میڈیا ذرائع کے مطابق مودی حکومت نے 2000 روپے کی چھپائی بند کر دی ہے۔ یہ خبر گزشتہ کچھ مہینوں سے گشت کر رہے اندیشوں کو صحیح ثابت کر رہی ہے جس میں کہا جا رہا تھا کہ 500 اور 200 روپے کے نوٹ کی چھپائی پر مرکزی حکومت زیادہ توجہ دینا چاہتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا قدم اس شک کی وجہ سے اٹھایا گیا کہ بڑے نوٹ کا استعمال جمع خوری، حوالہ اور ٹیکس چوری میں ہو رہا ہے۔ اس قدم سے اپوزیشن لیڈران کی وہ بات صحیح ثابت ہو گئی جب انھوں نے 2000 کا نوٹ مارکیٹ میں لانے کے لیے مودی حکومت کی سخت تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ اس سے کالا بازاری کرنے والوں، حوالہ کاروباریوں اور ٹیکس چوری کرنے والوں کو آسانی ہوگی۔
یہاں خاص بات یہ ہے کہ بدعنوانی، رشوت خوری، جمع خوری اور حوالہ کاروبار پر قدغن لگانے کے مقصد سے ہی مودی حکومت نے نوٹ بندی کی تھی اور 1000 کے نوٹوں کی چھپائی بند کرا دی۔ لیکن حیران کن یہ رہا کہ 2000 کا نوٹ پیش کر بدعنوانوں کو مزید آسانی مہیا کر دی گئیں۔ اب ملک میں ایسے حالات ہو گئے ہیں کہ کئی شہروں کو نوٹوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جمع خوری اور حوالہ کاروبار سے پریشان مودی حکومت نے بالآخر قدم پیچھے کھینچتے ہوئے 2000 کے نوٹوں کی چھپائی ہی منسوخ کرنے کا فیصلہ لے لیا۔ حالانکہ وزارت مالیات کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ 2000 کے نوٹوں کی چھپائی بہت کم کر دی گئی ہے اور یہ منصوبہ پہلے سے ہی تھا کہ دھیرے دھیرے اس کی چھپائی میں کمی کی جائے گی۔
اچانک 2000 کے نوٹوں کی چھپائی بند کرنے سے اس کا اثر تو عام لوگوں پر پڑنا ہی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ نوٹ بندی کا جو مقصد بتایا گیا تھا، وہ پوری طرح فوت ہو گیا۔ گویا کہ عوام کا گھنٹوں بینکوں اور اے ٹی ایم کے باہر لائن لگا کر کھڑے رہنا رائیگاں چلا گیا۔ جمع خوری اور حوالہ کاروباری وغیرہ کا شک گزشتہ سال اپریل میں ہی صحیح ثابت ہو گیا تھا جب ملک کے کئی شہروں میں نوٹوں کی زبردست کمی ہو گئی تھی۔
حکومت کو اندیشہ تھا کہ پی این بی-نیرو مودی بینک فراڈ کے بعد لوگ پیسہ اکٹھا کر رہے ہیں۔ انکم ٹیکس محکمہ نے انتخابات کے دوران 2000 روپے کے نوٹوں کو کثیر تعداد میں ضبط بھی کیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ 2000 روپے کے نوٹوں کی تنقید کئی بینکر بھی کر رہے تھے۔ کوٹک مہندرا بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر اودے کوٹک نے حکومت کے ذریعہ 2000 روپے کے نوٹ بازار میں لانے کے فیصلہ پر سوال بہت پہلے کھڑا کیا تھا اور کہا تھا کہ 1000 کے نوٹ بازار سے ہٹا کر 2000 کا نوٹ لانا کسی بھی طرح مناسب نہیں۔
یہاں قابل غور ہے کہ نوٹ بندی سے قبل یعنی نومبر 2016 میں 500 اور 1000 کے نوٹ چلن میں موجود کرنسی کا 86 فیصد حصہ تھے، اور یہی وجہ ہے کہ پرانے نوٹ بند ہونے سے پورا ملک پریشانی میں مبتلا ہو گیا تھا۔ 2000 اور 500 کے نئے نوٹ دھیرے دھیرے مارکیٹ میں آنے کے بعد کچھ حالات بہتر ہوئے۔ 2017 کے آخر میں مارکیٹ میں موجود کرنسی کا 50.2 فیصد حصہ 2000 کے نوٹوں کا تھا اور پھر 2018 کے مارچ میں یہ حصہ گھٹ کر 37.3 ہو گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ آر بی آئی نے 2000 کے نوٹوں کی چھپائی میں کس قدر تیزی کے ساتھ کمی کی۔ یقیناً اس سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ پی ایم مودی کا نوٹ بندی کا فیصلہ بے وقوفانہ قدم تھا اور 2000 کے نوٹوں کی چھپائی بند کرنے کا فیصلہ اس بے وقوفی پر خود ہی مہر ثبت کرنے کے مترادف ہے۔