مودی جی ! پلیز منہ کھولئے ، کچھ بولیے!

   

محمد ریاض احمد
وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک اچھے مقرر ہیں، کچھ بولتے ہیں تو پورے دَم خم کے ساتھ بولتے ہیں اور بڑی ہشیاری کے ساتھ ایسا بولتے ہیں کہ سننے والا ان کی ہر بات پر بلاچوں و چراں یقین کرلیتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم ، پاکستان کے خلاف اس انداز میں بات کرتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ وہ پڑوسی ملک کو کسی بھی لمحہ چاروں خانے چت کردیں گے۔ چین کے تئیں اس قدر خاموشی اختیار کرتے ہیں جیسے اُن کے منہ میں زبان ہی نہ ہو۔ ان کی تقاریر سن کر ’’بھگت‘‘ تالیاں بجانے لگتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ آج ہندوستان کو بیرونی دشمنوں سے کہیں زیادہ ’’داخلی دشمنوں‘‘ سے خطرات لاحق ہیں جو فرقہ پرستوں کی شکل میں دندناتے پھر رہے ہیں ، ویسے بھی ملک میں پچھلے 7 تا 8 برسوں سے فرقہ پرستی کا زہر معاشرہ میں اس قدر سرایت کرگیا ہے کہ ہر سنگین مسئلہ کو حل کرنے کی بجائے ’’ہند و۔ مسلم‘‘ کیا جارہا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، مذہبی خطوط پر لوگوں کو تقسیم کرنے کا خطرناک رجحان، بھوک مری ، بیماری ، اموات ، کمزور ہوتی معیشت پر توجہ دینے کی بجائے کبھی لباس ، توکبھی حجاب کو تو کبھی عوام کے منہ میں جانے والے نوالوں کو ، کبھی اذان کو مساجد کے لاؤڈ اسپیکرس کو اصل مسائل کے طور پر پیش کرکے حقیقی اور سلگتے بلکہ سنگین مسائل کو پس پشت ڈال کر عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ غرض ہم بات کررہے ہیں۔ وزیراعظم کی زبان درازی کی ( ارے معاف کرنا! وزیراعظم کی قوت ِگویائی کی ) وہ بولتے ہیں تو مخالفین کے چھکے چھڑا دیتے ہیں لیکن بقول راہول گاندھی و دیگر اپوزیشن قائدین کے کچھ ایسے سلگتے مسائل ہیں جن پر وہ ہمیشہ اپنی زبان ، اپنی آنکھیں اور اپنے کان بند رکھتے ہیں۔ وہ کچھ بولتے نہیں، کچھ دیکھتے نہیں، کچھ سنتے نہیں بلکہ ان مسائل پر انہوں نے ملک کے 14 سابق وزرائے اعظم کی خاموشی کا ریکارڈ توڑ ڈالا ہے مثلاً بڑھتی فرقہ پرستی کے خلاف منہ نہ کھولنے کی جیسے انہوں نے قسم کھالی ہو۔ مہنگائی پر کچھ بولنے کیلئے ہمارے عزت مآب وزیراعظم کی زبان ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ ہاں حال ہی میں انہوں نے کورونا کے بڑھتے کیسیس کے پیش نظر وزرائے اعلیٰ کا ایک ورچول اجلاس طلب کیا جس میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ پر اپنا منہ کھولنے کچھ بولنے کی زحمت گوارا کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاستی حکومتوں کو پٹرول اور ڈیزل پر عائد اضافی قدر ٹیکس اور دیگر محاصل میں تخفیف کرنی چاہئے جس سے عوام کو راحت مل سکے۔ اگر دیکھا جائے تو کانگریس کی زیرقیادت یو پی اے حکومت میں جب کبھی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا تب بی جے پی قائدین کے ساتھ ساتھ مودی جی بھی مرکزی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنائے۔ چیف منسٹر گجرات سے آگے بڑھ کر جب وہ عہدۂ وزارت عظمی پر فائز ہوئے تب وزیراعظم نے تیل کی عالمی مارکٹ میں قیمتیں کم ہونے پر خود کو ہندوستان کیلئے خوش قسمت قرار دیا تھا۔ انہوں نے اُسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جلسوں اور ریالیوں میں عوام سے یہ سوال بھی کرنے لگے کہ بتاؤ کیا میں ملک کیلئے Lucky (خوش قسمت) ثابت نہیں ہوا۔ اب جبکہ اشیائے ضروریہ سے لے کر ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے تو وہ خود کو ملک کیلئے کیا سمجھیں گے۔ یہ ایسا سوال ہے جسے مودی جی اور ان کی ٹیم نے پوری طرح نظرانداز کردیا ہے۔ فی الوقت ملک میں افراتفری کا ماحول ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، رشوت خوری ، اسکامس پر اسکامس، لاکھوں کروڑ روپئے مالیتی منشیات کی ضبطی (وہ بھی گجرات کی بندرگاہوں سے) اقلیتوں کے قتل ، دلتوں پر ظلم و جبر خواتین پر تشدد ان کے خلاف جنسی حملوں، تعلیمی شعبہ کو زعفرانی رنگ دینے تاریخ کو مسخ کرنے، جھوٹ و دروغ گوئی کو بام عروج پر پہنچانے، سچائی و انصاف کی آوازوں کو دبانے، اقلیتوں و کمزور طبقات کے دستوری و انسانی حقوق کی پامالی، قانون سے کھلواڑ (شرد پوار اور دوسرے اپوزیشن قائدین کے بقول مرکزی ایجنسیوں کے غیرقانونی و ناجائز استعمال) کا دور دورہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ’’عاشق کا جنازہ بڑی دھوم سے نکلے‘‘ کے مصداق انسانیت ، ہمدردی، محبت و مروت، اُخوت و بھائی چارگی ، گنگا جمنی تہذیب کا جنازہ ہے بڑی دھوم دھام سے نکالنے کی پوری پوری تیاریاں کرلی گئی ہیں۔ آج ہمارا دوست ملک امریکہ بھی ہم کو تنقید کا نشانہ بنانے ڈرانے دھمکانے لگا ہے۔ بلڈوزروں کو فرقہ پرستی کے ایک نئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے مکانات، دکانات، عبادت گاہوں، مدرسوں کو منہدم کرکے فخر کا اظہار کیا جارہا ہے۔ سرحدوں بالخصوص چین سے متصل سرحدوں کا تحفظ بھی غیریقینی حالات سے دوچار ہوچکا ہے۔ راہول گاندھی یہاں تک کہ امریکی کانگریس نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ چین ہندوستانی علاقوں میں کئی کیلومیٹر تک گھس آیا ہے۔ ان علاقوں میں سڑکیں بچھا رہا ہے۔ گاؤں بسا رہا ہے۔ آلات حربی یعنی جنگی ساز و سامان نصب کررہا ہے ، کسانوں کو گاڑیوں تلے کچل کر قتل کیا جارہا ہے۔ ان تمام کڑوی حقیقتوں کے باوجود ہزہائنس مودی جی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ دلت لڑکیوں کی عصمت ریزی کے شرمناک واقعات پر بھی انہوں نے مکمل سکوت اختیار کر رکھا ہے جبکہ انسانیت ان واقعات پر کرب میں مبتلا ہوکر چیخ رہی ہے، چلا رہی ہے، بچاؤ بچاؤ کی صدائیں بلند کررہی ہے، لیکن وزیراعظم خاموش ہیں۔ خاموشی کے بارے میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ خاموش عقلمندی کی علامت ہے لیکن ظلم و زیادتی ناانصافی ملک کی تباہی قوم کی بدنامی پر خاموشی ہرگز ہرگز عقل مندی نہیں کہلائے گی بلکہ اسے کچھ اور نام دیا جائے گا۔ ایسا نام جسے شاید بھگت برداشت نہ کرسکیں۔ آج ملک کے تباہ کن حالات پر ہر ہندوستانی بے چین ہے۔ ملک میں چہارسو اضطراب کی کیفیت ہے۔ فوج کے کئی سابق سربراہان نے بھی متعدد مرتبہ تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دستور جمہوریت، سکیولرازم ،گنگا جمنی تہذیب ، امن و امان، محبت و خلوص کی ہندوستانی روایات کے خاتمہ اور خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہونے کا انتباہ دیا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے وزیراعظم کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ دھرم سنسدوں کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے۔ مدھیہ پردیش، اترپردیش اور دہلی میں بلڈوزروں کے ذریعہ فرقہ پرستی کا جو ننگا ناچ ناچا گیا ہے، شیطانیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس پر بھی وزیراعظم کی تعجب خیز خاموشی نے ہر محب وطن ہندوستانی کو بے چین کردیا ہے۔ اکثر خاموشی کو ’’رضامندی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی خاموشی کیا ہے، عقلمندی یا رضامندی؟ آج ہر ہندوستانی کے ذہن میں یہ سوال بھی گردش کررہا ہے کہ کیا ہندوستانی جمہوریت دم نہیں توڑ رہی ہے۔ یہ ایسا سوال ہے جس کی جانب سابق بیورو کریٹس سابق فوجی سربراہوں، صنعت کاروں، فنکاروں، دانشوروں، ماہرین تعلیم، شعراء، ادیبوں اور حقوق انسانی کے جہد کاروں نے وزیراعظم کو توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ حال ہی میں 100 سے زائد سابق بیورو کریٹس نے وزیراعظم کے نام ایک کھلا مکتوب روانہ کرتے ہوئے صاف طور پر کہا ہے کہ ملک کے موجودہ خطرناک حالات میں مودی جی کی خاموشی ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے۔ ان محب وطن ہندوستانیوں نے وزیراعظم پر یہ بھی واضح کردیا کہ ملک میں ’’نفرت کی سوداگری‘‘ عروج پر پہنچ گئی ہے اور نفرت سے بھری تباہی کا جنون صرف اقلیتوں کو ہی نہیں بلکہ ہمارے دستور کو بھی نشانہ بنارہا ہے اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تشدد کے حالیہ واقعات اکثریتی طاقتوں کو ہمارے دستور کے بنیادی اصولوں اور قوانین سے بالاتر دکھا رہے ہیں۔ اپنے مکتوب میں ان سابق بیورو کریٹس نے اس پورے عمل میں حکومت کی ملی بھگت کا بھی الزام عائد کیا ہے۔ سابق بیورو کریٹس کو اُمید ہے کہ مودی جی نفرت کی سیاست کو ختم کرنے کی اپیل کریں گے جو ان کی حکومت میں ہورہی ہے۔ مکتوب میں وزیراعظم سے کہا گیا کہ وہ آگے پڑھ کر ہندوستان کی وراثت کو بچانے کیلئے زہریلی سیاست کے خاتمہ کی اپیل کریں۔ اگر وہ سنیں بولیں گے تو پھر یہ شاندار وراثت اپنی موت آپ مرجائے گی۔ بہرحال آج وزیراعظم کو نیرو (جب روم جل رہا تھا ، ’نیرو‘ بانسری بجا رہا تھا) نہیں بلکہ نہرو بننے کی ضرورت ہے جنہوں نے ہندوستان کو سبز و صنعتی انقلاب سے بہرہ ور کرتے ہوئے سکیولر ہند کو مضبوط و مستحکم کیا۔ آج ساری ہندوستانی قوم وزیراعظم سے یہی کہہ رہی ہے کہ ملک میں نفرت کی سوداگری، جمہوریت کی تباہی، دلت بیٹیوں کی عصمت ریزی، اقلیتوں پر ظلم کا خاتمہ اسی وقت ہوگا، جب وہ اپنا منہ کھولیں گے، کچھ بولیں گے، ایسے میں ہم مودی جی سے یہی درخواست کرسکتے ہیں کہ پلیز منہ کھولئے کچھ بولئے …!!