شفافیت کے دعوے کرنے والی مودی حکومت نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ اسے نہ تو کسی قانون کی فکر ہے اور نہ ہی روایتوں کی۔ حکومت نے اعلیٰ اختیار یافتہ کمیٹی کی اس میٹنگ کی جانکاری دینے سے انکار کر دیا ہے جس نے سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹر آلوک ورما کو 10 جنوری کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس میٹنگ میں کمیٹی نے سی بی آئی کے فل ٹائم ڈائریکٹر کی تقرری ہونے تک پارٹ ٹائم ڈائریکٹر مقرر کرنے کا اختیار دے دیا تھا۔
اس سلسلے میں آر ٹی آئی کارکن پارس ناتھ سنگھ نے 11 جنوری 2019 کو ایک عرضی داخل کر وزیر اعظم دفتر کے تحت کام کرنے والے محکمہ پرسونل سے کچھ جانکاریاں مانگی تھیں، جو اس طرح ہیں…
- میٹنگ میں ہوئی بات چیت کی تفصیلات کی مصدقہ کاپی
- اعلیٰ اختیار یافتہ کمیٹی کی سفارشات کی جانکاری
- کمیٹی کی میٹنگ میں لیے گئے فیصلوں کی مصدقہ کاپی
- ملکارجن کھڑگے کے ذریعہ دیئے گئے عدم اتفاق کے خط کی مصدقہ کاپی
- کابینہ سکریٹریٹ کے 10 جنوری 2019 کو جاری نوٹ نمبر 05/01/2019-سی ایس(اے) کی کاپی
لیکن حکومت نے یہ جانکاریاں دینے سے انکار کر دیا۔ محکمہ پرسونل کے انڈر سکریٹری اور سنٹرل پبلک انفارمیشن افسر نے آر ٹی آئی عرضی کے جواب میں کہا کہ ’’عرضی میں جس کمیٹی کی میٹنگ کی جانکاری طلب کی گئی ہے اس میں شامل تینوں اشخاص اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، اس لیے اس میٹنگ کی جانکاری دینا محکمہ پرسونل کے حلقہ اختیار میں نہیں ہے۔ اس لیے جو بھی دستاویزات مانگے گئے ہیں وہ فراہم نہیں کیے جا سکتے۔‘‘
سنٹرل پبلک انفارمیشن افسر کے ذریعہ جانکاری دینے سے انکار کیے جانے پر عرضی ڈالنے والے آر ٹی آئی کارکنان کا کہنا ہے کہ حکومت نے اپنے جواب میں آر ٹی آئی ایکٹ 2005 کے کسی ایکٹ کا حوالہ نہیں دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’آر ٹی آئی ایکٹ میں ایسی کوئی سہولت نہیں ہے کہ ’’اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے اشخاص کی کسی میٹنگ میں شامل ہونے پر جانکاری نہیں دی جا سکتی۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ ’’آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت آنے والی شکایتوں کے ازالہ کے لیے بنی سرکردہ یونٹ سنٹرل انفارمیشن کمیشن نے کئی مواقع پر کہا ہے کہ آر ٹی آئی کے تحت صرف انہی اطلاعات کو شیئر نہیں کیا جاسکتا جو ایکٹ کی دفعہ 8 اور 9 کے تحت آتی ہیں۔ اس کے علاوہ سی پی آئی او کسی اور اطلاع کو دینے سے انکار نہیں کر سکتے۔‘‘
غور طلب ہے کہ کانگریس لیڈر ملکارجن کھڑگے نے بھی وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر مطالبہ کیا تھا کہ اس میٹنگ کی جانکاری برسرعام کی جائے جس میں سی بی آئی کے اس وقت کے سربراہ آلوک ورما کو ہٹانے کا فیصلہ لیا گیا تھا۔ انھوں نے سی وی سی کی رپورٹ کو بھی برسرعام کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
سی بی آئی ڈائریکٹر کا انتخاب کرنے والی تین رکنی کمیٹی میں ملکارجن کھڑگے لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے شامل تھے۔ اس کمیٹی میں وزیر اعظم صدر ہوتے ہیں اور اپوزیشن لیڈر کے علاوہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یا ان کے ذریعہ نامزد کوئی دیگر جج کمیٹی کا رکن ہوتا ہے۔ جس میٹنگ میں آلوک ورما کو ہٹانے کا فیصلہ لیا گیا اس میں کھڑگے کے علاوہ وزیر اعظم اور سپریم کورٹ کے جج جسٹس اے کے سیکری نے حصہ لیا تھا۔ مبینہ طور پر کھڑگے نے آلوک ورما کو ہٹانے کی مخالفت کی تھی، جبکہ پی ایم مودی اور جسٹس سیکری آلوک ورما کو ہٹانے کے حق میں تھے۔ کھڑگے نے اس بنیاد پر ایم ناگیشور راؤ کو سی بی آئی کا عارضی ڈائریکٹر بنائے جانے کو غیر قانونی بتایا تھا۔
ابھی 5 فروری کو سپریم کورٹ میں حکومت نے اٹارنی جنرل کے. وینوگوپال کے ذریعہ سینئر وکیل پرشانت بھوشن کے خلاف توہین کا معاملہ دائر کیا ہے۔ پرشانت بھوشن نے اپنے ٹوئٹ میں ناگیشور راؤ کو عارضی ڈائریکٹر بنائے جانے پر اعتراض ظاہر کیا تھا۔ توہین کی عرضی میں پرشانت بھوشن کے ذریعہ یکم فروری کو کیے گئے ٹوئٹ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ ان ٹوئٹس میں بھوشن نے کہا تھا کہ حکومت نے اعلیٰ اختیار یافتہ کمیٹی کی فرضی جانکاری دے کر سپریم کورٹ کو گمراہ کیا۔
See the letter of LOP Kharge re the unilateral appointment of Nageswara Rao as interim Director CBI by govt, w/o going through HPC of PM, CJI & LOP. Yet govt produced minutes of meeting saying that HPC approved appt. Seems govt gave fabricated minutes to court! Contempt of Court! pic.twitter.com/If7TFO5VfO
— Prashant Bhushan (@pbhushan1) February 1, 2019