مودی حکومت میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات نقطہ عروج پر

   

اچین ونائک
نریندر مودی حکومت کی خارجہ پالیسی بہت زیادہ تنقیدوں کی زد میں ہے۔ سیاسی مخالفین سے لے کر سابق سفارت کار، بیورو کریٹس، تجزیہ نگار و تبصرہ نگار سب کے سب یہی کہتے ہیں کہ پچھلے 10 گیارہ برسوں میں ہندوستان کی خارجہ پالیسی اُس طرح مضبوط نہیں رہی جس طرح ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ اب حال یہ ہے کہ بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا جیسے پڑوسی ممالک بھی ہم سے دور ہوگئے ہیں اور چین سے قربت اختیار کرلی ہے۔ سفارتی سطح پر ناکامیوں کے باوجود مودی جی اور ان کے بھگت یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے عالمی سطح پر ہندوستان کی ایک امیج بنائی ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستان نے ہمیشہ سے فلسطینی کاز کی تائید و حمایت کی۔ اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ اسرائیل قابض ہے اور قابض اسرائیل نے فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کیا اور ان کے انسانی حقوق پامال کئے۔ پنڈت جواہر لال نہرو سے لے کر ڈاکٹر منموہن سنگھ تک تمام نے فلسطینی کاز کی تائید و حمایت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ پی وی نرسمہا راؤ کے دور میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے دروازے کھلے اور اب بی جے پی حکومت نے اپنی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کے موقف کو اپناتے ہوئے اسرائیل کی بھرپور تائید و حمایت کی راہ اختیار کی اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی درندگی، نہتے فلسطینیوں کے قتل عام میں ہتھیاروں اور خاص طور پر ڈرونز کی سپلائی جاری رکھتے ہوئے اسرائیل کی نہ صرف مدد بلکہ حمایت بھی کی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ماضی میں فلسطینیوں اور فلسطینی کاز کی حمایت کرنے والے ہندوستان نے اسرائیل کی مدد کی تو دوسری طرف اسرائیل کے تین مضبوط حلیف و اتحادی ممالک برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے معاملہ میں اسرائیل کی تائید نہیں کی بلکہ ٹھوس کارروائی کی دھمکی دی۔ یہ حقیقت یقینا اُن لوگوں کو حیران و پریشان کرسکتی ہے جنھوں نے انگریزوں کی غلامی سے ملک کی آزادی کے بعد سے مسلسل ہندوستانی حکومتوں کی جانب سے فلسطینیوں کے حقوق اور فلسطینی کاز کی غیر متزلزل حمایت کی،اکثریت نے رسمی بیان بازی کو بہت ہی آسانی سے قبول کرلیا۔ ہندوستان نے جہاں نئے مابعد نوآبادیاتی اسٹیٹ کے طور پر فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کے مفاد میں سامراج مخالف یکجہتی کے جذبہ کے ساتھ شروعات کی وہیں اس نے شروع ہی سے صیہونی اقتدار کو جزوی طور پر تسلیم کرنے اور بعض مرتبہ اس کی وکالت کے بیجوں کو بھی پناہ دی۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان کے سامنے دو چیالنجس تھے۔ آپ اور ہم سب نے دیکھا کہ بی جے پی حکومت میں خاص طور پر اسرائیل کے ساتھ دفاعی شعبہ میں تعاون و اشتراک بڑھتا جارہا ہے۔ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں کہا ہے کہ اسرائیل کے حلیف ہونے کے باوجود برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے اسرائیل کے خلاف ٹھوس اقدامات کی دھمکی دی ہے لیکن ان مغربی ملکوں نے اسرائیل کی مدد بند نہیں کی ہے، وہ اسرائیل کو ہتھیار بھی فروخت کررہے ہیں لیکن کتنا بڑا فرق آگیا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 19 مئی 2025ء کو ان ملکوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں پرزور انداز میں کہا گیا کہ غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی مکمل طور پر نامناسب ہے اور ہم اس وقت تک خاموش نہیں رہیں گے جب نیتن یاہو حکومت ان گھناؤنی حرکتوں کے ذریعہ انسانیت کو پامال کرنا بند کرے۔ ان ملکوں نے اسرائیل کو پابندیوں کی دھمکیاں تک دے ڈالی۔ اسرائیل مسلسل جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہورہا ہے اس کے باوجود اپنے بیانات میں کبھی بھی اسرائیل کی مذمت نہیں کی۔ ہندوستان نے کئی مرتبہ ایسے بیانات جاری کئے جس میں غزہ میں جنگ بندی معاہدہ کا خیرمقدم کیا گیا اور انسانی امداد کی بروقت محفوظ اور بلا رکاوٹ سربراہی پر زور دیا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندہ پی ہریش نے 30 اپریل کو سلامتی کونسل میں منعقدہ مباحثہ میں جنگ بندی کی ضرورت ظاہر کی۔ یرغمالیوں کی رہائی اور انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی کے بارے میں وہی بیانات دہرائے جو پہلے دے چکی ہے۔ مودی حکومت کے دوہرے رویہ یا دوغلے پن کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے مباحثہ میں مذکورہ بیان دینے کے بعد سے اب تک ہمارے ملک نے غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی، ان کے قتل عام اور فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کو دہشت گردی قرار نہیں دیا۔ اس کے علاوہ عالمی پلیٹ فارمس خاص کر عالمی عدالت انصاف کا ایک رکن ہونے کے باوجود اسرائیلی نسل کشی کی تحقیقات کا مطالبہ نہیں کیا، نہ ہی اسرائیل کی درندگی پر کوئی تبصرہ کیا۔ اس کے علاوہ ہم آپ کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ امریکہ، کینیڈا اور جرمنی کے بشمول کئی یوروپی ملکوں میں فلسطینیوں کی تائید و حمایت اور اسرائیل کی مخالفت میں بڑے پیمانہ پر احتجاجی مظاہرے ہوئے لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت ہندوستان میں مہذب سماج کی تنظیموں اور مہذب سماج کا ردعمل بہت ہی محتاط رہا اور اس کی وجہ حکومت (مرکزی) اور ریاستی حکومتوں کے ساتھ ساتھ پولیس کے ظلم و جبر کا خوف رہا۔ مثلاً بی جے پی کی زیرقیادت والی ریاستوں میں جب بھی اسرائیل کے خلاف احتجاج منظم کرنے کی کوشش کی گئی تب پولیس نے ان احتجاجی مظاہروں کی اجازت نہیں دی اور یہ حقیقت میں ہندو قوم پرست یا ہندوتوا قوتوں کی طرف سے فلسطین کو نام نہاد ہندو دشمن بتاکر اسلامو فوبیا کو ہوا دینا تھا اور اس طرح کے مخالف فلسطین اقدامات بی جے پی حکومت کی موافق اسرائیل پالیسی کا کھلا ثبوت ہے۔ موجودہ لوک سبھا میں 41 سیاسی جماعتوں کے نمائندے ہیں جس میں سے 11 سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا۔ اس کی وجہ بھی ہے۔ آخر کوئی کیوں خارجہ معاملہ کو اُٹھانے کی زحمت گوارا کرے گا خاص طور پر ایک ایسے مسئلہ پر جسے اکثریت اور رائے دہندوں کا ایک بہت بڑا طبقہ مسلمانوں کی خوشامدی تصور کرتا ہے۔ ان تمام چیزوں سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوتوا کے جذبات مہذب سماج میں کتنی گہرائی تک سرائیت کرگئے ہیں۔ ایک بات پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی کی زیرقیادت حکومتوں (ریاستوں) نے ہند ۔ اسرائیل تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ ایک نظریاتی وابستگی رکھی۔ اس کے برعکس مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو نے جہاں آزادی کے بعد بھی برطانوی سامراج کے خلاف مختلف ملکوں اور علاقوں میں جاری جدوجہد سے خود کو وابستہ رکھا بلکہ اسرائیل کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی تائید و حمایت بھی کی اور انگریزوں کا مؤثر طریقہ سے مقابلہ کرنے کے ضمن میں ہندو مسلم اتحاد کی تعمیر کو اپنے نقطہ نظر کی کلید مانتا تھا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 1964ء میں پنڈت نہرو کا انتقال ہوا تاہم 1962ء کی چین کے ساتھ جنگ میں ہندوستان نے مارٹرس اور گولہ بارود اسرائیل سے حاصل کیا۔ اس کے ساتھ 1965ء اور 1971ء کی پاکستان کے خلاف جنگوں میں اسرائیل سے بے شمار ہتھیار حاصل کئے۔ 1996ء تا 1998ء ہندوستان میں غیر کانگریس اور غیر بی جے پی حکومت رہی۔ اس دوران اسرائیل اور اسرائیل کے درمیان بغیر پائلٹ کی فضائی گاڑیاں، گرین پائن راڈار سسٹم اور طویل فاصلہ تک زمین سے فضاء میں مار کرنے والے میزائیلوں کی فراہمی کے معاہدات طے پائے۔ 1998-99ء میں بی جے پی کو اقتدار ملا۔ 1999ء سے 2004ء تک وہ حکومت کرتی رہی اور 2003ء میں ایریل شرون نے بحیثیت اسرائیلی وزیراعظم ہندوستان کا دورہ کیا۔ پاکستان کے خلاف کارگل جنگ میں بھی اسرائیل نے ہندوستان کو فوجی مدد فراہم کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ 2008ء میں بھی اسرائیل نے نگرانی اسٹرکچر قائم کرنے میں ہندوستان کی مدد کی۔ جبکہ کشمیر میں بھی اسرائیلی کارروائیوں کے طرز پر کارروائیاں کی گئیں اور 2003 ء تا 2013 ء ہندوستان اسرائیلی ہتھیاروں کی خریداری کا سب سے بڑا خریدار بن گیا۔ مودی نے ہند ۔ اسرائیل تعلقات کو نقطہ عروج پر پہنچایا۔ اپنے پہلے دورہ کے موقع پر انھوں نے فلسطینی قیادت سے ملاقات نہیں کی۔