مودی جی کو ایک سوال سے پریشان کرنے والیسبرینا صدیقی کون ہے

   

ابو معوذ
آج کل وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹر سبرینا صدیقی کے کافی چرچے ہیں۔ اس کی وجہ وزیر اعظم نریندر مودی ہیں جنہوں نے عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہونے کے 9 سال بعد کسی پریس کانفرنس کا سامنا کیا ویسے بھی مودی جی کی امریکی صدر جوبائیڈن کے ساتھ وائٹ ہاوس میں جو مشترکہ پریس کانفرنس رہی اسے راقم الحروف بلا جھجھک مشروط پریس کانفرنس Conditional Press Confrence کہتا ہے۔ اس لئے کہ امریکی صدر اور ہندوستانی وزیر اعظم کی اس پریس کانفرنس کے بارے میں صاف صاف طور پر کہہ دیا گیا تھا کہ مودی جی ایک امریکی اور ایک ہندوستانی صحافی کے ایک ایک سوال یعنی جملہ دو سوالات کے جواب دیں گے چنانچہ ان دو سوالات میں امریکی صحافی سبرینا صدیقی کا ایک سوال یقینا ان 2 ہزار سوالات پر بھاری رہا جو 2014 سے آج کی تاریخ تک پوچھے جاتے (اگر مودی صحافیوں کے سوالات کے جوابات دینے کے لئے تیار رہتے۔ اگرچہ بی جے پی کا آئی ٹی سل، مودی جی کے بھکت، سبرینا کے اس سوال پر چراغ پا ہیں آن لائن انہیں ہراساں و پریشان بھی کیا جارہا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سبرینا صدیقی کے سوال نے نہ چاہتے ہوئے بھی مودی جی کو ساری دنیا کے سامنے ہندوستانی جمہوریت اس کی گنگا جمنی تہذیب اس کے دستور کی بالادستی کو تسلیم ہی کرنا پڑا۔ سبرینا صدیقی کے سوال نے ہندو راشٹر سے متعلق بلند بانگ دعوے کرنے والوں کو ایسے ٹائیں ٹائیں فش کردیا جس کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مودی جی کی بی جے پی سے لے کر اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس یا سنگھ پریوار اور پریوار کی ذیلی تنظیمیں بار بار ہندوستان کو ہندو راشٹرا بنانے ہندو راشٹر بنانے کے ایجنڈہ پر چلنے کے بلند بانگ دعوے (دراصل کھوکھلے دعوے) کرتے ہوئے عجیب و غریب حرکتیں کرتی رہی ہیں اور جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بہرحال وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے بارے میں خود بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی نے ببانگ دہل کہا ہے کہ وزیر اعظم امریکہ سے خالی ہاتھ لوٹ رہے ہیں حد تو یہ ہیکہ انہوں نے وہاں ہندوستانی علاقوں پر چینی دراندازی اور قبضوں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا حالانکہ چین نے لداخ میں ہماری تقریباً 4056 کیلو میٹر اراضی پر ناجائز قبضہ کرلیا ہے۔ سارے ملک میں پچھلے 9 برسوں سے ہندوتوا کے نام پر مذہبی جنون پسندوں باالفاظ دیگر دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے جو کھلے عام مسلمانوں کے قتل عام اور عیسائیوں کے صفایا کی دھمکیاں دے رہے ہیں توہین آمیز الفاظ، گندی زبان استعمال کررہے ہیں، عیسائیوں کے گرجا گھروں کو حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں، ہندوستان کو جودنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے ہندوراشٹر میں تبدیل کرنے کی باتیں کررہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بعض ملک دشمنوں نے ہندوستان کی تباہی و بربادی کا سامان کرنے کی خاطر ہندوراشٹر کا دستور بھی تیار کرلیا ہے یہ لوگ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے بنائے ہوئے دستور کو بھی نہیں مانتے۔ اب آپ ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ دستور کو ماننے اسے تسلیم کرنے والا ملک کا غدار ہوتا ہے یا اسے تسلیم نہ کرنے والا ملک کا غدار ہے۔ ہاں ہم بات کررہے تھے سبرینا صدیقی کی 36 سالہ وال اسٹریٹ جرنل کی وائٹ ہاوز نامہ نگار سبرینا صدیقی کو ہمارے عزت مآب وزیر اعظم نریندر مودی زندگی بھر بھلا نہیں پائیں گے کیونکہ ایک ایسے وقت جبکہ بائیڈن انتظامیہ انہیں عزت بخش رہا تھا امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس خطاب کا انہیں اعزاز عطا کررہا تھا، وارنٹ ہاوز میں بھی ان کے اعزاز میں خصوصی عشائیہ کا اہتمام کہا گیا تھا۔ جن پر وہ اور ان کے بھکت فخر کا اظہار کررہے تھے کہ سبرینا کے ایک سوال نے مودی جی اور ان کے بھکتوں کا سارا مزہ خراب کردیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سبرینا صدیقی کا وہ سوال نہیں بلکہ کوئی کڑوی گولی تھی جو زبردستی ان کے منہ میں ڈال دی گئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر سبرینا صدیقی نے ایسا کیا سوال کردیا کہ مودی جی سے مل کر ان کے بھکت اور بی جے پی کا آئی ٹی سیل سب کے سب حیران پریشان ہوگئے۔ وائٹ ہاوز میں ہمارے وزیر اعظم شری نریندر مودی سے سبرینا نے کچھ یوں سوال کیا ’’ہندوستان نے ایک طویل عرصہ سے اپنے آپ پر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی حیثیت سے فخر کیا ہے لیکن حقوق انسانی کے تحفظ کی وکالت کرنے والے ایسے بہت سے گروپ ہیںجن کا کہنا ہے کہ آپ کی حکومت نے مذہبی اقلیتوں (مسلمانوں اور عیسائیوں، سکھوں) کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھا ہے اور اپنے ناقدین کو خاموش کرانے کی کوشش کی ہے جب آپ یہاں وائٹ ہاوس کے ریسٹ روم میں کھڑے ہیں یہ وہ مقام ہے جہاں سے کئی عالمی رہنماؤں نے جمہوریت کے تحفظ کے لئے اپنے عزم و جمہوریت کے تئیں اپنے پابند عہد ہونے کا اظہار کیا ہے تو آپ (مودی) اور آپ کی حکومت ہندوستان میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے حقوق بہتر بنانے اور اظہار خیال کی آزادی کو بنائے رکھنے کے لئے کیا قدم اٹھانے والے ہیں‘‘ اس سوال پر مودی جی کس قدر پریشان ہوئے ان کے چہرے پر کیا تاثرات آئے اور گئے وہ ساری دنیا نے دیکھا۔ بحیثیت صحافی ہمیں محسوس ہوا کہ 9 برسوں کے دوران بالآخر وہ لمحہ آہی گیا جب مودی جی کو مجبوراً اپنا منہ کھولنے اور کچھ بولنے کے لئے مجبور ہونا پڑا اور وہ بھی جمہوریت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں و دیگر اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا سلوک سے متعلق انہیں صفائی دینی پڑی۔ وضاحت کرنی پڑی۔ اگرچہ مودی نے لفاظی کے ذریعہ اس اہم ترین سوال سے جو شاید تلوے چاٹو، ضمیر فروش بلکہ ملک و قوم فروش میڈیا نے پوچھنے کی ہمت نہیں کی اپنی جان چھڑا کر راحت کی سانس لی۔ اس پریس کانفرنس کے بعد سبرینا صدیقی کو آن لائن ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جس میں بھکت سب سے آگے تھے۔ تاہم وال اسٹریٹ جرنل کی وائٹ ہاوس نامہ نگار کی حمایت میں بھی بے شمار جمہوریت پسندو انسانیت نواز مرد و خواتین میدان میں کود پڑیں۔ جہاں تک گودی میڈیا کا سوال ہے اس نے وائٹ ہاوس میں اپنے سوال کے ذریعہ وزیر اعظم کو اپنا منہ کھولنے پر مجبور کرنے کا انتقام لینے کی کوشش میں انہیں پاکستانی اسلام پسند، پاکستانی ماں باپ کی بیٹی جیسے جملے استعمال کئے۔ غرض ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ آخر مودی کو اپنے سوال سے پریشان کرنے اور انہیں جمہوریت کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں گنگا جمنی تہذیب اور اقلیتوں کے حقوق کی اہمیت و افادیت کا احساس دلانے والی سبرینا صدیقی کون ہے؟ وہ واشنگٹن ڈی سی میں وال اسٹریٹ جرنل کی وائٹ ہاوز رپورٹر ہیں۔ ان کی پیدائش ڈسمبر 1986 میں امریکہ میں ہوئی۔ وہ انڈین پاکستانی باپ اور پاکستانی نژاد ماں کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے اپنے بچپن کے قیمتی 10 سال اٹلی میں گذارے۔ سبرینا نے 13 سال کی عمر میں ہی صحافی بننے کا خواب دیکھا اور ان کا وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور وہ کامیاب صحافی کے طور پر شہرت پائی۔ کر ازم ڈاٹ کام پر ان کے بارے میں جو تفصیلات پیش کی گئیں ہیں ان میں بتایا گیا کہ وہ 24 سال کی عمر میں بلومبرگ نیوز کے لئے فری لانس رائٹر کے طور پر کام کیا۔ 2012 میں واشنگٹن پوسٹ میں شمولیت اختیار کی۔ 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں انہوں نے ہلاری کلنٹن اور مارکو روبیو کی انتخابی مہم کا کوریج کیا۔ سبرینا صدیقی نے ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکہ میں کچھ ملکوں کے مسلمانوں کی آمد پر عائد پابندی کی شدت سے محالفت کی۔ انہوں نے برطانوی نیوز آؤٹ لیٹ دی گارجین کے لئے بھی کام کیا اور پھر CBSN کے لئے بھی کام شروع کیا۔ MSNBC، سی این این، بی بی سی اور اسکائی نیوز میں تجزیہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 2015 میں انہوں نے گارجین میں شمولیت اختیار کی۔ سبرینا کو بچپن سے ہی مختصر کہانیاں لکھنے کا شوق تھا ۔ ایک مرحلہ پر انہوں نے ایک ہالی ووڈ فلم پر تبصرہ لکھا جسے پڑھ کر سارے دوست احباب حیران رہ گئے۔ وہ اپنے ہائی اسکول نیوز پیپر کی ایڈیٹر بھی رہیں اور پھر صحافی بننے کے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی خاطر میڈل اسکول آف جرنلزم نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی شکاگو سے جرنلزم میں بیلر ڈگری حاصل کی۔ انہیں نیشنل فارماسیوٹیکل کونسل میں ریسرچ اسسٹنٹ اور پھر ساوتھ ایشن نیوز نٹ ورک Divanee کے ایک سینئر ایڈیٹر کی حیثیت کام کرنے کا موقع ملا۔ سبرینا کی ماں نشاط صدیقی پاکستانی نژاد ہیں جبکہ والد ضمیر صدیقی کی پیدائش ہندوستان میں اور پاکستان میں برورش ہوئی، اس طرح سبرینا ایک امریکی شہری ہیں۔ ان کی دولت کا تخمینہ ایک ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ان کی سالانہ تنخواہ 127,644 ڈالرس ہے۔ سبرینا کی شادی جولائی 2019 میں علی جعفری سے ہوئی۔ دونوں کی ملاقات Bumble شادی کے ایک ایپ کے ذریعہ 2016 ہوئی اور پھر دوستی عشق میں بدل گئی۔ محمد سید علی جعفری نیشنل سیکوریٹی انٹوویشن میں ریسرچ انالسٹ ہے۔ ان کے بھائی انور صدیقی ایک میڈیکل پریکٹشنر ہیں۔ ماں نشاط صیدقی نشاط کچن اینڈورکس چلاتی ہیں۔ سبرینا ایک بیٹی صوفیہ جعفری کی ماں بھی ہے۔ بہرحال سبرینا نے مودی سے وہ سوال کیا جس کا جواب دنیا جاننا چاہتی تھی سبرینا وہ صحافی نہیں جو مودی جی سے پوچھے کہ آپ آم بہت پسند کرتے ہیں کیوں پسند کرتے ہیں چوس کر کھاتے ہیں یا کاٹ کر ہضم کر جاتے ہیں!!