وینکٹیش راما کرشنن
وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ’’ایمرجنسی کے سیاہ ایام‘‘ کی 25 جون کو 46 ویں یاد مناتے ہوئے مودی نے اپنے ٹوئٹر پر تحریر کیا کہ 1975ء اور 1977ء کے درمیان سیاہ ایام کے دور کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ مدت منظم ہندوستان کے جمہوری اداروں کی تباہی کا مشاہدہ کرتی ہے۔ امیت شاہ نے پرشور انداز میں ایمرجنسی کے دنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹر پر ایک صف اول کے روزنامہ کیلئے اپنا ایڈیٹوریل تحریر کیا جس کا عنوان ’’جمہوریت کی تعریف ۔ نظام کے سماجی اور معاشرتی پہلو‘‘ میں تفصیل سے تحریر کیا ہے کہ آمرانہ ذہنیت اور ہندوستانی جمہوریت کی گزشتہ 45 سال کے دوران کیا خصوصیات رہ چکی ہیں، تاہم دونوں قائدین میں سے کسی نے بھی 12 جون 1975ء کے الہ آباد ہائیکورٹ کے تاریخی ساز فیصلہ کا تذکرہ نہیں کیا جس کی وجہ سے اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کی تھی۔ یہ فیصلہ جسٹس جگموہن لعل سنہا نے دیا تھا جس میں انہیں انتخابی بدعنوانیوں کا مجرم قرار دیتے ہوئے کسی بھی انتخابی عہدہ پر فائز ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ اندرا گاندھی نے فیصلہ کیا تھا کہ سماجی اور سیاسی اثرات پر جابرانہ اقدامات کے ذریعہ قابو پالیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی اور شاہ یا برسراقتدار بی جے پی کے کسی بھی قائد نے ایمرجنسی کے دنوں اور جمہوری نظام کی اس مدت کے دوران تباہی کا تذکرہ نہیں کیا۔ جبکہ دہلی ہائیکورٹ نے واضح الفاظ میں حکومت کی سرزنش کی۔
دہلی ہائیکورٹ کی سرزنش
اسٹوڈنٹ لیڈر و جہد کار نتاشا نروال، دیوانگنا ، کلیتا اور آصف اقبال تنہا جو ایک سال سے زائد عرصہ تک قید بھگت چکے تھے، ہائیکورٹ کی بینچ جو جسٹس سدھارتھ مردول اور انوپ جئے رام بھمبھانی پر مشتمل تھی، 15 جون کو کہا کہ احتجاج اور دہشت گردی میں فرق ہوتا ہے۔ اس نے غیرقانونی سرگرمیوں (انسداد) قانون کا حوالہ دیتے ہوئے عوام کی مخدوش صورتحال کا تذکرہ کیا اور کہا کہ سنگین تعزیری دفعات کا استعمال اور ان کا استحصال دوررس نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ دہلی ہائیکورٹ نے 15 جون اور 25 جون کے درمیان دیئے ہوئے ایک فیصلے میں وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی جانب سے ایمرجنسی کے تذکرہ کی مذمت کی اور کہا کہ مودی، حکومت کے دوران غیرمعلنہ ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے۔
ٹوئٹر اور صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر
اشتعال انگیز بیانات کے الزامات کے تحت ٹوئٹر پیغامات کے خلاف ایک عمر رسیدہ شخص عبدالصمد سلفی غازی آباد کے ساتھ پیش آئے ایک واقعہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ سلفی نے کہا تھا کہ انہیں ایک سنسان مقام پر لوگوں کے ایک گروپ نے منتقل کرکے زدوکوب کیا اور ’’جئے شری رام‘‘ کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا۔ صحافیوں اور خاص طور پر سیاست دانوں کے دباؤ ڈالنے پر غازی آباد پولیس نے ادعا کیا کہ ملزمین نے سلفی نامی شخص کو زدوکوب کیا تھا کیونکہ اس نے تعویذ فروخت کی تھی۔ غازی آباد پولیس نے ملزمین کی حیثیت سے ٹوئٹر اور صحافیوں محمد زبیر، رانا ایوب، صباء نقوی کو کانگریس قائدین سلمان نظامی، شمع محمد اور مذکور عثمانی کو نامزد کیا تھا اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔
وزیر کا ٹوئٹر پر دباؤ
مرکزی وزیر برائے قانون و انصاف روی شنکر پرساد نے غازی آباد پولیس کی کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کو چاہئے کہ ٹوئٹر کو انتباہ اور آزادی تقریر کو قانون کے مطابق یقینی بنائے کیونکہ حکومت کے خیال میں ان آزادیوں کا استحصال کیا جارہا ہے۔
ونیت نارائن کی ہراسانی
ونیت نارائن نامور صحافی اور انسداد کرپشن کارکن ہیں ، ان کے خلاف بجنور پولیس نے ایف آئی آر درج کی ۔دراصل ایک وی ایچ پی قائد اراضی پر غیرقانونی اور جابرانہ قبضہ میں ملوث تھے۔ ان کے قریبی بااعتماد ساتھی رجنیش اور الکا لاہوٹی کو قانون تعزیرات ہند کی 14 دفعات اور قانون انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دو دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرتے ہوئے مقدمہ شروع کیا گیا۔ دیگر ریاستوں جیسے آسام، بہار، گجرات اور گوا سے موصولہ اطلاعات کے مطابق جہاں بی جے پی یا تو اپنے بل بوتے پر برسراقتدار ہے یا این ڈی اے دیگر حلیف پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت تشکیل دے چکی ہے۔ واضح رہے کہ ان تمام مقدمات کے خلاف سماجی اور سیاسی کارکنوں اور صحافیوں نے اعتراض کیا تھا۔
قوم پرستی اور غداری
وسیع تر سیاسی سطح پر یہ پریشان کن تبدیلیاں بھی اہمیت رکھتی ہیں۔ سماجی سطح پر سیاسی پلیٹ فارم سے ملک گیر سطح پر غلبہ رکھنے والی ایک سیاسی پارٹی نے کہا کہ ہندوتوا کو عروج حاصل ہورہا ہے۔
داخلی سنگھ پریوار کے اثاثہ جات ’’قوم پرستی بمقابلہ غداری‘‘ کے پراجیکٹ میں تیز رفتاری پیدا ہوگئی ہے۔ پونے پولیس نے اگست 2018ء کو 21 ڈسمبر 2017 ء کے واقعہ کی تحقیقات کے بہانے کئی مکانات پر دھاوے کئے۔ فرید آباد میں اس سلسلے میں سدھا بھردواج کارکن ، حیدرآباد کے ورا ورا راؤ اور نئی دہلی سے گوتم نولکھا ، ممبئی سے گنزالویز اور ارون فریرا کو گرفتار کیا گیا۔ ان گرفتاریوں کے بعد سپریم کورٹ میں مورخ رومیلا تھاپر، ماہرین معاشیات پر بھات پٹناک اور دیوکی جین ، ماہر سماجیات ستیش دیشپانڈے ، انسانی حقوق کارکن ماجا دارو والا نے ان کارکنوں کی پونے کو منتقلی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں داخل کیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ نامور انسانی حقوق کارکنوں، وکلاء وغیرہ کی گرفتاری نامناسب ہے۔ مقدمہ کی سماعت کرنے والے جسٹس چندرا چوڑ نے کہا کہ عدالت نے سماعت کے بعد نشاندہی کی کہ جمہوریت کا تحفظ خطرہ میں ہے اور اگر ناراضگی کی اجازت نہ دی جائے اور ان کارکنوں پر دباؤ ڈالا جائے تو حالات دھماکو ہوسکتے ہیں۔
تاہم بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے کو 2019ء میں ایک اور میعاد کیلئے اقتدار حاصل ہونے کے بعد اور بڑے پیمانے پر اکثریت حاصل کرلینے کے بعد ’’قوم پرستی کا فلسفہ بمقابلہ غداری کا فلسفہ‘‘ بڑے پیمانے پر پھیل گیا اور ان کی ایماء پر جابرانہ اقدامات ان کارکنوں کے خلاف کئے گئے، جنہوں نے 2020ء میں سی اے اے کے خلاف احتجاج میں حصہ لیا تھا۔
پروفیسر گورو ورتی نے ایک ورقیہ میں تحریر کیا کہ ایمرجنسی ہم کو یاد دلاتی ہے کہ بڑے پیمانے پر برسراقتدار اشرافیہ طبقہ نے عوام کی آواز کا گلا گھونٹ دیا تھا چنانچہ وہ موجودہ حکومت کی اسی قسم کی کارروائی کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہیں کہ ان سے بھی ایسے ہی نتائج برآمد ہوں گے۔