں کی برآمد کو عملاً روک دیا۔ ٹرمپ نے ہندوستان کے خلاف صرف زیادہ سے زیادہ ٹیرف عائد کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ہندوستان پر یہ بھی الزام عائد کیاکہ ہمارا ملک یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں روس کو مالیہ فراہم کررہا ہے اور اس کے لئے وہ روس سے تیل خرید رہا ہے۔ ٹرمپ نے ہندوستان پر ایک مرتبہ نہیں بلکہ بار بار الزام عائد کیاکہ وہ روس سے تیل خرید کر روس ۔ یوکرین جنگ میں روس کی مدد کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے ہندوستانی مصنوعات پر 25 فیصد اضافی ٹیرف عائد کردیئے۔ ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور اتحادی سینٹر لنڈسے گراہم نے تو حد کردی اور یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ہندوستان روس سے تیل کی خریدی کا سلسلہ جاری رکھے گا تو پھر ہم ہندوستان کی معیشت کو تباہ کردیں گے (خود ٹرمپ نے یہ کہا تھا کہ ہندوستانی معیشت مردہ معیشت ہے)۔ مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ نے ہندوستان کو ’’Tariff King‘‘ تک قرار دیا اور ان کے مشیر تجارت مسٹر پیٹر نوارو نے تو اس سے کہیں زیادہ بُرے بلکہ بدترین خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان ۔ روسی تعلقات مردہ معیشتوں کی پارٹنرشپ ہے۔ ٹرمپ نے ہندوستانی آئی ٹی ماہرین و دیگر شعبوں کے پیشہ وارانہ ماہرین کو روکنے کی خاطر H-1B ویزوں کی درخواستوں پر ایک لاکھ امریکی ڈالرس فیس عائد کردی (پہلے یہ فیس 2 تا 4 ہزار امریکی ڈالرس ہوا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ ٹرمپ نے اسٹوڈنٹ اور Spouse میاں / بیوی کیلئے) ویزوں کی اجرائی کے قواعد و ضوابط سخت کردیئے۔ فروری ۔ مئی 2025ء میں ایک ہزار سے زائد ہندوستانیوں کو جو مبینہ طور پر امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم تھے، امریکہ سے ملک بدر کرکے ہندوستان واپس بھیج دیا گیا۔ ان ہندوستانیوں کو ہاتھوں میں ہتھکڑی اور پیروں میں بیڑیاں ڈال کر فوجی طیارہ میں سوار کرکے واپس بھیجا گیا۔
ٹرمپ کی پاکستان دوستی : پہلگام دہشت گردانہ حملہ اور ہندوستان کی جانب سے پاکستان کی شدید مخالفت کے باوجود مئی ۔ جون 2025ء میں پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارہ IMF سے اربوں ڈالرس کی امداد حاصل ہوئی۔ اسی طرح ایشیائی ترقیاتی بینک (سے 800 ملین ڈالرس) اور عالمی بینک (سے 40 ارب ڈالرس) کی مالی مدد حاصل ہوئی اور یہ سب کچھ امریکہ کی تائید و حمایت سے ہوا ورنہ پاکستان کی مذکورہ عالمی ادارے کسی بھی حال میں مدد نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے اس دعویٰ کے باوجود کہ پاکستان کے ساتھ راست مذاکرات کے نتیجہ میں آپریشن سندور ختم کیا گیا اس طرح جنگ ختم ہوگئی۔ اس کے برعکس امریکی صدر نے بار بار دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے ہی ۔ ہند پاک جنگ رُکوائی۔ ان کے کہنے پر ہی دونوں ملکوں نے جنگ ختم کرنے کا فیصلہ کیا ورنہ یہ جنگ جوہری جنگ میں تبدیل ہوجاتی۔ اب بھی ٹرمپ یہی دعویٰ کررہے ہیں (اس معاملہ میں ٹرمپ نے دعوؤں کی نصف سنچری مکمل کرلی) ٹرمپ نے مودی کی تو ہین اس وقت کی جب انھوں نے 18 جون 2025ء کو پاکستانی فوجی سربراہ عاصم منیر کی میزبانی کی۔ ان کے اعزاز میں وائٹ ہاؤز میں ظہرانہ کا اہتمام کیا جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ حد تو یہ ہے کہ 25 ستمبر کو مسٹر ٹرمپ نے پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف اور پاکستانی فوجی سربراہ سے ملاقات کی جہاں پاکستان کے عظیم لیڈروں نے بقول ٹرمپ کے امریکہ کو انتہائی قیمتی زمینی معدنیات سپلائی کرنے کی کوشش کی جس پر امریکہ نے پاکستان کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ کو قطعیت دیا اور ہندوستان کی بہ نسبت پاکستان پر بہت کم ٹیرف عائد کیا۔ ٹرمپ نے پاکستانی مصنوعات پر 19 فیصد ٹیرف عائد کیا۔ پاکستان نے امریکہ کو بحیرہ عرب پر ایک بندرگاہ کی تعمیر اور اسے چلانے کی پیشکش کی۔ 9/11 دہشت گردانہ حملہ، اسامہ بن لادن، ایبٹ آباد اور پاکستان دہشت گردوں کی آماجگاہ جیسے بیانیہ کو فراموش کرتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے ایک ساتھ دو گھوڑوں (امریکہ اور چین) پر سواری کا فن سیکھ لیا۔
جنوری 2025ء سے امریکہ نے کوئی ایک ایسا کام نہیں کیا جس کے بارے میں کہا جائے کہ اس کام سے ہندوستان کا کوئی فائدہ ہوا ہو اور جسے ہندوستان دوست کام کیا، جائے۔ ہندوستان اور امریکہ تعلقات ایک ایسی سیڑھی پر ہیں جس پر صرف ’’زوال‘‘ لکھا ہے اور مسٹر مودی بڑی بے چینی کے ساتھ اُس سیڑھی پر اُلٹے قدموں سے چڑھنے اور آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
یہاں اہم اور دلچسپ سوال یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے صدر ٹرمپ کی تعریف و ستائش کرنے میں آخر اتنی عجلت کا مظاہرہ کیوں کیا اور وہ بھی ایک ایسے امن منصوبہ پر جو پوری طرح اسرائیل کا حمایت یافتہ ہے اور یہ ایسا امن منصوبہ ہے جس نے فلسطینیوں کو مایوسی کی وادی میں چھوڑ دیا ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب فلسطینیوں کی قسمت کا فیصلہ ٹرمپ اور ٹونی بلیئر جیسے لوگ کریں گے۔ اس طرح علیحدہ ریاست فلسطین کے خواب کی تعبیر عملاً دفن ہوجائے گی۔ وزیراعظم نریندر مودی کو یہ اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ چاپلوسی ، خوشامد دانشمندانہ سفارت کاری اور مؤثر و جامع تجارتی پالیسیوں کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ ویسے بھی وہ خود جان چکے ہیں کہ عالمی سطح پر ہندوستان کے دوست کم ہیں اور ہماری معیشت بھی اس قدر مضبوط نہیں کہ اپنے اطراف کے طوفان کا سامنا کرسکے۔