مودی حکومت میں موڈانی ماڈل پر عمل، غریب پریشان

   

اجئے کمار
سال2023 ختم ہوچکا ہے اور سال 2024 میں ہمارا وقت کیسے گذرے گا ، ہماری زندگیوں میں خوشحالی ہوگی یا نہیں ہوگی، ہماری جیبوں میں پیسہ ہوگا یا نہیں ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہر کسی کے ذہن میں گردش کررہے ہیں ۔ ان سوالات کا ایک ہی جواب ہے وہ یہ کہ اگر آپ کی جیب میں پیسہ ہوگا تو وقت اچھا گذرے گا اور نہیں ہوگا تو پھر پریشانی ہی پریشانی ہوگی۔ اگر ملک میں دیکھا جائے تو معاشی حالت سب سے اہم ہے، اگر دیکھا جائے تو عدم مساوات کے اس دور میں دوسروں کا حق مارکر زیادہ کمائی کرلینا کئی افراد کے ساتھ ناانصافی کرنے جیسا ہوتا ہے، مگر اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کیلئے مطمئن زندگی گذارنے کیلئے جو ضروری معاشی صورتحال کی خواہش کرتا ہے وہ اپنے علاوہ سب کے ساتھ انصاف کرنے جیسا ہوتا ہے۔ بھارت کے زیادہ تر لوگوں کی معاشی پریشانیوں کو دور کرنے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو سال 2023 میں مودی حکومت کی طرف سے ایسی کوئی خبر نہیں آئی جو ان کی زندگیوں میں بنیادی تبدیلی لاسکتی ہو۔ واضح اکثریت کے دم پر پچھلے 9 سال سے اقتدار کی گلیاریوں میں مودی حکومت کی ہوا چل رہی ہے مگر اس ہوا سے بھارت کے زیادہ تر عوام کی زندگی اور معاشی حالات میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی، جس طرح سے مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے اس لحاظ سے آمدنی نہیں بڑھ رہی ہے، اس حساب سے فی کس اوسط آمدنی نہیں بڑھ رہی ہے۔ فی کس اوسط آمدنی پہلے ہی سے کم تھی جب مطمئن زندگی گذارنے کیلئے جو لاگت لگتی ہے اس سال بھی ایسی کوئی خبر نہیں آئی جو بیروزگاری کی بڑھتی فوج کو کم کرسکنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس سال بھی وہی حال رہا جو کام کے نام پر مزدوروں کے جسم کا قطرہ قطرہ چوس لیا جائے مگر ڈھنگ کی آمدنی نہ ملے ، اس طرح کے ماحول کو دور کرنے والا کوئی بھی منصوبہ نہیں بنا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سال 2023 میں معاشی شعبہ میں ایسی کوئی خبر نہیں ہے جو اتنی بڑی ہو کہ زیادہ تر بھارتی شہریوں کی معاشی حالت کو بہتر بناسکتی ہو، اُن کی پریشانیوں کو دور کرسکتی ہو اور نہیں ایک بہتر و خوشحال زندگی کی طرف لے جاتی ہو۔ اس سال نریندر مودی کی طرف سے انتخابی تقاریر سے لے کر ملک و بیرون ملک کے پلیٹ فارمس سے خطاب میں ایک بات لگاتاردہرائی گئی کہ جب وہ تیسری بار وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوں گے تو بھارت کی معاشی حالت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گی اس بات کی وہ ضمانت دیتے ہیں۔ ضمانت یا گیارنٹی والا اعلان وزیر اعظم مودی نے بہت کیا تاکہ لوگوں کو متاثر کیا جاسکے اور میڈیا کی دنیا نے بھی مودی کی اس گیارنٹی کی بہت تشہیر کی جبکہ اس گیارنٹی کی اصلی حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے جارہا بھارتNP پر فی کس اوسط آمدنی کے لحاظ سے دنیا بھر کے194 ملکوں میں 139 ویں مقام پر کھڑا ہے مطلب سال2023 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے معاشی حالت کا غبارہ فروخت کیا مگر معاشی حالت میں موجود اصلی غریبی کو دور کرنے کی کوشش سے جڑی کوئی اہم خبر نہیں دی۔ جنہیں جی ڈی پی کے غبارہ سے ملک کی معاشی نبض کو دیکھنے کی عادت ہے ان کیلئے سال کے آخر میں اچھی خبر آئی۔ خبر یہ تھی کہ ملک کی جی ڈی پی نے معاشی سال 2023-24 کی دوسری سہ ماہی میں 7.6 فیصد کی جانب آگے بڑھی ہے۔ مطلب مالی سال 2022-23 کی دوسری سہ ماہی میں جتنی قومی مجموعی پیداوار تھی اس کے برعکس سال 2023-24 کی دوسری سہ ماہی میں 7.6 فیصد جی ڈی پی بڑھ چکی ہے، وزیر اعظم نے بھی تالیاں بجاتے ہوئے کہا کہ ان کی معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ ملک اس طرح تیزی سے ترقی کررہا ہے مگر یہاں پر غور کرنے والی بات یہ ہے کہ بھارت کی جی ڈی پی کا محض 57 فیصد حصہ Private Final Consumption Expenditure کا ہے، مطلب اس سے بناء ہے جو ہم نے اور آپ نے روزانہ کی ضروریات کے سامان اور خدمات پر خرچ کیا ہے۔ گذشتہ سال کی سہ ماہی کے مقابلہ اس میں صرف 3 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین اقتصادیات کی اصل فکر یہی ہے کہ بھارت کی قومی مجموعی پیداوار کا 55 فیصد سے لے کر 58 فیصد کا حصہ محض Private Final Consumption Expenditure سے بن رہا ہے، یہ حصہ بن نہیں رہا ہے بلکہ یہ حصہ تب ہی بڑھے گا جب عام لوگوں کی جیب میں زیادہ پیسہ جائے گا اور جب عام لوگ زیادہ خرچ کریں گے۔ جب زیادہ خرچ ہوگا تب کہیں معاشی حالت سدھرے گی۔ یہ سوئی 55 سے لے کر 58 فیصد کے آس پاس کئی برسوں سے اٹکی ہوئی ہے۔ مطلب جی ڈی پی حقیقت میں غبارہ کی طرح پھیل رہا ہے جس کے اندر ہوا بھری گئی ہے۔ عام آدمی کی حقیقت کا فی کس اوسط آمدنی سے پتہ چلتا ہے تو اس پر معاملہ یہ ہے کہ 140 کروڑ سے زیادہ آبادی والے بھارت کی کُل قومی مجموعی پیداوار سال 2023 میں1160 لاکھ کروڑ کے آس پاس رہی تو سال 2023 میں فی کس اوسط آمدنی سالانہ تقریباً 1.15 لاکھ روپئے دیکھی گئی یعنی مہینہ میں فی کس اوسط آمدنی 9 ہزار تا 10 ہزار کے درمیان رہی۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو بھارت کی سال بھر کی معاشی صورتحال کا سارا حال بتادیتے ہیں ۔ اتنی کم آمدنی میں جینے والے بھارتی معاشرہ میں مہنگائی کی خبروں سے سال بھرا رہا۔ کھانے پینے سے لے کر پڑھنے لکھنے تک ہر چیز مہنگی ہوتی رہی مطلب آمدنی کم اور معیارِ زندگی کی لاگت بڑھتی جارہی ہے۔ مہنگائی کنٹرول میں نہیں ہے، ریٹیل شعبہ میں مہنگائی کی شرح 4 فیصد سے زیادہ یعنی آر بی آئی کی مقررہ خطرہ کی گھنٹی سے اوپر بنی ہوئی ہے، مطلب مشکل سے دس ہزار کمانے والے کسی فرد کا دودھ، دال، چاول، پٹرول ، ڈیزل، گیس، اسکول اور کالج کا خرچ لگاتار بڑھتا جارہا ہے تو سوچیئے کہ اس کیلئے سال 2023 کیسا گذرا ہوگا۔ سنٹر فار مانیٹرنگ اکنامی نے 4293 سرفہرست کمپنیوں کے منافع کے بارے میں بتایا کہ مارچ 2023 میں ان کا نقد منافع پچھلے 3 سال کے مقابلہ 3.5 گنا زیادہ بڑھ گیا تھا۔ اس ملک کے اقتصادی منصوبوں میں کارپوریٹ اور سیاسی قائدین کی بددیانتی کے گٹھ جوڑ کا داغ لگ چکا ہے اس کا بھی بہت بڑا خلاصہ ہوا۔ پتہ چلے کہ گوتم اڈانی اور نریندر مودی کے گٹھ جوڑ سے نیا سامراج بھارت سنگھ چلا رہا ہے بھارتی حکومت نہیں۔ بندرگاہ سے لیکر ہوائی جہاز تک اور بجلی سے لیکر ٹیلی ویژن تک ہر جگہ اڈانی‘ اڈانی اور مودی‘ مودی کا کاروبار پھیلا ہوا ہے۔ مودی اور اڈانی سے ملکر بنے موڈانی ماڈل پورے بھارت پر حاوی رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چند لوگوں کیلئے معیشت چلائی جارہی ہے۔ اکسفام کی رپورٹ کے مطابق صرف 5 فیصد امیر ترین لوگوں کے پاس بھارت کی جملہ دولت کا 62 فیصد حصہ ہے۔بہرحال اب دیکھنا ہے کہ 2024 میں ہمارے ملک کی معیشت کس سمت میں جاتی ہے۔ مودی جی تو دعوے بہت کررہے ہیں لیکن ان کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ ان کے دعوؤں اور وعدوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہوں نے 2014 سے اب تک جو بھی وعدے کئے سب کے سب جھوٹے تھے۔