مودی جی سب کچھ کرتے ہیں پریس کانفرنس سے خطاب نہیں کرتے

   

روش کمار
وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں اپوزیشن قائدین سے لے کر میڈیا (سوائے گودی میڈیا کے صحافیوں) اور روشن خیال لوگوں کا یہی کہنا ہے کہ وہ بھاشن (تقریر) تو دیتے ہیں، بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن پریس کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ فی الوقت بی جے پی قائدین مودی اقتدار کے گیارہ برسوں کا جشن منانے لگے ہیں لیکن عوام کے ذہنوں میں یہ سوال گردش کررہا ہے کہ آخر وزیراعظم نریندر مودی نے ان گیارہ برسوں میں کتنی مرتبہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے اقتدار کے 4033 دن 132 ماہ اور 11 سال لیکن اُن کی ایک بھی پریس کانفرنس نہیں۔ ایسے میں یہ پوچھا جارہا ہے کہ کیا وزیراعظم نریندر مودی کبھی پریس کانفرنس کریں گے ہی نہیں۔ یہ اصل میں ایک سوال ہے جو پچھلے 11 سال سے ہر ماہ ہر دن ہر ہفتہ پوچھا جاتا ہے۔ وزیراعظم مودی اپنے نام کے ساتھ یہ ریکارڈ کیوں قائم کرنا چاہتے ہیں کہ انھوں نے 11 سال میں ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی۔ کانگریس نے مودی حکومت کے 11 سال کے موقع پر اس سوال کو کافی اہمیت سے اُٹھایا۔ ترنمول کانگریس نے بھی اس بارے میں سوال اُٹھایا ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سوال میڈیا کا کیوں نہیں؟ وزیراعظم نریندر مودی پریس کانفرنس نہیں کرتے، یہی سوال سب سے پہلے تو میڈیا کا ہونا چاہئے کتنے اخبارات نے اسے لے کر اداریئے لکھے ہیں، رپورٹس پیش کی ہیں اور کتنے اینکروں نے یہ سوال پوچھا ہے۔ پوچھنا چاہئے کہ جب قائد اپوزیشن راہول گاندھی اکثر پریس کانفرنس میں آتے ہیں، سوالات کے جواب دیتے ہیں تو پارلیمنٹ کے قائد یعنی وزیراعظم نریندر مودی پریس کانفرنس کیوں نہیں کرتے۔ گیارہ سال میں 4000 سے زیادہ دن ہوتے ہیں۔ ایک بھی پریس کانفرنس نہ کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ راہول گاندھی کا کہنا ہے کہ جب بھی انتخابات قریب ہوتے ہیں مودی جی چند چنندہ صحافیوں کو بلاتے ہیں اور ان چاپلوس صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہیں۔ وزیراعظم سے ملک و قوم کو درپیش سنگین مسائل کے بارے میں سوالات کرنے کے بجائے یہ چاپلوس قسم کے صحافی ان سے عجیب و غریب دلچسپ سوال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ آم کیسے کھاتے ہیں، آپ کاٹ کر کھانا پسند کرتے ہیں یا چوس کر کھاتے ہیں۔ کچھ صحافیوں نے مودی سے پوچھا کہ ہندوستان میں بہت زیادہ عدم مساوات ہے۔ آپ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں کہ چند لوگ بہت مالدار ہوتے جارہے ہیں اور زیادہ تر غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ تب وزیراعظم 30 سیکنڈس تک سوچتے ہیں اور سوچتے سوچتے وہ جواب دیتے ہیں کہ آخر آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں ہر کسی کو غریب بنادوں؟ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہندوستان کا میڈیا وزیراعظم نریندر مودی سے سوال کرنے کے لائق بچا ہے یا نہیں؟ اگر سوال کرپاتا تو اپنے اخبار اور چیانل سے روز سوال نہیں کرتا اور سوال کرتا تو خود ہی حکومت جواب دینے کے لئے مجبور ہوجاتی۔ ایسا نہیں ہے کہ میڈیا سوال نہیں کرتا ہے، کرتا ہے مگر اپوزیشن سے، اپوزیشن کی حکومتوں سے سوال کرتا ہے۔ نئی دہلی کے بھارت منڈپم میں مودی حکومت کے 11 سال پورے ہونے پر پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ 9 جون کو اور 10 جون کو بھی پریس کانفرنس ہوئی۔ پہلے دن بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ بی جے پی کے یو ٹیوب چیانل پر جے پی نڈا کی پریس کانفرنس کا ویڈیو ہے۔ 40 منٹ کے ویڈیو میں ایک بار بھی کیمرہ پریس کی طرف نہیں گیا۔ کیمرہ نے صرف جے پی نڈا اور شہ نشین کو ہی دکھایا۔ سوال جواب ہوئے لیکن صرف 6 منٹ کے لئے یہ سیشن رہا۔ جے پی نڈا نے 30 منٹ سے زیادہ خطاب کیا پھر بھی سوال و جواب کے موقع پر صحافی نیرج پانڈے نے جے رام رمیش کے ٹیوٹ کے حوالے سے سوال پوچھ لیا۔ جواب دیتے وقت لگتا ہے جے پی نڈا اس سوال کے لئے تیار نہیں تھے۔ سوال یہ ہے کہ وزیراعظم پریس کانفرنس کیوں نہیں کرتے؟ تو جے پی نڈا کہنے لگے کانگریس اصل موضوع پر بات نہیں کرتی۔ کیا واقعی کانگریس اصل موضوع پر بات نہیں کرتی؟ کیا بی جے پی کیلئے یہ موضوع نہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی 11 برسوں میں ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کرپائے۔ صدر بی جے پی پریس کانفرنس کریں کوئی مسئلہ نہیں ہے، دوسرے کریں کوئی مسئلہ نہیں ہے، پارٹی کے صدر پریس کانفرنس کررہے ہیں، پارٹی کے سب سے بڑے لیڈر اور ملک کے وزیراعظم پریس کانفرنس کیوں نہیں کررہے ہیں یہ سب سے بڑا سوال ہے۔ کیا اس سے جے پی نڈا کو کوئی مسئلہ نہیں۔ 11 سال ہوگئے وزیراعظم نریندر مودی نے ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی۔ کیا جے پی نڈا کو اس میں کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا، من کی بات، خطاب کرنا، انٹرویو دینا یہ سب عوام سے رابطے کے الگ الگ طریقہ ہیں۔ زیادہ تر یکطرفہ رابطہ ہے۔ پریس کانفرنس ہونے سے رابطہ دو طرفہ ہوجاتا ہے۔ عوام کی طرف سے سوال پوچھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ آپریشن سندور جیسے بڑے سانحہ کے بعد بھی وزیراعظم مودی نے کسی کو انٹرویو نہیں دیا۔ اب چلتے ہیں امریکہ جہاں ہندوستانیوں کے ساتھ نفاذ قانون کی ایجنسیوں کے ناروا سلوک کا سلسلہ جاری ہے۔ مثال کے طور پر 8 جون کو امریکہ کے نیوآرک ایرپورٹ پر ایک ہندوستانی طالب علم کے ساتھ انتہائی نارا سلوک کیا گیا، اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنائی گئیں اور زمین پر پٹخ دیا گیا، اس کی توہین کی گئی لیکن ہمارے وزیراعظم بالکل خاموش رہے۔ آپ کو بتادیں کہ 8 جون کو صنعت کار کنال جین نے نیوجرسی کے پاس نیو آرک ایرپورٹ پر ایک ویڈیو لیا اور ٹوئٹ کردیا اور لکھا کہ ایک ہندوستانی طالب علم کو ملک بدر کیا جارہا ہے، اسے ہتھکڑیاں پہنائی گئیں ہیں، وہ رو رہا ہے، اس کے ساتھ ایک مجرم کی طرح سلوک ہورہا ہے۔ کنال جین کا لیا ہوا ویڈیو اور فوٹو آپ نے ہر جگہ دیکھا ہوگا اس کی خبر بھی شائع ہوئی ہے۔ کنال نے لکھا ہے کہ یہ نوجوان اپنے خوابوں کا پیچھا کرتے ہوئے یہاں تک آیا ہوگا، کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے نہیں۔ ایک این آر آئی کے طور پر میں خود کو بے بس و مجبور پاتا ہوں یہ انسانیت کے مغائر ہے۔ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ہم اس کے درد کو کم نہیں کرسکتے لیکن ہم عزت و احترام کا مطالبہ تو کرسکتے ہیں۔ ہم حکومت ہند، امریکہ کی ایجنسیوں اور تمام عالمی شہریوں سے کہہ سکتے ہیں اسے سنجیدگی سے لیں، اسے منظر عام پر لائیں اور اس کے بارے میں بات کریں۔ اس کے بعد 11 جون کی صبح اخبارات میں اس خبر کی تصویر ٹوئٹ کرتے ہوئے کنال لکھتے ہیں کہ صبح صبح ہندوستان میں جاگا تو ایسا لگا کہ کوئی مجھے ڈھونڈ رہا ہے لیکن جس کی تلاش کی جانی چاہئے اسے کوئی نہیں ڈھونڈ رہا ہے۔ یہ لڑکا نیو آرک ایرپورٹ سے غائب ہے۔ یہ سوال اُن لوگوں سے ہے جنھوں نے مجھے کل سے اپنے چیانلوں پر بٹھا رکھا ہے لیکن حکومت سے کوئی نہیں پوچھ رہا ہے۔ اس بات کی کوئی قطعی اطلاع نہیں ہے کہ یہ نوجوان غیر قانونی ایمگرنٹ ہے یا اس نے کوئی سنگین جرم کیا ہے۔ میڈیا کی رپورٹس میں جو بھی ذکر ہے وہ ذرائع کے حوالے سے ہے جس میں غیر قانونی مقیم ہونے کی بات بھی ہے اور اس کے برتاؤ کے ٹھیک نہیں ہونے کی بھی لیکن سب کچھ ذرائع کے حوالہ سے کہا جارہا ہے اور زور اسے غیر قانونی اور مجرم ثابت کرنے پر ہے۔ اس واقعہ کو لے کر ظاہر ہے بحث ہونی ہے۔ پہلے اسے بیرونی ملکوں اور امریکہ میں ہندوستانیوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک روا کیوں رکھا جارہا ہے۔ خاص کر امریکہ کیوں ایسا کررہا ہے۔ اس سوال سے جوڑا گیا اور مودی حکومت کی خارجہ پالیسی اور اس کے احتجاج کرنے یا نہ کرنے کو لے کر سوال اُٹھے لیکن اس کا پہلو اس بات سے بھی جڑتا ہے کہ ہندوستان کے لوگ ایمگرنٹس کو کیسے دیکھتے ہیں۔ ایمگرنٹس اور مائیگرینٹس کا استعمال اب متضاد کیا جارہا ہے۔ سب سے پہلے 8 جون کے واقعہ کو لے کر حکومت کی طرف سے کیا خبریں آرہی ہیں، اسے دیکھنا ضروری ہے۔ سرکاری بیان کچھ بھی نہیں، لیکن ذرائع کے حوالہ سے رپورٹ ہورہا ہے کہ ہندوستانی وزارت خارجہ نے دہلی میں واقع امریکی سفارت خانہ کے عہدہ داروں اور سفیر سے بات کی ہے۔ امریکہ میں ہندوستانی سفیر نے ٹوئٹ کیا ہے کہ ہم نے ایسے سوشل میڈیا پوسٹ دیکھتے ہیں جن میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ایک ہندوستانی شہری کو نیو آرک ایرپورٹ پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ہم مقامی عہدہ داروں سے اس سلسلہ میں بات کررہے ہیں۔ بات چیت میں کیا سوال اُٹھائے جارہے ہیں؟ کیا مطالبہ کیا گیا؟ اس کی کوئی معلومات ہمیں نہیں ملی۔ ذرائع نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ ابھی تک ہمارے پاس اُس واقعہ کی جانکاری نہیں ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ کن حالات میں اس لڑکے کو حراست میں لیا گیا، وہ کس پرواز میں جانے والا تھا اور کہاں پہنچنا چاہتا تھا؟ ہم معاملات کو فالو کررہے ہیں۔ 10 جون کو دہلی میں امریکی سفارت خانہ نے ایک بیان جاری کیاکہ امریکہ ، قانونی طریقہ سے آنے والوں کا خیرمقدم کرتا ہے، مگر امریکہ آنا کسی کا حق نہیں، ہم غیر قانونی داخلہ اور امریکی قوانین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرسکتے اور نہ کریں گے۔